Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 8, 2020

محترم ریاض موسیٰ ملیباری خالق حقیقی سے جا ملے ۔۔ان سے وابستہ ہیں کچھ یادیں!

از/ ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی /صداٸے وقت /٨ جون ٢٠٢٠۔
===================

ادھر مسلسل تقریباََ روزانہ کسی نہ کسی قریبی عزیز, دوست اور تحریکی رفیق کے انتقال کی خبریں آرہی ہیں ۔آج 8 جون 2020 بعد نماز فجر ڈاکٹر اسرارالحق سے فون پر یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ محترم ریاض موسی ملیباری کے انتقال کی خبر آگئی جو مالابار کیرلہ کے رہنے والے تھے اور ان دنوں اپنے بیٹے ڈاکٹر محمد شعیب صاحب کے پاس تروریک میں مقیم تھے ۔اناللہ وانا الیہ راجعون
محترم ریاض موسی صاحب سے ساؤتھ انڈیا تریوندرم  کنیا کماری  بالیشورم  تروپتی  مدورائی وغیرہ کے دو ماہ کے سفر کے دوران میری ملاقات سرنگا پٹنم میسور کے ایک دعوتی پروگرام میں ہوئی تھی اور چار دن ساتھ رہنے اور انہیں قریب سے دیکھنے اور ان کے طریقہ دعوت کو سمجھنے کا موقع ملا تھا ۔ ان کی دعوت پر میں حاضر ہوا تھا ۔مجھے یاد ہے کہ میں ان سے مکمل اتفاق تو نہیں کرسکا تھا اور اس طریقہ کار کے سلسلے میں بعض اندیشوں اور خدشات کا اظہار کیا جس سے بعض احباب نے اتفاق کیا مگر ان کی پیشانی پر ذرا بھی شکن نہیں آئی اور ان کے برتاؤ میں بھی کوئی تغیر نہیں واقع ہوا تھا ۔ ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ تین چار "داعی یا دعاة " کو میدان میں بھیج دیتے ۔ وہ کسی کسان مزدور  دکان دار اور کسی بھی فرد سے ملتے ۔تمہیدی اور مختصر تعارف و خیر خیریت کے بعد قرآن مجید کی منتخب آیتوں و سورتوں کی تلاوت کرتے ,اس کا ترجمہ پیش کرتے اور دلسوزی سے اس کو سمجھاتے ۔پھر مخاطب سے اقرار کراتے ۔ جب وہ اقرار کرلیتا تو اس کے مسلم ہونے کا اعلان کردیتے ۔اور داعی کو آیندہ رابطہ رکھنے اور تربیت کرنے کی ہدایت کرتے ۔ اس طرح ہر شام کو رپورٹ ملتی کہ آج اتنے لوگوں کے سامنے دعوت پیش کی گئی اور اتنے لوگوں نے قبول کرلیا ۔میرے لیے اس طریقہ کار میں اپنے آپ کو خوش فہمی میں رکھنے کی زیادہ صورت نظر آرہی تھی ۔ بعض افراد رپورٹ دیتے کہ آج فلاں آبادی میں جانا ہوا ۔ اجتماعی طور پر دعوت پیش کی اور ایک سو لوگوں نے دعوت کو قبول کرلیا ۔ اور بڑی خوشی کا اظہار کرتے ۔میں نے اس طریقہ کار کی حوصلہ شکنی کی ۔
اس پہلو سے قطع نظر محترم ریاض موسی صاحب بڑی خوبیوں کے مالک تھے ۔ سرگرم وفعال ,اپنے مشن کے لیے یکسو اور فکر مند, بڑی ایثار و قربانی پیش کرنے والے ۔ اپنے پیش نظر مقصد اور مشن کے حصول کے لیے پورے ہندوستان اور نیپال کا بارہا دورہ کیا ۔ دعوت دین کے کام کو سر فہرست رکھنے اور اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنے کے لیے اداروں و مدارس کے ذمہ داروں سے التجائیں کی ۔ان کے لیے مالی تعاون کیا ۔ وہ اس قدر منہمک تھے کہ بہت جلد اپنی شناخت قائم کرلی ۔ لوگ ان کے قریب آے مگر کاموں میں استقلال اور استمرار باقی نہیں رہ جاتا ۔ کھیت میں دانہ ڈالنے کے بعد اس کو سینچنا پڑتا ہے ۔نگرانی کرنی ہوتی ہے تب غلہ ہاتھ آتا ہے ۔ مگر جب اول مرحلے میں معلوم ہوجاے کہ نتیجہ حاصل ہوگیا تو کوئی پھر محنت کیوں کرے گا ۔ لیکن وہ مسلسل لگے رہے ۔ ایک مثبت پہلو یہ رہا کہ نوجوان علماء اور فارغین مدارس کو دعوت دین کے کاموں کی اہمیت اور اس کی ضرورت کا احساس دلانے میں کامیاب رہے اور بہت سارے مدارس میں جاکر تربیتی کیمپ اور دعوہ ورکشاپ کا انعقاد کیا جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ ان سے جڑے مگر پھر وہ لوگ قایم نہیں رہ سکے ۔الاماشاء اللہ
ایک بار وہ لکھنؤ تشریف لاۓ اور تمام مدارس میں جاکر ذمہ داروں سے ملاقاتیں کی ۔ جامعہ سید احمد شہید ؒ کٹولی میں ورکشاپ بھی منعقد ہوا ۔ متعدد طلبہ شریک رہے ۔ اختتام پر میں نے ان کو اور پوری ٹیم کو عصرانہ پر مدعو کیا ۔ بہت خوش تھے ۔ ان کا جذبہ اور حوصلہ لائق ستائش تھا ۔ جماعت اسلامی سے متأثر تھے ۔ ابتدائی دنوں میں غالباََ جماعت اور طلبہ کے ساتھ کارکن رہے ۔ ایک عرصہ کویت میں رہے ۔ پھر انہوں نے اپنا میدان عمل متعین کرلیا تھا ۔
ان کی گفتگو میں سوز اور لہجے میں نرمی اور متانت تھی ۔ اللہ تعالی ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے ۔ درجات بلند کرے ۔ ان کے مشن کو ترقی ہو اور ان کی قبر پر رحمت کے پھول برساۓ ۔ ان کی لغزشوں کو معاف کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے آمین

ڈاکٹر سکندرعلی اصلاحی لکھنؤ 9839538225