Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 14, 2020

دہلی ‏پولیس ‏کی ‏کارواٸیاں ‏ظالمانہ ‏ہیں۔۔۔۔مولانا ‏محمود ‏مدنی ‏کا ‏جرات ‏مندانہ موقف ۔‏

از /سمیع اللہ خان /صداٸے وقت 
==============================
معروف میڈیا ہاؤز، دی پرنٹ انڈیا کو آج بیان دیتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سیکرٹری مولانا محمود مدنی نے کہا کہ : 
" دہلی فسادات کے نام پر ہونے والی گرفتاریاں یکطرفہ اور ایک خاص کمیونٹی کو ٹارگٹ کرنے والی ہیں، وبائی دور میں یہ کارروائیاں غیر انسانی ہیں ایجنسیوں کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے "


یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ کے معروف مسلمان لیڈر خالد سیفی، نوجوان ایکٹوسٹ عمر خالد اور اسٹوڈنٹس کی گرفتاریوں اور ان پر مقدمات کو ظالمانہ قرار دیا، ان کے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا محمود مدنی نے کہا کہ: 
 میرا اور میری آرگنائزیشن کا احساس ہیکہ یہ سب یکطرفہ کارروائیاں ہیں ایک خاص کمیونٹی کو ٹارگٹ کرنے کے لیے، ایک طرف کچھ پولیٹیکل لیڈر ہیں جو یہ بیان دیے کہ، ہم بدلہ لیں گے، خون کی ندیاں بہا دینگے، یہ کردینگے اور وہ کردینگے اس قسم کے بیانات دینے والوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، لیکن دوسری طرف جو لوگ واجب طریقے سے کسی چیز کی مخالفت کررہےتھے، احتجاج کررہےتھے، انہیں گرفتار کیا جارہاہے یہ سیاسی بدلہ لینے کا اینگل ہے، اور یہ ظالمانہ کارروائی ہے_

 آگے مولانا محمود مدنی نے کہا کہ: 
کیجریوال خاموش ہیں، انہیں اس کے خلاف بولنا چاہیے تھا اور جس وقت کرونا کے خلاف سب کو مل جل کر لڑنا چاہیے تھا اسوقت جس طرح، چاہے دہلی فساد کے نام پر ہو،  یا دہلی میں تبلیغی جماعت اور مرکز کا معاملہ ہو وہ ایک کمیونٹی کو ٹارگٹ کرنے کا معاملہ ہے اور اسطرح کیا گیا ہے کہ ٹارگٹ بھی کردو اور بدنام بھی، یہ کسی کے بھی حق میں نہیں اور اس ملک کے حق میں بھی نہیں، اس میں میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے اور گورنمنٹ کا بھی ہاتھ ہے جس طرح انہیں جہادی بتایا گیا اور ہر برائی ان کے سر ڈالی جارہی ہے یہ کسی کے بھی حق میں نہیں 

گجرات فساد ہو یا مظفر نگر فساد ہو،  یا دہلی کا فساد ہر جگہ فساد کم اور پولیس ایکشن زیادہ ہوتا تھا اور اس طرح دنگا بڑھایا جاتا ہے، دہلی فساد میں بھی پولیس بھیڑ کو نکال کر لارہی تھی اور مسلمانوں پر حملے کروا رہی تھی، 

اور چاہے حکومت کانگریس کی ہو، بھاجپا کی ہو سپا کی ہو، ایسے فسادات میں ایک چیز ہمیشہ مشترک نظر آئی ہے کہ یہاں حملہ بھی مسلمانوں پر ہوتاہے، مسلمان مارے بھی جاتے ہیں، نقصان بھی انہی کا ہوتاہے اور پھر گرفتار بھی وہی کیے جاتے ہیں اور مقدمات بھی ان پر ہی قائم کیے جاتے ہیں، مسلمانوں کی جان مال عزت و آبرو کے متعلق اس طرح کی مسلسل کارروائیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہاں پر ان چیزوں میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری / second class citizens کے طور پر Treat کیا جارہاہے، دوسرے درجے کا شہری، میں یہ لفظ بہت احتیاط کے ساتھ کہہ رہا ہوں اسلیے کہ میں نہ مایوس ہوں نہ ہی اپنے لوگوں کو اور بھارت میں بسنے والوں کو مایوس کرنا چاہتاہوں اسلیے اس سے اگلا جملہ نہیں کہہ رہا ہوں "

 ایک ایسے وقت میں جبکہ پولیس اور سیکورٹی ایجنسیاں دیش دروہ، ملک سے غداری، UAPA اور طرح طرح کے سنگین مقدمات لگا کر مسلمانوں کو گرفتار کررہی ہیں گرفتار کیے گئے مسلمانوں کے خلاف میڈیا ٹرائل چلا کر ماحول بھی بنارہے ہیں تاکہ کوئی ان کی حمایت میں آگے نہ آئے، 
اور درحقیقت اس کے خلاف عوامی لیڈروں میں سے کسی خاص آواز کا فقدان ہے، ہمارے بھائی بہن جیلوں میں اذیت زدہ ہیں،
 ایسے میں جمعیۃ علمائے ہند کے لیڈر مولانا محمود مدنی کا یہ موقف جراتمندانہ ہے، جس طرح انہوں نے دہلی کی فسادی پولیس اور حکومت و میڈیا کے کردار پر سخت موقف اختیار کیا ہے وہ قوم کی طرف سے  حالات کے مطابق زبردست اور بے لاگ نمائندگی ہے، اپنے فریضے کو ادا کرکے انہوں نے ایک بہترین پہل کی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہمدرد اور بےلوث کارکن خالد سیفی اور ان جیسے تمام گرفتار شدگان جو کہ قوم کے ہیرو ہیں ان کو رہا کروانے اور ان گرفتاریوں کو روکنے کے لیے جمعیۃ علماء ہند آگے بڑھ کر اب  عملی اقدامات بھی اٹھائے گی،
 کیونکہ جس طرح گرفتاریاں، چارج شیٹ اور مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں وہ پوری مسلم کمیونٹی کے لیے سوالیہ نشان ہے، ایکطرف پولیس گورنمنٹ کے اشاروں پر ظالمانہ بے باک ہے تو دوسری طرف مظلوم کمیونٹی ان مظالم کو سختی سے مسترد کرنے اور ملت کے تحفظ کے لیے منتظر ہے، آئین ہند اور ملکی سالمیت کا بقاء بھی انہی میں ہے، شکریہ مولانا محمود مدنی، امید ہیکہ دیگر لیڈران بھی قومی ضمیر اور جذبات کو محسوس کرینگے اور دہلی فساد میں پھنسائے جارہے اپنے مظلوموں کی داد رسی کے لیے عملی قدم اٹھائیں گے_

*سمیع اللّٰہ خان*
۱۳ جون بروز سنیچر ۲۰۲۰