Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 24, 2020

دارالقضإ ‏کا ‏نفاذ ‏اور ‏ہم۔۔۔۔۔۔


از - شبانہ اظہر سیّد، ملّت نگر  / صداٸے وقت ۔
==============================
آج کے اس پرفتن دور میں جب ہر طرف سے اسلام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے. لوگوں کو اسلامی اقدار کو اپنانا گویا کہ ایک بہت مشکل کام لگ رہا ہے. جب کہ الله کا دین ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اسے عائد نہیں کر سکتے. تاریخ گواہ ہے 
کہ کیسے ہمارے نبی (ﷺ) اور صحابہ کرام نے اسلام کو اپنی زندگی بنا لیا تھا. اس وقت کا دور بھی ایسا ہی دور تھا، جہاں اسلام پر چلنے والے کے ساتھ ظلم و جبر کیا جاتا تھا. انکے لئے زمین تنگ کردی جاتی تھی. 

ہم مسلمان گھروں میں پیدا ہونے کے باعث مسلمان کہلاتے ہیں لیکن ہمیں خود اس چیز کا شعور و فہم نہیں کہ آیا ہمارے معاملات میں ہمارا دین کیا کہتا ہے. ہم خود ہی اسلامی قانون سے نا واقف ہیں، ہم اپنے مسائل و معاملات لیکر ملکی عدالتوں میں جاتے ہیں. ان عدالتوں کا حال آج کیا ہے. آج وہاں آپ دیکھیں گے کہ انصاف کے لئے کتنی تگ و دو کرنی پڑتی ہے. ایک مقدمہ کے پیچھے مہینوں نہیں بلکہ برسوں لگ جاتے ہے. اگر ہائی کورٹ میں ہار گیا تو سپریم کورٹ جاتا ہے. ایسے دور میں اگر مسلمانوں نے یہ کوشش کی کہ " دار القضاء" قیام کی جائے تو کیا یہ غلط ہے؟ " دار القضاء" یعنی "شرعی عدالتیں" جسمیں قرآن و سنّت کے طریقے سے اسلام کی تعلیمات پر فیصلہ ہو، جہاں نہ وکیلوں کی بھاری بھرکم فیس ہے نہ عدالتوں کے چکّر کاٹنے پڑتے ہے. یہ  دار القضاء ملک کے کئی حصوں میں پہلے سے قیام ہے، جیسے راجستھان، بنگال، اتر پردیش وغیرہ.       

١٩٩٣ کے بعد سے ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اسلامی شرعی عدالتیں قیام کیں جنکی تعداد آج ٤٤ ہے. آل انڈیا مسلم پرسنل لاء نے جب  دار القضاء قیام کرنے کا اعلان کیا تو "مدن موہن لوچن" نامی ایک صاحب نے اسے چیلنج کیا سپریم کورٹ میں. سپریم کورٹ نے  دار القضاء کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا، "یہ کوئی الگ سے عدالتی نظام قیام کرنے کی سوچ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک طرح سے عدالتی نظام کی مدد کھلایگی." اس طرح  دار القضاء کا نفاذ عمل میں آیا. 

     

 دار القضاء کے ساتھ کونسلنگ کمیٹی قائم کی گئی، جو یہ کوشش کرتی کہ کونسلنگ کے ذریعے سے سمجھوتہ ہوجاے. اگر سمجھوتہ نہ ہوا ہو تب فیصلہ  دار القضاء کا قاضی شریعت کے مطابق کرتا ہے، جو کم وقت میں کم خرچ میں فیصلہ سنا دیتا ہے. یہ شریعت کی روشنی میں ہوتا ہے تو دونوں فریقین اسے قبول کر لیتے ہے. آج اسکی ہمیں بہت ضرورت ہے. 


 دار القضاء کے نفاذ کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں ملکی عدالتوں پر بھروسہ نہیں، الله تعالی قرآن میں فرماتا ہے، "جو الله کے احکامات کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ فاسق ہے." آج اس ملک میں مسلمانوں کے اقدار کو نشانہ بنایا جا رہا ہے. کہیں یکساں سول کوڈ لانے کا چرچا ہے، کہیں پر تین طلاق کو موضوع بنا کر اسپر کھل کر سیاست کھیلی جا رہی ہے، کہیں ایک سے زائد نکاح کو نشانہ بناکر اچھالا جا رہا ہے. یہ سب چیزیں مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں؟ کیونکہ اسلام مخالف تنظیمیں وہ چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کو اسی میں الجھا دیا جائے تاکہ مسلمان اپنا اصل کام "دین کی اشاعت"، "اسلام کا غلبہ"، "اسلام کو پھیلانا" یہ سب کام چھوڑ کراسی میں لگے رہیں. 


 دار القضاء کا نفاذ گویا مسلمانوں کے لئے بڑی راحت کا سبب ہے. ہم مسلمانوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ اس طرح کی اسلامی شرعی عدالتیں بھی ہمارے ملک میں ہیں. جہاں ہم اپنے معاملات اور مسائل لے جاکر الله کے قانون کے تحت فیصلہ کروا سکتے ہیں. چاہے وہ طلاق کا فیصلہ ہو، یا وراثت کی تقسیم کا، یا ایک سے زائد نکاح کا. یہ سب اور بھی گھریلو مسائل، تجارتی مسائل تمام کا حل آپکو  دار القضاء سے کروانا چاہیے. 

       
آپ سب سے مودبانہ گزارش ہے کہ اپنے فیصلوں کے لئے ہم ایسی عدالتوں کا انتخاب کریں جو الله کے بناے ہوئے قانون پر عمل پیرا ہیں. 
ظلمت شب سے نہ گھبراو زمانے والو
ظلمت شب ہی اجالوں کی نگہباں ہوگی


از - شبانہ اظہر سیّد، ملّت نگر