Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 13, 2020

لاک ‏ڈاٶن ‏میں ‏ممبٸی ‏سے ‏وطن ‏سفر ‏کرنا ‏کتنی ‏بڑی ‏آزماٸش ‏تھی ‏؟ ‏ ‏ ‏ ‏قسط ‏اول۔

میری جانب بھی کھانے کا پیکٹ بڑھا، یہ اس قسم کا پہلا تجربہ تھا، میرا ہاتھ بڑھ ہی نہیں پارہا تھا!
لاک ڈاؤن میں ممبئی سے وطن سفر کرنا کتنی بڑی آزمائش تھی اس کا اندازہ اس روداد سے ہوسکے گا جس کی دوسری قسط کل شائع ہوگی۔   
حمزہ فضل اصلاحی/صداٸے وقت ۔
=============================

باسی عید تھی ، ہم کچھ دیر پہلے نیند سے بیدار ہوئے تھے، چائے پانی کے بعد کھاناپکانے کی تیاری کررہے تھے۔ اتنے میں اطلاع ملی:’’ کرلا سے اعظم گڑھ کی شرمک اسپیشل ٹرین جانے والی ہے، فوراًآچار یہ ونو با بھاوے نگر مہانگر پالیکااسکول پہنچئے ۔‘‘ اس گھڑی کا بے صبری سے انتظا ر تھا۔ جیسے تیسے پہلے سے گندھے ہوئے آٹے سے روٹی اور پوری بنائی ۔ فریج کھنگالا جو بھی کچا پکا ملا سب ایک جھولے میں بھر لیا ، بوتلوں میں پانی لے لیا، جیسے تیسے نہا بھی لیا۔ راستے سے بریڈاور پانی کی بوتلیں خرید لیں۔ چند قدم چلے، اسکول آگیا۔ باہر بھیڑ تھی، ایک چھوٹا سا گیٹ کھلا تھا۔ ہم اسی سے اندر داخل ہوگئے۔ کچھ لوگ باہر تھے کچھ اندر، گہماگہمی بھی تھی اور افراتفری بھی جبکہ دھوپ تیز۔ اسکول کے بر آمدے میں لوگ جمع تھے، قطاریں لگی ہوئی تھیں، سامان رکھا ہوا تھا، اس پر یا اس کے آس پاس لوگ بیٹھے یا کھڑے ہوئے تھے ۔
 چلچلا تی دھوپ اور پنکھا جھلتی عورتیں
رہ رہ کر اعلان ہوتا کہ بیٹھ جائیے۔ جب لوگ نہیں بیٹھتے تو بھیڑ کو سنبھالنے والے کارکن جھلا کر کہتے: ’’ بیٹھ جایئے، بیٹھ جائیے، سنتے کیوں نہیں؟ ‘‘ کچھ دھمکی بھی دے دیتے: ’’ مت بیٹھئے، دن بھر یہیں بیٹھنا پڑے گا، ٹرین کینسل ہوجائے گی۔‘‘ ا ب کھڑے ہوئے افراد سےبیٹھے ہوئے لوگ التجا کرتے: ’’ بیٹھ جاؤ یا ر...سب کام خراب ہوجائے گا۔‘‘
وقفے وقفےسےاعلان ہوتا رہا۔ میدان میں صرف مقامی افراد نہیں تھے، اطراف کے لوگ بھی تھے، ایک شخص پرائیویٹ گاڑی سے  تلوجہ سے آیا تھا، اس کے ساتھ اس کی فیملی تھی جن میں بچے بھی تھے۔ 
چلچلاتی دھوپ میں بچے بوڑھے جوان سب تھے، خواتین بھی تھیں۔ شدید گرمی تھی۔ اسکول کے احاطے میں کچھ خواتین ہاتھ والا پنکھا بھی جھل رہی تھیں۔ جب گرمی زیادہ پریشان کرنے لگتی تو لوگ ہوا کھانے کیلئےمیدان کے خالی حصےمیں چلے جاتے جہاں واقعی سکون ملتا تھا۔ کارکنوں کو کچھ پتہ نہیں تھا ، و ہ بس اعلان کر رہے تھے۔ کچھ دیر میں کہا گیا کہ تیار رہئے، چار بجے بس پر بٹھا دیں گے۔ یہ سن کر لوگ تھوڑا مطمئن ہوگئے، اپنے اپنے بیگ سے نکال کر کچھ کھانےپینے لگے ۔ 
  بھیڑ سے بھاگتے بھاگتے بھیڑمیں آگئے 
لاک ڈاؤن کا ’’پالن‘‘ کرنے یعنی محصور رہنے کے بعد اچانک اس طرح نکلنا اور پھر اتنے سارے افراد کے درمیان بیٹھنا ایک عجیب سا تجربہ تھا ۔ کچھ لوگ خوفزدہ تھے۔ بار بار سینی ٹائزر لگارہے تھے۔ اسی میں تبصرے بھی ہورہے تھے۔ میرے قریب ایک معمر شخص تھے ، ان کے آگے ایک داڑھی ٹو پی والا نوجوان کھڑ اتھاجسے وہ کچھ دیر تک دیکھتے رہے، پھر بولے: ’’لگتا ہے جماعتی بھی آگئے ہیں ۔‘‘ ماسک تھا ، ان کا چہر ہ دیکھ نہیں سکا مگر اُن کےلہجے میں خوف تھا ۔ بے اطمینانی تھی ۔ 
اسکول کے دوسرے گیٹ پر پانی ، ماسک اور گٹکھا فروخت ہورہا تھا جہاں ہر وقت خریدار رہتے تھے، ماسک کوئی خرید نہیں رہا تھا، حالانکہ وہ رنگ برنگ کےتھے، فینسی بھی تھے۔ پانی کی اچھی خاصی ڈیمانڈ تھی مگر گٹکھے سے کم ۔ پہلو بدلتے بد لتے اور یہاں وہاں دیکھتے ہوئے گھڑی کی سوئیاں بڑھ رہی تھیں۔ موبائل کی اسکرین نے چار بجنے کا اعلان کیا۔ کوئی نہیں آیا، ہا ں سایہ آگیا، دھوپ چلی گئی ۔ سب گیٹ کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں تھاکہ آگے کیا ہونے والا ہے ؟
اسکول سے نکلنے کی تیاری
پانچ اور ساڑھے پانچ کے درمیان مقامی پولیس اسٹیشن کے سینئر پولیس انسپکٹر راجیش پوارکچھ پولیس اہلکاروں کے ساتھ اسکول میں داخل ہوئے۔ ایک اہلکار اعلان کررہا تھاکہ آپ کو ۳؍ بجے بلا یا گیا تھا، آپ بہت پہلے آگئے ہیں۔ تھو ڑا اور انتظار کیجئے۔ ان کے ہاتھ سے مائیک لےکر سینئر پی آئی نےبھی کچھ ہدایتیں دیں ۔ تھوڑا اور انتظار کرنے کیلئے کہا۔ واقعی تھوڑا ہی انتظا ر کرنا پڑا۔ کچھ ہی دیر میں اعلان ہو ا کہ سارے گروپ لیڈر اپنا اپنا فارم لے کر تیار ہوجائیں ۔سب ایک ایک کرکے کھڑے ہونے لگے ۔ قطار میں لگ گئے ۔ خدا خدا کرکے ہمارا بھی نمبر آگیا ۔ گیٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ راستے میں مقامی کا رپوریٹر اشرف اعظمی اور دوسرے لوگ کھا نے کے پیکٹ تقسیم کررہے تھے ۔ میری طرف بھی ایک پیکٹ بڑھا یا گیا۔ زند گی میں پہلی بار اس کا تجربہ ہوا تھا۔ میرا ہاتھ بڑھ ہی نہیں رہا تھا ۔ میں سوچنے لگا ۔اتنے میں کسی نے کہا کہ لے لو شرماؤ نہیں، راستے میں کچھ نہیں ملے گا۔ اس  اصرار پر پیکٹ سنبھالتے ہوئے میں اور میرے ہم سفر آگے بڑھے۔
بس میں سوار ہوئے
پیدل چلتے ہوئے بریج کی طرف بڑھنے لگے۔ کہاجاتا ہےکہ یہ بریج آنجہانی سنیل دت کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس بریج سے میری گہری دوستی ہے، لاک ڈاؤن سے پہلےاس پر چہل قدمی کرتا تھا ۔ مہینوں بعد یہاں آیا تھا مگر اس وقت ذہن میں بریج وریج کچھ تھا ہی نہیں، صرف بسیں نظر آرہی تھیں ۔ شام کے ۶؍ بجتے بجتے ہم بس میں سوار ہوگئے۔ اطمینان ہوا کہ اب منزل تک پہنچ ہی جائیں گے۔کچھ دیر میں بس کرلا ٹرمنس کیلئے روانہ ہوئی، وہاں پہنچنے میں اچھا خاصا وقت لگ گیا۔ پانچ منٹ کا راستہ آدھے گھنٹے میں طے ہوا، بس باربار رکتی تھی۔ رکتے رکتے ہم بریج کی دوسری جانب پہنچ گئے، یہاں بس رکنے پر برا نہیں لگا،کیونکہ بس کی کھڑکیوں سے خوشگوار ہوا کے جھونکے آرہے تھے۔ ہم کر لا ٹرمنس کے قریب پہنچ گئے۔ منزل سے پہلے آخری مرتبہ بس رکی۔ نظر اٹھائی، سامنے کر لا ٹرمنس پر سر ہی سر نظر آرہے تھے ۔ 
یہ بھیڑ دیکھ کر پھر حوصلہ پست ہونے لگا۔ بریج کے فٹ پاتھ پر انڈیا ٹی وی کا رپورٹر نظر آیا جو اپنے کیمرے میں یہ منظر قید کررہا تھا۔ ہمیں بس سے اتارا گیا ۔ پولیس اہلکار ڈنڈا لئے ہوئے جا بجا کھڑے تھے۔ کچھ بس کے مسافر وں کو راستہ بتارہے تھے، وہ مسلسل چلا رہے تھے: ’’ وڈالا والے اس راستے سے جائیں، وی بی نگر (کرلا) والے اس راستے جائیں۔ ‘‘ تھوڑا بہت بھٹکتے بھٹکتے ہم کرلا ٹرمنس کے سامنے کھلے میدان میں پہنچے۔ وہاں پہلے سے گونڈہ بستی جانے والوں کی لائن لگی تھی۔ اس کے پیچھے اعظم گڑھ جانے والوں کو قطار میں لگنا تھا۔ یہاں پہنچتے پہنچتے سورج ڈوب چکا تھا ۔ زیادہ اجالا اور تھوڑ اندھیرا تھا۔ غالباً سوا سات بچے ہم اپنا سامان لئے دوسری لائن میں بیٹھ گئے ۔ اس لائن میں آگے ہی تھے۔ مطمئن تھے کہ چلو آگے ہیں ،نمبر آہی جائیگا ۔ گھرنہیں لوٹنا پڑے گا۔ سامان رکھا اور بیٹھ گئے۔
اوپر خوشنما آسمان نیچے انسانوں کا سمند ر 
اوپر دیکھا چاند تھا، تازہ تازہ تھا، نووارد تھا۔ اسے بھی دیکھ کر کسی کسی نے کہہ دیاکہ یہ دو دن کا چاند نہیں لگتا۔ یعنی ممبئی میں عید ایک دن بعد منائی گئی ہے۔ آسمان صاف تھا، اس پر روئی کے گالوں کی طرح بادل وقفے وقفے سے چاند کو چھپا لیتے تھے۔ کھلے میدان میں خنک ہوائیں چل رہی تھیں۔ ان سب میں کھونے کے بعد جیسے ہی نظر زمین پر پڑتی، سب بھول جاتے۔ اترانے اور ناچنے والے مور کو اپنا بدصورت پیر دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہوگا۔ میدان میں انسانوں کا سمندر تھا، ان میں روتے بلکتے بچے تھے، ان کی مائیں بار بار ان کا ماسک درست کررہی تھیں، ان کی دوسری ضرورتیں پوری کروانے کیلئے جھاڑ جھنکاڑیا میدان کے خالی حصے میں آجا رہی تھیں۔ جھلا ّکر پنکھے کے ڈنڈےیا اپنے ہاتھ سے بچوں کو مارنے والی مائیں بھی تھیں۔ کچھ بچوں کی آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں مگر اس کھلے میدان میں وہ سوتے کیسے ؟ بہت چھوٹے بچے اپنی ماں یا باپ کی گود میں سوجاتے مگر تھوڑی تھوڑی دیر میں اٹھ کر بیٹھ جاتے ۔ بڑے بچے سونے کیلئے پریشان تھے ، زیادہ دیر ہوگئی تو وہ بھی بیگ یا اپنے سامان پر سر رکھ کر سوگئے۔ (جاری)