Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 13, 2020

لاک ‏ڈاٶن ‏میں ‏ممبٸی ‏سے ‏وطن ‏سفر ‏کرنا ‏کتنی ‏بڑی ‏آزماٸش ‏تھی ‏۔۔۔۔۔۔۔۔قسط ‏دوٸم۔(2).

ٹرین میں سوار ہوکر سیٹ پر سامان رکھا توایسا محسوس ہوا جیسے بہت بڑی جنگ جیت لی ہو
لاک ڈاؤن میں ممبئی سے وطن سفر کرنا کتنی بڑی آزمائش تھی اس کا اندازہ اس روداد سے ہوسکے گا۔ دوسری قسط  .

حمزہ فضل اصلاحی./صداٸے وقت 
==============================
 وقفے وقفے سے ریلوے کی طرف سےپینے اور کھانے کیلئے بھی کچھ نہ کچھ آتامگر وہ سب کو نہیں ملتا ۔ سچ پوچھئے اسے حاصل کرنا بھی سب کےبس کی بات نہیں تھی۔ بیچ  میںپانی کی بوتلیں اور کھانے کے پیکٹ آئے۔ انہیں حاصل کرنے کیلئے ہاتھ بڑھا نا پڑتا ، چلانا پڑتا ۔ کچھ لوگ مسلسل مال مفت سمیٹ رہے تھے اور جو ہاتھ سمیٹے تھے وہ آخر تک ہاتھ سمیٹےہی رہ گئے۔کرلا ٹرمنس کے کسی بھی پلیٹ فار م پر ٹرین آتے ہی سب خوش ہوجاتے۔ میدان تالیوں سے گونج اٹھتا۔سامنے والی قطاریں ایک ایک کرکے کم ہورہی تھیں ۔اسی دوران یہ اعلان ہوا’’ سب لوگ کھا نا کھالیں ، ابھی ٹائم ہے ۔ جو کھا نا لائے ہیں ، وہ کھالیں اور جن کے پاس کھانا نہیں ہے،ان کیلئےہم انتظام کررہے ہیں۔ ‘‘

 ایک ہی الجھن ، ایک ہی سوال
میدان میں سب اسی سوال میں الجھے ہوئے تھے کہ آخر ٹرین کب آئےگی؟ گر وپ لیڈر بھی آگے پیچھے ہورہے تھے ، وہ سن گن لینے کیلئے آگےجاتے، وہاں سے آکر ادھوری بات بتاتے۔ سچ پوچھئے تو کسی کو کچھ نہیں معلوم تھا۔ وہاں کے کارکن بھی کچھ نہیں جانتے تھے۔ انسانوں کے سمندر میں اس طرح کے جملے تیر رہے تھے: ’’ساڑھے آٹھ بجے اعظم گڑھ کی ٹرین چھوڑیں گے۔ کل فلاں جگہ کی ٹرین اتنے ہی بجے چھوڑی گئی تھی‘‘۔ ’’ میرے فلاں رشتہ دار کل جونپور کی ٹرین سے گئے ہیں ، وہ بتارہے تھےکہ ٹکٹ بنانے میں ٹائم لگتا ہے ۔ ا س کے بعدہی بلائیں گے ۔ ‘‘
انتظارکرتےکرتے رات ہی میں ایک نیا دن شروع ہوگیا، یعنی ۲۷؍ تاریخ آگئی۔ گھڑی کی سوئیاں مسلسل گھومتی رہیں مگر ہر کسی کے چہرے کی سوئیاں بارہ ہی پررہیں ، گھڑی کی سوئیاں ایک سے آگے نکل گئی تھیں۔ میدان کاآگے کا حصہ خالی ہو ا۔ اعظم گڑھ کے مسافروں کو بلایا گیا۔سب آگے بھاگنے لگے۔ پھرسےقطاریںلگنےلگیں۔ پہلی والی قطاریں ادھر ادھر ہوگئیں۔ آگے والے پیچھے اور پیچھے والے آگے ہوگئے۔ اب لوگ تھوڑا مطمئن ہوگئے ۔ پلیٹ فارم نمبر ایک کی ٹرین روانہ نہیں ہوئی تھی۔یہ پلیٹ فارم خالی ہونے کا انتظار تھا۔ اتنے میں دوچار لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور گلا پھاڑنے لگے: ’’گاڑی خالی ہے، گونڈہ بستی والےجاسکتےہیں ۔ ‘‘ پھر بھیڑسے کچھ لوگ نکل نکل کر جانے لگے ۔ گھنٹو ں یہ سلسلہ چلتا ہے ۔ پھر یہ اعلان ہوا’’ لکھنؤ کی گاڑی خالی ہے۔  لکھنؤ والے جاسکتےہیں۔‘‘ لکھنؤ جانے کیلئے بھی کچھ لوگ نکلے۔ اس طرح بھیڑ کم ہوگئی ۔ تقریباً آدھا گھنٹہ خالی گاڑی بھرنے میں لگا۔ اسی درمیان کچھ لوگ آگے آتے اور کہتے’’بیٹھ جا ؤ ، گروپ لیڈ ر تیارر ہیں ۔ ‘‘ یہ عمل بار بارہوا۔
ایسا لگا کہ انتظار ختم ہوگیا مگر ......
اٹھنے بیٹھنے کا کھیل صبح تک چلتا رہا۔جیسے ہی کوئی ڈنڈا لئے اس طرف بڑھتالو گ اسے اٹھ اٹھ کر دیکھنے لگتے۔ وہ آتے ہی سیدھے ’’بیٹھ جاؤ،  بیٹھ جاؤ‘‘کی رٹ لگانے لگتا ۔ اکثر لوگ بیٹھ جاتے ، کچھ لوگ کھڑے رہتے تو وہ دھمکی دیتا’’ بیٹھ جاؤ ، ورنہ ٹرین کینسل کروا دیں گے ۔ صاحب کہہ رہے تھےکہ ٹرین کینسل کروا دو مگرہم نے رکوا دیا ۔‘‘ اس دوران کچھ لوگ کہتے کہ ارے جو بھی تاؤ دکھاناہے، اکڑ نا ہے ، گھر جا کر دکھانا ، ابھی بیٹھ جا ؤ،  تمہارے چکر میںکام بگڑجائے گا ۔‘‘کچھ یہ بھی کہتے’’ ٹرین کیسے کینسل کروا دو گے ؟ ریل منتری ہو کیا؟‘‘ خیر جیسے ہی بیٹھنے کی بات ہوتی ، سب اپنے اپنے گروپ لیڈر سےکہتے’’تیار ہوجاؤ ، اب نمبر آنے والا ہے۔‘‘ زیادہ شور ہونے پرگروپ لیڈرکھڑاہوجا تا،کا غذ دیکھنے لگتا۔ آگے بڑھنے کیلئے راستہ ڈھونڈنےلگتا مگر گھنٹوں گزر جانے کے باوجود کوئی نہیں آتا ، نتیجتاً لوگ پھر کھڑےہونے لگتے، ریلوے کو کوسنےلگتے۔ اسی طرح اٹھتے  بیٹھتے صبح کے ساڑھے ۴؍ بجے  بج گئے۔ اسی دوران کسی نے مجھ سے کہا’’ یا ر تم پترکا رہو ، کچھ کرو…‘‘ میں ان سے کیاکہتا ، مسکرا کررہ گیا۔ پھر کہنے لگے کہ کچھ نہیں توٹویٹ ہی کردو۔ان کی بات درست تھی۔ جو کچھ نہیں کرپاتا،  وہ ٹویٹ ہی کردیتاہے۔ میں نے فورا ً ونو با بھا وے نگر اسکول کی ایک تازہ تصویر وزیر ریلوے پیوش گوئل  اور کئی دیگر عہدیداران کو اس تبصرہ کے ساتھ ٹویٹ کی’’ دوپہر ایک بج کر ۳۰؍ منٹ پر یہ سفر شروع ہوا اور صبح ۴؍ بج کر ۱۰؍ منٹ تک یہ سفر شروع ہی نہیں ہوا ۔ ایل ٹی ٹی سے اعظم گڑھ جانے والی ٹرین آئی ہی نہیں۔ کھلا آسمان، بے بس انسانوں پر ہنس رہا ہے۔۲۶؍ کوٹرین ہلی ہی نہیں ۔ ‘‘ جواب نہیں آنا تھا ، نہیں آیا۔
 آدھے سوئے آدھے جاگے ہوئے لوگ بھاگنے لگے
 اتنے  میں پتہ چلا کہ پلیٹ فارم نمبر۴؍پر اعظم گڑھ کی ٹرین کھڑی ہے۔کچھ جاگے اور کچھ سوئے ہوئے لوگ اٹھنےلگے۔کوئی کاغذ نہیں دیکھاگیا۔ سارے گروپ بکھر گئے ، بھگڈر جیسا ماحول تھا ۔ سب اپنا اپنا سامان اوربچے سنبھالےپلیٹ فارم نمبر۴؍پر جانے کی کوشش کرنے لگے۔ میرے سامنے اسی بھیڑ میں ایک نوجوان غش کھاکر گر پڑا۔ ابھی وہ سنبھل  بھی نہیں پایا تھا کہ کسی نے تبصرہ کیا’’ بتاؤ جوانی میں یہ حالت ہے۔‘‘ اس پر نوجوان نے کہا’’ میری طبیعت خراب ہے۔ ‘‘ اسی طرح میرے پیچھے ایک جوڑا تھا ، ان کے ساتھ ایک بچی تھی، وہ سرائے میرکے تھے ۔انتظار کے دوران  انہوں نے بتایا تھا کہ وہ علاج کیلئےممبئی آئے تھے، لاک ڈاؤن میں پھنس گئے تھے۔ یہ جوڑا بھی اسٹیشن پہنچنے کی کوشش کرنےلگا۔ شوہر نے بچی کو لیا اور بیگ بیوی نے سنبھال لیا۔ اس طرح لوگ ہزار دشواریوں کے  باوجود آگے بڑھنےلگے۔ صورتحال زیادہ خراب ہونے لگی تو پولیس نےلاٹھیاں برسائیں جس پرکچھ لوگ چلائے’’ارے یار لاٹھیاں مت برساؤ،بھگڈر مچ سکتی ہے۔ ‘‘پولیس والے رک گئے۔ اسی دوران کچھ حد تک حالا ت قابو میں آئے، لوگ رک رک کر چلنے لگے۔ میں کرلا اسٹیشن کے قریب پہنچا، وہاں ایک پولیس والا نظر آیا ۔ میں نے پوچھا ’’آپ اس حالت میں بھی ڈنڈے برسارہے ہیں،  ایسا کیوں کررہے ہیں ؟‘‘ وہ بولا’’ میں بھی یو پی کا ہوں ، یو پی والے بغیرڈنڈے کے مانتے ہی نہیں ، دیکھو ڈنڈے ہی سےبھیڑ رکی ہے۔ ‘‘ پھر وہ کہنے لگے’’ اس میں ریلوے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، تم لوگ کم بھی ہو… اب یہ الگ بات ہے کہ آپ نےباہر ہزار ہزار دو ہزار  دیئے ہیں۔‘‘
 جنگ جیت لی
کسی طرح پلیٹ فارم نمبر ایک پر آگئے ، بھا گتے ہوئے زینے طے کرکے پلیٹ فارم۴؍ پر پہنچے ۔ ٹرین میں بٹھانے والا کوئی نہیں تھا ، کسی نےکچھ نہیں کہا، فارم بھی نکالنے کی نوبت نہیں آئی ، ٹکٹ بھی نہیں ملا ۔ وہاں ایک سیٹ پر بیٹھے ڈرے سہمے سمٹے پولیس اہلکار سے میں نے اجازت لی کہ ٹرین میں بیٹھ جا ؤں ۔ اُس نے کہا ’’ہاں جاؤ۔‘‘بس ہم ایک خالی ڈبے میں سوار ہوگئے، سامان رکھا۔ ایسالگا کہ بہت بڑی جنگ جیت لی ہے۔  مختصر یہ کہ ۲۷؍ مئی کو ۵؍بجے صبح ٹرین پر سوار ہوئے۔
جان میں جان آئی
کر لا سے ٹرین روانہ ہوئی تو جان میں جان آئی ۔ تھوڑی دیر تک ’کرم بھومی‘ ممبئی کے لوکل اسٹیشنوں کو دیکھا۔ ٹرین تھانے پہنچ گئی ، خوابوں کے شہر کو الوداع کہہ کر ایک نیاخواب دیکھنے کیلئے سو گئے۔ پھرعام دنوں کی طرح ٹرین چلتی رہی۔ سارے اسٹیشن آتے رہے۔ ٹرین معمول کی رفتار سے آگے بڑھتی رہی  جو کچھ ہی اسٹیشنوں پر رُکی، جس اسٹیشن پر رکتی، لوگ داناپانی کا انتظام کرنے لگتے ۔ مہاراشٹر کے تمام اسٹیشنوں کی کینٹین کھلی ہوئی تھیں۔ اگت پوری میں بھی لوگ کھانا تقسیم کررہے تھے جو سب کو نہیں ملتا تھا۔ مہاراشٹر گزرنے کے بعد عام طور پر کینٹین بند تھیں ،رات کی وجہ سے ایسا تھا یا وہاں بند کر نے کاحکم تھا، مجھے اس کا علم نہیں ۔
(تیسری قسط کل ملاحظہ فرمائیں)