Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 20, 2020

گالوان ‏گھاٹی۔۔۔ہندوستان ‏و ‏چین ‏کے ‏بیچ ‏تنازعہ۔۔اس ‏گھاٹی ‏کی ‏کھوج ‏ایک ‏مسلمان ‏نے ‏کی ‏تھی۔

صداٸے وقت /ماخوذ۔
================
اللّٰه رب العزت کی قدرت کو دیکھیے  جس گالوان گھاٹی کے لیے چین اور ہندوستان میں جھگڑا ہے. اسی گھاٹی کی کھوج غلام رسول گالوان نام کے چرواہے نے کی تھی اور ہندوستان کا کہنا ہے کہ "غلام رسول گالوان ہندوستانی تھا ۔۔۔اس لیے وہ گھاٹی ہندوستان کی ہے" 

چین کہتا ہے کہ "اگر غلام رسول گالوان ہندوستانی ہے تو ثابت کرو اور ہمیں کاغذ دکھاؤ"

جو لوگ کچھ دن پہلے 20 کروڑ مسلمانوں سے کاغذ ڈھونڈنے کو کہے رہے تھے۔ آج وہ ایک مسلمان کے کاغذ تلاش کر رہے ہے۔
"اور اللّٰه تمہاری سازشوں کو تمہارے ہی منہ پر مار دیتا ہے"۔
   
دنیا بھر میں دریاؤں کے نام پر بچوں کا نام رکھنے کا رواج ہے۔ انڈیا میں گنگا، جمنا، کاویری، گوداوری، سرسوتی جیسے نام عام ہیں اور یہ سب انڈیا میں بڑے دریاؤں کے نام ہیں۔
لیکن ان دنوں ایک دریا کا دنیا بھر میں بہت ذکر ہے اور وہ دریائے  گالوان ہے جہاں کی وادی میں گذشتہ ایک ماہ سے انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی برقرار ہے اور گذشتہ دنوں یعنی سوموار اور منگل کی درمیانی رات کو دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان تصادم میں کم از کم 20 انڈین جوان ہلاک ہو گئے۔

گالوان اگرچہ تنازعے کا باعث بنا ہوا لیکن اس علاقے اور دریا کا نام لداخ کے ایک سخت جان قلی غلام رسول گالوان کے نام پر ہے۔

گالوان دریا قراقرم کے پہاڑی سلسلے سے نکلتا ہے اور چین سے ہوتے ہوئے لداخ میں شیوک دریا میں شامل ہو کر ’شیر دریا‘ یعنی دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے گالوان تقریبا 80 کلومیٹر طویل ہے اور اس خطے میں اس کی عسکری اہمیت بہت زیادہ ہے۔

 2001 میں شائع ہونے والی کتاب ’سروینٹس اور صاحبس‘ میں انگریزوں کے ایک خاص ملازم غلام رسول گالوان کا ذکر ہے جن کے نام پر لداخ کے شمال مشرقی علاقے کا نام پڑا۔
کتاب کے مطابق غلام رسول گالوان سنہ 1878 میں پیدا ہوئے اور انھوں نے مختلف یورپی سیاحوں یعنی ’صاحبان‘ کے ساتھ اس دور دراز مشکل اور سنگلاخ علاقے کا سفر کیا۔
یہ سفر اس لیے بھی انتہائی مشکل ہوا کرتا تھا کیونکہ وہ ایسا علاقہ تھا جہاں نہ آدم نہ آدم زاد بس، پہاڑ، پتھر، دریا اور جنگل۔ سطح سمندر سے اس علاقے کی بلندی پانچ ہزار سے سات ہزار فیٹ تک ہے جہاں گرمیوں میں بھی بعض مقامات پر درجۂ حرارت منفی میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔ جاڑوں میں درجہ حرارت منفی 30 ڈگری تک چلا جاتا ہے۔ اگر یخ بستہ ہوا اور منجمد کرنے والے ماحول سے حفاظت کے لیے مناسب کپڑے نہ پہنے جائيں تو کھلی فضا میں دس منٹ گزارنے پر کوئی بھی شخص ہائپوتھرمیا کا شکار ہو سکتا ہے۔
غلام رسول گالوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے تبت، سنکیانگ، قراقرم، پامیر اور دوسرے وسط ایشائی علاقوں میں خوب سفر کیا۔ انھوں نے اپنے زمانے کے مشہور کوہ پیما کے گائیڈ کا کام کیا۔

وادی گالوان دشوار گزار علاقہ ہے اور سردیوں میں درجہ حرات منفی 30 ڈگری تک گر جاتا ہے۔  برطانوی ماہر ارضیات میجر ایچ ایچ گوڈون آسٹن کے ساتھ بھی انھوں نے سفر کیا۔ یہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے پاکستان کی بلند ترین اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کی پیمائش کی تھی۔ اس کی بلندی آٹھ ہزار 611 میٹر ہے لیکن بعض کوہ پیماؤں کے مطابق اس پر چڑھنا دنیا کی بلند ترین چوٹی ایوریسٹ سر کرنے سے مشکل ہے۔

غلام رسول گالوان جب 12 سال کے تھے اسی وقت سے انھوں نے بڑی سفری مہمات میں شرکت شروع کر دی تھی۔ 1890 میں انھوں نے کیپٹن ینگشبینڈ کے ساتھ یارک لینڈ کا سفر کیا تھا جو کہ اب چین کے سنکیانگ کے صوبے میں واقع ہے اور اسی کے ساتھ ان کے سفری مہمات کا آغاز ہوتا ہے۔
1899 کی مہم کے دوران انھوں نے جس دریا کو دریافت کیا تھا اس دریا کو ان کا نام دے دیا گیا۔ گالوان کو چینی زبان اور انگریزی زبان کا قدرے علم تھا جس کی وجہ سے انھوں نے بطور خاص برطانوی مہم جوؤں کی اس خطے میں رہنمائی کی۔

 دشوار گزار پہاڑی علاقے میں پینگونگ نامی جھیل بھی ہے جو سردیوں میں منجمد رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بعد میں گالوان برٹش جوائنٹ کمشنر کے مقامی نائب سربراہ مقرر کیے گئے اور وہ تبت سے اس علاقے کے ذریعے سامان کے نقل و حمل کے ذمہ دار ٹھہرے۔

گزشتہ چند برسوں میں چین نے اس علاقے میں بہت سی تعمیرات کی ہیں اور شاہراہ ریشم یعنی سلک روڈ کے ساتھ اس راستے کو بھی فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ دوسری جانب انڈیا نے بھی نقل حمل کے لیے گالوانے کے علاقے میں سڑکوں کی تعمیر کی ہےیں بدل گئی ہے۔

دونوں ملکوں کی جانب سے علاقے میں تعمیرات اور ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اب علاقے میں حد بندی کی تنازع پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے وادی گالوان شہ سرخیوں میں ہے۔