Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 8, 2020

موجودہ ‏حالات ‏کے ‏احوال ‏و ‏کواٸف ‏اور ‏ہماری ‏ذمے ‏داریاں۔



 *بہ نوک خامہ* : *عمار اختر سدھارتھ نگری متعلم دارالعلوم دیوبند* /صداٸے وقت / عاصم طاہر اعظمی / ٨ جون ٢٠٢٠۔
==============================
 
*ہم نے سیکھا ہے اذان سحر سے یہ اصول* 
 *لوگ خوابیدہ ہی سہی ہم نےصدا دینی ہے* 

 *دیکھیں اولا عرض  کردوں* : *کہ سب سے پہلے ہمیں یہ علم ہونا چاہیے کہ اس وقت ہم ایک ایسے ملک میں قیام پذیر ہیں جہاں جمہوریت کی چولیں ہل چکی ہیں،* اتحاد واتفاق، قومی یک جہتی و بھائی چارگی کے علَمِ سربلند کو *"آر ایس ایس اور ہندوتو وادی"* جیسی تنظیموں نے نذر آتش کردیا ہے، رِدائے اخوت ومودت  کی بیخ کنی کردی ہے، اور اب ہر آن وہر لمحہ ان لوگوں کا اس سوچ میں گزرتا ہے؛ *کہ کس طرح رب ذوالجلال کی وحدانیت کا اقرار کرنے والوں کو ایمانی لذت اور جذبۂ جہاد سے بیزار کردیا جاۓ، کس طرح مسلمانوں کے باہمی روابط وتعلقات منقطع  کردیے جائیں، اور ان کی سب سے بڑی قوت سے انہیں  محروم کردیا جاۓ* 
 *یاد رہے..!!!*سب سے پہلے ہماری ایمانی طاقت کو مسلوب کرنے کا پروپیگنڈہ ہے،* اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر ہماری ایمانی غیرت ماند پڑ گئی تو ہر ایک ہمیں یرغمال بناسکتاہے، شکاری ہمارا شکار کرسکتا ہے اور ہمارے شیرازے کو منتشر کرسکتا ہے 
لیکن اگرہم میں ایمانی غیرت باقی رہی، کفر وشرک سے ہم بیزار رہے، تو ہزار تدبیروں اور چالوں کے باوجود وہ ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔( *وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین* ) *اور وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں*؛ اس لیے ہمارے ایمان کو متزلزل اور کمزور کرنے کے لیے *مدارس مکاتب مساجد اور تبلیغی جماعت* کو مکمل طور محصور کرنا چاہتے ہیں؛جس میں ہماری ترقی وبقا اور  مستحکم ایمان کا راز مضمر ہے ۔

 *محبان وطن..!!*
 *آپ آنکھیں کھول کر حالات کو دیکھیں* کہ ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب *"دارالعوم دیوبند، تبلیغی جماعت اور دیگر مدارس"* کی طرف حکومت ترچھی آنکھ سے دیکھ بھی نہیں سکتی تھی، بڑے بڑے وُزرا آۓ اور چلے گئے؛ لیکن کسی نے انھیں چھیڑنے کی کوشش نہیں کی؛ *مگر اب حالات وہ نہیں،* ہمہ شما میں سے ہر ایک واقف ہے کہ اس وقت دارالعلوم دیوبند، تبلیغی جماعت اور دیگر مدارس حکومت کی آنکھ میں چبھتا ہوا کانٹا ہیں؛ اس لیے بے بنیاد الزام واتہامات کے ذریعے چاروں طرف سے یرغمال بنا رکھا ہے، طرح طرح کے پروپیگنڈے اور چالوں سے مدارس اور تبلیغی جماعت کے سد باب کی ناپاک سازش شروع ہوچکی ہے، *اور یہ بات کسی صاحب فہم و فراست سے ڈھکی چھپی نہیں ہے؛* 
  *اس لیے ہمیں ہر قدم* پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا اور ان کی ہر چالوں سے باخبر رہتے ہوئے مسقبل کا کوئی مضبوط لائحہ عمل بنانا ہوگا۔

 *ثانیا:* عرض کردوں..!!  کہ موجودہ وبا *"کورونا"* کے تعلق سے بہت سی باتیں کی گئی اور کہی گئیں ہیں لیکن؛ میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوںکہ *"موت وحیات کا ما لک اللہ رب العزت ہے"* اور وہی چیدہ اور چنیدہ مقامات پر اپنی پاک سرزمین کو ظالموں سے آزاد کراتا ہے، نیز انہیں ان کی طاقت و قوت  اور ٹیکنالوجی کا احساس کراتا ہے کہ تمھاری حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔ تمہاری ترقی، آلات واسباب اور ٹیکنالوجی تو ایک مختصر بیماری تلے دب جاتی ہے، اور "رب انہیں یہ احساس بھی کراتا ہے کہ *دنیا کی تمام تر مسافتیں طے کرنے کے باوجود اگر خالق حقیقی کے وجود تک نہ پہنچ سکے تو سب بے سود اور لغو ہے۔* *نیز رب ذوالجلال اپنے برگزیدہ بندوں کو جھنجھوڑتا اور آزماتا ہے کہ ہماری یاد، ہماری طاقت وقوت اور پکڑ سے غافل نہ رہنا* *مسجود ملائک کے شرف کا لحاظ پاس رکھنا"*۔ *اس لیے ہمیں ان حالات میں  پروردگار سے لو لگانا چاہیے، ساتھ ہی ساتھ محمکۂ صحت کی ہدایات پر عمل پیرا ہونا چاہیے*۔

   *ثالثاً:* عرض کردوں ہمارا ملک *ہندوستان*  گنگا جمنی تہذیب پر مشتمل ایک گلدستہ ہے، جس  کی خوشبو اور مہک کو برقرار رکھنے کے لیے قومی اور وطنی اتحاد کی زمینی سطح پر اشد ضرورت ہے؛ تاکہ اس گلدستے کو منتشر کرنے والوں سے بچایا جاسکے، اور نفرت و تعصب کی آگ سے ملک کو منزہ رکھا جاسکے؛ *لیکن افسوس کہ اس سلسلے میں ہمارے وطنی بھائی سنجیدہ نہیں ہیں، * آر ایس ایس، اور دیگر ہندوتو وادی تنظیموں کے جھانسے میں آکر ملک کی معطر فضا کو مسموم کرنے کا کام کر رہے ہیں اور  وطنی بھائی چارگی وہمدردی کے لئے سم قاتل ثابت ہورہے ہیں۔  *یاد رہے..!!* اتحاد واتفاق، قومی یک جہتی و بھائی چارگی کی ذمے داری صرف مسلمانوں پر یا مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم جمعیت علمائے ہند پر عائد نہیں ہوتی؛ *بل کہ ملک کے ہر انصاف پسند شہری کا یہ فرض ہے* کہ ملک کی  معطر فضا کو برقرار رکھے اور اس کے خلاف زہر ہلاہل بننے والوں کا قلع قمع کرے؛ لیکن امر واقعی یہ ہے کہ اس سلسلے میں سنجیدہ صرف  *"امت محمدیہ"*  کے پیرو کار ہیں، جس کی کھلی نظیر جمعیت کے قومی یک جہتی کانفرنسوں پر مشتمل پروگرام ہیں، جمیعت نے سوسال کی محنت اور پیسہ  قومی یک جہتی اتحاد کو  منظم اور مضبوط کرنے میں صرف کیا ہے؛ *لیکن مقام تصور* ہے کہ کیا اغیار نے بھی کبھی اس پر کان دھرے..؟؟ اور کبھی اس کی سعی کی..؟؟ کبھی اپنے منچ اور اسٹیج پر انہوں نے جمعیت کے پیرو کاروں کو بلایا..؟؟ کتنے پروگراموں میں انہوں نے یک جہتی و بھائی چارگی کا گیت گایا..؟؟ نہیں کچھ نہیں کیا..!! ہر گز کچھ نہ کیا..!! صرف انہوں نے منافقانہ چالیں چلیں، ہمارے خلاف سازشیں رچیں اور ہمیں بے دست و پا کردیا، نیز ہمیں مستقبل کے تابناک ہونے کا مژدہ سناتے ہوئے  ذہنی غلامی میں ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے پر مجبور کیا، علامہ اقبال کہتے ہیں کہ:
 *بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر* 
 *کہ دنیا میں فقط مردان حر کی انکھ ہے بینا* 

اس لیے موجودہ وقت میں تفکر وتتبع میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے؛ کیوں کہ جب تک کسی قوم کا اپنے نظریے، اپنی بنیادوں اور اصولوں سے گہرا تعلق رہے گا؛ وہ قوم اس وقت تک کسی کی ذہنی غلام نہیں بن سکتی۔ *اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اس ملک کے حق دار وحصے دار ہیں بھکاری اور خانہ بدوش قبائلی نہیں،* احقر؛رب ذوالجلال سے دست بہ دعا ہے کہ وہ اس ملک کو استحکام نصیب کرے، اتحاد واتفاق کے ساتھ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے اورمسلمانوں کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح منظم ومضبوط اور متحد رکھے...!!!!!
آللھم آمین۔ 


 *عزیز کیوں نہ ہو خاک رہ وطن مجھکو* 
 *یہ میرے ساتھ مرے پیرہن میں آئی ہے۔*