Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 14, 2020

لاک ‏ڈاٶن ‏میں ‏ممبٸی سے ‏وطن ‏سفر ‏کرنا ‏کتنی ‏بڑی ‏آزماٸش ‏تھی۔۔۔۔۔۔سفرنامہ ‏قسط ‏سوٸم ‏(3).

چھیو نکی اسٹیشن پر دیکھا پولیس اہلکار ممبئی کے مسافروں سےکافی خوفزدہ تھے 
لاک ڈاؤن میں ممبئی سے وطن سفر کرنا کتنی بڑی آزمائش تھی اس کا اندازہ اس روداد سے ہوسکے گاجس کی یہ تیسری قسط ہے جو شائع ہورہی ہے۔ چوتھی اور آخری قسط کل (پیر) کے شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
از/ حمزہ فضل اصلاحی/صداٸے وقت۔
=============================
  کچھ ہی دیر میں مدھیہ پردیش آگیا، وہاں کے کچھ اسٹیشنوں پر مسافروں کو پانی، کیلا، بریڈ اور بسکٹ وغیرہ دیا گیا۔ برہان پور اسٹیشن پر کچھ ٹوپی کرتا والے لوگ ویج پلاؤ تقسیم کررہے تھے۔کھانے والے نے بتایاکہ اس کی کوالیٹی بہت اچھی تھی، گرم گرم تھا، عام دنوں میں  ایسا کھا نا نہیں ملتا۔ وہاں کےمٹکوں سے لوگ پانی بھی بھر رہے تھےجس کے اوپر ایک مندر کے ٹرسٹ کا بینر لگا ہوا تھا۔ ٹرین معمول کی رفتار سےچلتی رہی۔ مسافر خوش تھے کہ ٹرین اسی رفتار سے چلتی رہی تو ہم شام ۴؍ بجے تک اعظم گڑھ پہنچ جائیں گے ۔
منزل قریب آگئی تو ٹرین صبر کا امتحان لینے لگی

دو ریاستوں سے گزر کر ٹرین اترپردیش میں داخل ہوگئی۔ ٹرین کے باہر دیکھ کر اپنائیت کا احساس ہونے لگا۔ وہی کھیت کھلیان، وہی بجلی کے کھمبے.. وہی نئے پرانے بجلی کے تار .. سب اپنے ضلع جیسا، ویسےہی میدان، پیڑ لگانے کا انداز بھی وہی۔ پوروانچل کے اکثر اضلاع ایک ہی طرح سےبسے ہوئے ہیں ۔ ہر جگہ کھیت کھلیان اور باغات اسی طرز کے ہیں۔ شہروں میں فلیٹ آگیا ہے مگر گاؤں دیہاتوں میں اب بھی علاحدہ علاحدہ گھر ہیں۔ ان میں کچھ شاندار ہیں، کچھ متوسط ہیں ، کچھ کچے پکے ہیں تو کچھ صرف کچے ہیں یا صر ف پکے ہیں۔ ابھی گاؤں دیہاتوں میں پاش کالونی یا خالص جھوپڑپٹی علاقے کا تصور نہیں ہے۔ ٹرین دوڑ رہی تھی۔ راستے میں ندیاں بھی آئیں ۔ کھیتوں میں کام کرنے والے بھی نظر آئے۔
الٰہ آباد کے چھیو نکی اسٹیشن پر ٹرین رکی۔ پھر آگے بڑھی مگر اس شان سے نہیں جیسے مہاراشٹر اور ایم پی میں بڑھ رہی تھی۔ لگاتار تیز رفتار سے چلنے والی ٹرین سستانے لگی۔ رک رک کر چلنے لگی، رفتار کم ہونے لگی ۔ چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر گھنٹوں رکنے لگی۔ اس کے باوجو د مسافر بےچین نہیں تھے۔ ٹرین رکنے پر کچھ زیادہ تبصرہ نہیں کررہے تھے۔ سونے کے بھی موڈ میں نہیں تھے۔ چہک رہے تھے۔ میں نے ایک بڑے میاں اور ایک نوجوان کا مکالمہ محفوظ کرلیا تھا۔ ملاحظہ کیجئے : ’’گاؤں پہنچنے کے بعد لوگ پوچھیں گے کہاں سے آئے ہو؟ممبئی میں کہاں رہتے تھے؟‘‘.........’’بتادوں گا کہ دھاراوی سے آیا ہوں۔‘‘
’’نہیں یہ مت کہنا.. بتانا کہ جوگیشوری سے آیاہوں۔‘‘
  اسی دوران کچھ عورتیں نقاب پہننے لگیں۔ ساڑی والی عورتیں نئی ساڑیاں بدلنے لگیں۔ اپنے بال بھی سنوارنے لگیں۔ عام دنوں میں یوپی کی ٹرینوں میں بھی گھر قریب آتے ہی یہ سب ہوتا ہے۔
   یہ بستی ،یہ لوگ اورننھی ہتھیلیاں میشہ یاد رہیں گی
    گاڑی کاشی سے بنارس کے درمیان تھی۔ ٹرین رینگ رینگ کر بنارس کی طرف بڑھ رہی تھی۔لنگی پہنے اور سرپہ ٹوپی لگائے کچھ لوگ پانی اور بسکٹ تقسیم کررہے تھے.. ان کے اطراف میں کوئی کیمرہ نہیں تھا، وہ نیکی کرکے دریا میں ڈال رہے تھے۔ مجھے یہ منظر دیکھ کر وہ ڈرے ہوئے اورسہمے لوگ یاد آئے جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ چھیونکی اسٹیشن پر ایک صفائی ملازم آیا ، اس نے آتے ہی ساری کھڑکیاں بند کروائیں ، سب نے سوچا کہ لگتا ہے سینی ٹائز کیا جائے گا۔ وہ جھاڑ و لگا کر چلاگیا، پھر سب نے دھیرے دھیرے کھڑکیاں کھول لیں ۔ اسی طرح جبل پور اسٹیشن پر ریلوے کے ملازم ہر ڈبے کے سامنے پانی کی بوتلیں گرا کر آگے بڑھ رہے تھے۔ وہاں کے پولیس اہلکار کسی مسافر کو اس جگہ سے پانی بھر نے نہیں دے رہے تھے جہاں سے وہ خود پانی بھر تے تھے، انہیں ممبئی کے مسافروں سے اتنا خوف تھا ۔ وہ سوچ رہے تھے کہ یہ مسافر اپنے ساتھ ممبئی سے کورونا لائے ہیں۔
 ویسے بھی یہ بات ہر جگہ پھیلی ہوئی تھی کہ بڑے شہروں سے آنے والے کورونا پھیلا رہےہیں۔ ان سب کے درمیان بنارس والے ممبئی کے مسافروں کی خدمت کررہے تھے، آگے بڑھ بڑھ کر انہیں کھلا پلا رہے تھے۔ ان کی بستی پر نظر ڈالی تو وہ ریلوے لائن کے کنارے کی عام بستی کی طرح تھی، ٹوٹی پھوٹی تھی۔ دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ بستی جانی پہچانی ہے۔ حافظے پر زور ڈالا، یاد آیا کہ غالباً یہ بنارس کی وہی بستی ہے جو اکثرسیلاب میں ڈوب جاتی ہے، اس کی تصاویر روزنامہ انقلاب ممبئی کے اترپردیش / بہار کے صفحہ پر شائع ہوچکی تھیں۔ اسی بستی کے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے گھر کے کنارے کھڑے ہوکر ہاتھ ہلا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میں آبدیدہ ہوگیا۔ دھوپ میں دور سے ہلتی ہوئی ننھی ہتھیلیاں بتارہی تھیں کہ یہاں بہت دنوں سے یہ سب ہورہا ہے۔ اب بڑوں کو دیکھ کر بچے بھی ہاتھ ہلانے لگے ہیں۔
پولیس والے لاٹھیوں سے بھی کسی کوچھونا نہیں چاہتے تھے
بنارس اسٹیشن پہنچے.. یہاں کھانا تقسیم ہورہا تھا،پانی بھی۔کچھ جلدی جلدی مالِ مفت پر ہاتھ صاف کررہے تھے حالانکہ منزل قریب آگئی تھی۔ یہاں بھی پولیس والے خوفزدہ تھے۔ ممبئی کے مسافروں سے دور بھاگ رہے تھے۔ اپنی لاٹھیوں سے بھی کسی مسافر کو چھونا نہیں چاہتے تھے۔ اسی دوران کچھ مسافر اترگئے۔ وہ باہر نکلنے لگے، انہیں روک کر دور سے پولیس اہلکاروں نے بتایا: ’’یہاں بسوں کا انتظام نہیں کیا گیا ہے ۔ اپنی گاڑی منگواکر جاسکتےہیں۔ ‘‘ یہ سن کر کچھ رک گئے اور کچھ بڑھ گئے۔
بنارس سے ٹرین نکلی، بابت پور پہنچ کر رکی۔ بابت پور ہوائی اڈہ کئی مرتبہ دیکھ چکا ہوں مگر یہ ریلوےاسٹیشن پہلے کبھی نہیں تھا۔ سامنے والےپلیٹ فارم پرلوگ مال گاڑی سے گرا ہوا کوئلہ سمیٹ کر اسٹیشن کےباہر پھینک رہے تھے۔ کچھ لوگ اسٹیشن کی پٹریوں پر بھینس بھی چرا رہے تھے۔ لاک ڈاؤن کا کوئی خاص اثر نہیں تھا۔کسی کے چہرے پر ماسک نہیں تھا۔ کوئی انگوچھا بھی نہیں اوڑھے ہوئے تھا۔
ٹرین کہا ں رکے گی ؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں
کچھ دیر میں ٹرین نکلی، پھر جعفر آباد میں بہت دیر تک رکی رہی۔ یہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ٹرین سے اتری۔ وہ دوپٹریوں کے درمیان بیٹھ کر ہنسی مذاق کرنے لگے۔ سگریٹ بیڑی سلگانے لگے۔ جونپور کے مسافر پر تولنے لگے۔ ان کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی۔ گھر والوں کو فون پر بتانے لگے کہ جونپور آگئے ہیں۔ اعظم گڑھ کے دوسرے مسافر بھی اپنے اپنے گھر والوں کو فون کرنےلگے کہ ’’ گاڑی جونپور آگئی ہے۔ تیار رہنا، ضرورت پڑ نےپر بتائیں گے ، گاڑی لے کر آجانا۔‘‘
جعفرآباد سے ٹرین نکلی، کہیں نہیں رکی ، سیدھے شاہ گنج پہنچی، وہاں بہت سے لوگ اترنا چاہتے تھے۔ کچھ نے کوشش بھی کی مگر اسٹیشن پر کھڑے پولیس اہلکاروں نے روک دیا۔ سورج ڈوب چکا تھا۔ ٹرین کی رفتار پھر تیز ہوگئی۔ ہم نے سوچا کہ ٹرین سرائے میر رکے گی، اترکر گھر چلے جائیں گے مگر شاہ گنج کے بعد ٹرین پوری رفتار سے آگے بڑھی ۔ اور رات۸؍بجے سیدھے اعظم گڑھ پہنچ کر دم لیا۔
قطاریں ،اسکریننگ اور سینی ٹائزر
پلیٹ فارم (کے فرش) پر نفاست کے ساتھ بنے ہوئے دائروں (برائے سوشل ڈسٹنسنگ) کے اطراف میں پولیس اہلکار کھڑے تھے جو مسافروں کو اترنے سے روک رہے تھے۔ کچھ دیر میں کچھ لوگ آئے۔ ہر بوگی کے ایک ایک شخص کا نام لکھنے لگے۔ والد کا نام، عمر، بلاک، تحصیل اور گاؤں وغیرہ کی بابت پوچھا۔ یہ تفصیل بتانے والے مسافر ٹرین سے اتر کر دائرہ میں کھڑے ہوجاتے۔ کچھ ہی دیر میں لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ اسکریننگ ہونے لگی۔ ادھر کچھ لوگ جلدی جلدی ہاتھ میں سینی ٹائزر لگانے لگے۔ بخار کش گولیاں کھانے لگے۔ ایک ۴۵۔۴۰؍ سالہ اچانک باہر سے اندر آیا اور اپنی گھر والی سے بولا: ’’ جلد ی سے سیٹی نائزر دو، کہاں رکھ دیا ؟‘‘ وہ کہیں کھو ئی ہوئی تھی۔ ہڑبڑا کر پوچھنے لگی:’’کیا روٹی چاہئے، وہ ختم ہوگئی ہے۔ ‘‘
اس جواب پر وہ آگ بگولا ہوگیا اور آگے بڑھ کر خود ہی بیگ ٹٹولنے گا۔  (جاری)