Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, June 9, 2020

اصلاح ‏کیجٸے ‏شرمندہ ‏نہیں ‏!

از/ حمزہ فضل اصلاحی ممبٸی /صداٸے وقت
=============================
یہ گاؤں کے نوجوانوں کی محفل ہے ۔لاک ڈاؤن میں سب ایک کمرے میں بیٹھے گپ شپ کر رہےہیں ۔ ہنسی مذاق کررہےہیں۔ دنیا جہان کی باتیں کررہےہیں ۔ مختلف مسائل پر تبصرہ کررہےہیں۔ اسی دوران ایک نوجوان نے کسی موضوع پر گفتگو کرتےہوئے کہہ دیا :’’ چاہے کچھ بھی ہو .. اس میں اللہ کی خوشی ہے۔‘‘  اس  پر کسی نے دھیان نہیں دیا ۔ گفتگو مکمل ہونے کے بعد ایک نوجوان نے ٹو کا :’’ اللہ کی خوشی نہیں ، اللہ کی مرضی ہےکہو یار۔ ‘‘
  اس کے بعد چاروں طرف سے جملوں کی بارش ہونے لگی ۔ کسی نے کہا : ’’ہاں یا ر! بولنے کا سلیقہ سیکھ لو..  سو چ سمجھ کر بولا کرو ۔ ‘‘ کسی نے کہا : ’’ چلو یہاں بول دیئے کوئی بات نہیں .. کسی اور محفل میں بولتے تو  بڑی بے عز تی ہوتی ۔ ‘‘
  ظاہر ہے کہ اس کا مقصد اصلاح کرنا نہیں ہے بلکہ شرمند ہ کرنا ہے۔ ایسا ہرکسی کی محفل میں  کیا جاتا ہے۔بچے بوڑھے اورجوان کوئی اس سے محفوظ نہیں ہےجسے بھی موقع ملتا ہے و ہ غلطی کا احساس دلا کر شرمند ہ کرنا چاہتا ہے۔ 
  جہاں تک اس محفل کا سوال ہے؟میرے خیال سے ایسی محفلوں میں  اس طرح کے جملوں اور تبصروں کی اجازت ہونی چاہئے ، کیونکہ بے تکلف دوستوں کی محفل میں یوں بھی کسی کو بھڑکانے اور مشتعل کرنے کے سو سو بہانے ڈھونڈے؎ جاتے ہیں  اور کسی کے بھڑ ک جانے پرمحنت وصول ہوجاتی ہے۔شریک محفل ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہیں۔یہ مسکراہٹ فاتحانہ ہوتی ہےاور شرارت آمیزبھی لیکن دوسری محفلوں میں اس طرح کسی کی غلطی کو فٹ بال بنا نا مناسب نہیں  ہے۔

  آپ دیکھئے کہ ہماری مسجد وں میں بھی  ایسا کیا جاتا ہے۔ دوران نماز کسی بچے کے شورمچانے یا شرارت کرنے پر سلام پھیرنے کے بعد سب بچے کو گھورگھو ر کر دیکھنے لگتےہیں۔ اسے  بیک وقت کئی لوگ  ڈانٹ پلانے لگتے ہیں۔ 
  گزشتہ دنوں ایک پولیس اسٹیشن جانے کا اتفاق ہوا   ۔  وہاں ایک نوجوان شرمک اسپیشل  ٹرین کا فارم لئے کھڑا تھا ، کچھ پوچھنا چاہتا تھا ، کوئی اس کا جواب نہیں دے رہا تھا ۔ وہ ادھر ادھر جارہا تھا ۔ کوئی اس کی رہنمائی نہیں کررہا تھا ۔ اتنےمیں پولیس اسٹیشن کو سینی ٹائز کرنے والے آگئے ۔ ایک پولیس اہلکار نے نوجوان سے کہا کہ پیچھے چلے جاؤ.. اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا ، وہ گھبرایا ہوا تھا ، یہ سنتے ہی  بوکھلا گیا ۔ ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔ پولیس اہلکار کو موقع مل گیا ۔ اس نے نوجوان کو جھڑ ک دیا اور’ پولیسیا انداز‘  میںکہا :’’ کیا رے تیرےکو کس بھاشا میں سمجھاؤ ں .. کہہ رہا ہوں نیچے چلے جا ؤ ۔‘‘ 
  اس کے بعد دوسرے پولیس اہلکاروں نے بھی اسے کھری کھوٹی سنائی  پھر سینی ٹائز کرنے والا عملہ بھی اس پر پل پڑا ۔ وہاں کھڑے پولیس  اہلکار کے ’دوستوں‘( ایجنٹ اور دلال پڑھئے) نے بھی اس نوجوان کی خبر لی، اسے برا بھلا کہا  ۔  اتنے حملوں کے بعد وہ نوجوان سنبھلا  اور پیچھے چلا گیا۔ 
  اس نے جھلا کر کہا :’’ ارے بھائی ایک آدمی    بولو... ‘‘ اس کے جواب پر دور کھڑے ایک پولیس اہلکار نے سلجھے ہوئے انداز میں کہا :’’ دوا کا چھڑ کا ؤ ہورہا ہے، یہ دوا آنکھ میں جاسکتی ہے،اسی لئے پیچھے جانے کیلئے کہا جار ہا ۔ ‘‘ ایسےلو گ کبھی کبھی آتے ہیں۔   یہ مثال پولیس اسٹیشن کی ہے، پولیس کی شبیہ پہلے ہی خراب ہے مگر آ پ اسے ایک بار پھر غور سے  پڑھئے ، اس میں پو لیس اہلکار کے دوست اور سینا ئز کر نے والاعملہ پولیس کا حصہ تو نہیں ہے۔ دراصل ہمارے سماج میں غلطی کی اصلاح نہیں کی جاتی ہے بلکہ اس پر شرمند ہ کیا جاتا ہے۔ اسے بار بار یاد دلا کر احساس کمتری میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ نیچا دکھا یا جاتا ہے۔ کبھی کبھی ذلیل کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ کیا یہ روش کبھی بدلے گی ؟

 -حمزہ فضل اصلاحی