Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, June 9, 2020

ایوان ‏سیاست ‏کے ‏روشن ‏چراغ ‏۔۔۔۔۔ڈاکٹر ‏عبد ‏الغفور۔

            
از/*نور السلام ندوی،پٹنہ*/ صداٸے وقت /٩ جنوری 2020
=============================                                                                 
انسان دشت فنا کا مسافر ہے ۔ آہ ڈاکٹر عبدالغفور صاحب بھی دنیا ئے فانی سے دنیا ئے باقی کی طرف کوچ کر گئے۔ موت کا ایک دن معین ہے ،ہر شخص کو اس راہ کا راہی ہونا ہے ۔ موت ایسی سچائی ہے جو قدم قدم پر بے ثباتی اور بے مائیگی کا احساس دلاتی رہتی ہے ۔ جانے والے چلے جاتے ہیں اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے ہیں ۔ لیکن جانے والوں کی یاد آتی رہتی ہے ۔ انسان بظاہر نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے لیکن ان کے کارنامے اور خدمات ان کی یاد آوری کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عبد الغفور

جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
ڈاکٹر عبدالغفور بھی انہیں شخصیتوں میں سے ایک تھے جو دیر تک یاد کئے جاتے رہیں گے ۔ سانولا رنگ ، متوسط قامت ،چوری پیشانی ، کھادی کا کرتا و پائجامہ اوپر سے بنڈی، خوش مزاج ، خوش لباس، اپنوں کے درمیان محبوب ، غیروں کے یہاں مقبول ، سیاست کے رمز شناس، ادب کے دلدادہ ، اردو کے عاشق ، تعلیم کے لئے فکر مند، قوم کے غم خوار، پارٹی کے وفادار، علماء کے قدرداں ، اخلاق و محبت کے پیکر ،تہذیب کے پاسدار، روایتی قدروں کے علمبردار ، بہار کی مسلم قیادت کی معتبر آواز ، بہار اسمبلی کے رکن ، ریاستی حکومت کے سابق وزیر ، ریاستی حج کمیٹی کے سابق چیرمین ، جے پی آندولن کے چراغ شب گوہر ڈاکٹر عبدالغفور صاحب کا آبائی وطن سہرسہ ضلع کے مہیشی بلاک کا بوہروا گاؤں ہے ۔ یہ گاؤں محل وقوع کے اعتبار سے بہت پسماندہ شمار کیا جاتا ہے ، کوسی ندی کا کٹاؤ اور سیلاب سے متاثر رہتا ہے ۔چند برسوں قبل تک یہ گاؤں پانی ، بجلی ، سڑک ، تعلیم اور دوسری بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم تھا ۔یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش مال مویشی اورکھیتی تھا ۔ یہیں آپ کی ولادت 5 ؍ مئی 1959 کو ہوئی ۔ آپ کے والد کا نام محمد جمال اور دادا کا نام تاج علی تھا ۔ والد کسان اور والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ اپنے پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی جناب ماسٹر عیسیٰ صاحب سے حاصل کی، اسلامیہ ہائی اسکول سمری بختیار پور سے 1974 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ سہرسہ کالج سے بی اے اردو آنرس 1976 میں پاس کیا ۔ پٹنہ یونیورسٹی سے 1981 میں ایم اے اردو کیا اور یہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔مقالے کا موضوع تھا ’’قاضی عبدالستار بحیثیت ناول نگار ‘‘۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاروتی سائنس کالج مدھے پورہ میں اردو کے لکچرر کی حیثیت سے بحال ہوئے ۔ لیکن طبعی میلان سیاست کی جانب تھا چنانچہ سیاست میں قدم رکھا اوراپنی سیاسی زندگی کا آغاز جنتا دل سے کیا ۔ 1995 میں وہ پہلی بار جنتا دل کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر اسمبلی پہنچے، یوں تو جے پی تحریک سے ہی انہوں نے سیاست میں دلچسپی لینی شروع کر دی ، عملی سیاست میں حصہ لینے کے لئے انہوں نے لالو پرساد یادو کا انتخاب کیا اور شروع سے آخر تک لالو کی پارٹی سے وابستہ رہے ۔وہ پانچ مرتبہ اسمبلی الیکشن لڑے اور چار بار کامیاب ہوئے ۔پہلی بار انہوں نے کانگریس کے قدآور لیڈر لہٹن چودھری کو شکست فاش دی ، وہ مہیشی اسمبلی حلقہ کے نمائندگی کرتے تھے ۔دوسری بار انہوں نے 2000 کے الیکشن میں اسی سیٹ پر جیت حاصل کی ، جبکہ 2005 کے اسمبلی الیکشن میں ان کا حلقہ مہیشی سے بدل کر سہرسہ کر دیا گیا ، اگر چہ یہ ان کا حلقہ نہیں تھا لیکن معمولی ووٹ سے الیکشن ہار گئے ۔2010 میں راجد نے انہیں پھر سے مہیسی حلقہ سے اپنا امیدوار بنایا اور وہ جیت کر اسمبلی پہنچے۔ 2015 میں بھی انہوں نے سابقہ ریکارڈ کو برقرار رکھتے ہوئے اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی اورجب بہار میں عظیم اتحاد کی حکومت بنی تو وہ نتیش کا بینہ میں اقلیتی فلاح کے وزیر بنائے گئے ۔ عبدالغفور ہمیشہ پارٹی کے مخلص اور وفادار بن کر رہے ۔ انہوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں کبھی پارٹی نہیں بدلی ،کیسے کیسے لیڈر آئے اور چلے گئے ، کتنے نشیب و فراز آئے ، کتنے احوال سے سابقہ پڑا، حسین خواب بھی دکھلائے گئے لیکن انہوں نے وفاداری نبھائی اور راجد کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔ انہوں نے پارٹی کی وفاداری نبھاتے ہوئے بھی اسمبلی میں اقلیتوں کے مسائل کی ترجمانی کی ۔ 2003 میں بہار ریاستی حج کمیٹی کے چیرمین بنائے گئے ، تین سالوں تک اس عہدے پر فائز رہے ۔ انہیں عہدوں کا کبھی غرور نہیں رہا ،زمینی مسائل سے ہمیشہ روبرو رہے ، عوام کے درمیان رہے ، ان کے مسائل کے ساتھ رہے اوراس کے حل کے لئے ممکن حد تک کوششیں بھی کرتے رہے ۔ کوئی رئیس خاندان کے نہیں تھے ، ایسی بستی میں پیدا ہوئے تھے جہاں کے لوگوں نے کبھی پکی سڑک اور بجلی نہیں دیکھی تھی ، پورا علاقہ ہر اعتبار سے خستہ اور کمزور شمار کیا جاتا تھا ، یہاں کے باشندے کو علاج و معالجہ اور دوسری ضرورت کے لئے سہرسہ جانا پڑتا تھا اور سہرسہ جانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ۔ لوگ پیدل یا بیل گاڑی سے سفر کرتے تھے ، کئی دریاؤں کو عبور کرنا پڑتا تھا ۔ تعلیمی ، معاشی، طبی اور تہذیبی ہر لحاظ سے یہ علاقہ پچھڑا تھا ۔یہ ہمیشہ حکومت کی غفلت اور بے توجہی کا شکار رہا۔ غربت ، بے روزگاری اور پسماندگی یہاں کی قسمت تھی۔ یہ سارے مسائل اور مشاکل ان کی نظروں میں تھے اس لئے انہوں نے اپنے لئے کوئی عالیشان محل بنانے اور دولت کے انبار جمع کرنے کے بجائے عوام کے مسائل پر دھیان دیا ، علاقے کی ترقی پر توجہ مرکوز کی،عوام کے بنیادی سہولیات کے لئے فکر مند ی کی ، اس کے لئے بڑے بڑے لیڈران سے ملتے ، مشورہ کرتے ، لائحہ عمل بناتے ، وزیر اعلیٰ سے گفت شنید کرتے ، ان کی توجہ اپنے علاقے کے مسائل کی طرف دلاتے ،سچی بات یہ ہے کہ وہ زمینی سطح پر محترک رہ کر کام کرنے والے لیڈر تھے۔ ان کی کوششوں سے بلواہا میں شاندارپل تعمیر ہوا، جس کے بعد علاقے کی قسمت بدل گئی ، ترقی کی راہ ہموار ہوئی اور یہاں کے لوگوں کا دیرینہ خواب پورا ہوا۔
صاحب مضمون 

ڈاکٹر عبدالغفور سے میری علاقائی نسبت تو تھی ہی وہ میرے رشتہ دار بھی تھے ، والد محترم جناب عبدالسلام صاحب سے گہرے مراسم تھے ، سیاسی امور پر ان سے برابر صلاح و مشورہ کرتے ۔ والد محترم ڈاکٹر صاحب سے عمر میں بڑے ہیں لیکن دونوں میں دوستانہ مراسم رہے ۔ ڈاکٹر صاحب جب اپنے علاقے کا دورہ کرتے تومیرے یہاں بھی تشریف لاتے ۔وہ والد صاحب کا بڑا احترام کرتے تھے اور ان کے سیاسی شعور کے بڑے قدرداں تھے ۔ گذشتہ بارہ سالوں سے میرا مستقل قیام پٹنہ میں رہتا ہے اس لئے اس عرصہ میں ان سے قربت بڑھی، ملاقات و بات کا سلسلہ زیادہ رہا ، اس سے پرانے تعلقات اور مراسم مضبوط ہوئے ۔ بڑی شفقت و محبت سے ملتے ، بعض امور پر مشورہ کرتے، جب بھی کوئی تعلیمی ، ادبی اور دینی پروگرام منعقدکرتے مجھے ضرور یاد کرتے اور پروگرام میں شامل ہونے کی دعوت دیتے۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنی خوبیوں کی بنیادپر یاد کئے جاتے ہیں ۔عبدالغفور صاحب اپنی خوبیوں کی بنیاد پر دیر تک یاد کئے جاتے رہیں گے۔ وہ ایک صالح، باکردار اور باعمل انسان تھے۔ انہوں نے اپنی طویل سیاسی زندگی میں کبھی بھی گندی سیاست نہیں کی ، سیاست کے مکر و فریب اور داؤ پیچ سے دور رہے ۔ ان حالات میں جب اچھے اچھوں کو سیاست اپنی آلودفضا میں سانس لینے پر مجبور کر دیتی ہے یہ سیاسی آلودگیوں اور پراگندگیوں سے اپنے دامن کو بچائے رکھنے میں کامیاب رہے ۔
 عموماً ایسادیکھا جاتا ہے کہ جب انسان بڑے عہدوں پر فائز ہوجاتا ہے تو ان کے اندر انانیت آجاتی ہے ۔ اپنے سے چھوٹوں پر شفقت کی نظر کم کم ہونے لگتی ہے ۔ عاجزی اور انکساری رخصت ہونے لگتی ہے ، لیکن ڈاکٹر عبدالغفورایسے نہیں تھے ۔ عہدوں نے انہیں بڑا ضرور بنایا لیکن تکبر اور انانیت کو انہوں نے بھٹکنے نہیں دیا ۔ تواضع اور انکساری کی مثال بنے رہے۔ چند سال قبل کی بات ہے وہ حج بھون کسی کام سے آئے ، جاتے وقت اتفاق سے میری ملاقات ہوگئی ۔گفتگو کرتے ہوئے حج بھون کے احاطہ سے روڈ تک آگیا ، کیا دیکھتا ہوں کہ انہوں نے ایک آٹو رکشہ والے کو اشارہ کیا اور اس پر سوار ہوگئے ۔ میں نے کہا آپ کی گاڑی کہاں ہے ؟ کہنے لگے گاڑی ابھی نہیں ہے اور پھر چلے گئے ۔ بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ ہے لیکن اس میں سبق ہے تواضع اور انکساری کی ۔ آپ حج کمیٹی کے چیرمین بھی رہ چکے تھے ، چاہتے تو وہاں کی گاڑی استعمال کر سکتے تھے ،لیکن ایسا نہیں کیا ۔ ان کو پیدل چلنے میں یا ایسے کاموں میں جن کودوسرے لوگ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں کبھی وقار کے خلاف نہیں سمجھا۔ بڑے چھوٹے ہر ایک کے ساتھ محبت سے پیش آتے ،بڑے نرم دل تھے، خندہ پیشانی سے ملنا ان کی عادت تھی، جب کوئی ان سے پیروی کے لئے آتا تو غضبناک نہیں ہوتے بلکہ اپنی سطح سے ہر ایک کو مدد پہنچانے کی سعی کرتے ۔ غصہ بہت کم ہوتے، ان کے اخلاق کا نتیجہ تھا کہ اپنوں کے ساتھ غیروں میں بھی مقبول تھے ۔ ہر پارٹی کے لیڈران اور ہر طبقے کے افرادان کی قدر کرتے تھے ۔
مرحوم قوم اور علاقے کی ترقی کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے ۔ تعلیم کے فروغ کے لئے تعلیمی بیداری مہم چلائی۔ 2017 میں پٹنہ کے انجمن اسلامیہ ہال میں تعلیمی بیداری کانفرنس منعقد کیا۔ جس کی صدارت علم طبعیات (فزکس) کے مشہور استاذ پروفیسر محفوظ الرحمن اختر نے کی اور نظامت کے فرائض احقر نے انجام دیئے تھے ۔ اس کانفرنس میں انہوں نے بہار کے ایک درجن سے زائد اضلاع کے نمائندوں کو جمع کیاتھا ۔ ضلع سطح سے لیکر بلاک اور پنچایت سطح تک مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانے کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور پھر بہت سارے لوگوں کو جوڑکرکام شروع کیا گیا ۔کاموں کا جائزہ لینے اور مشورہ سے کام کو آگے بڑھانے کے لئے جائزہ اور مشاورتی میٹنگ بھی منعقد کرتے، مجھے بھی اس میں شرکت کی دعوت دیتے ۔ خصوصی اور عمومی مجلسوں اور اجلاسوں میں بھی آپ اس جانب لوگوں کی توجہ مبذول کراتے۔ مسلمانوں کو تعلیمی اعتبار سے سربلند اور سرخرو دیکھنا چاہتے تھے ، لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے ۔ کوئی لڑکیوں کا مکتب ، مدرسہ یا اسکول قائم کرتے تو بہت خوش ہوتے اور ان کی دعوت پر ضرور جاتے ۔آپ کے یہاں مدرسہ اصلاح البنات قائم ہوا،تعلیم کے لئے جگہ نہیں تھی تو انہوں نے اپنے دروازہ پر تعلیم کا نظم کیا ،آج الحمد للہ مدرسہ کی اپنی زمین ہے،شاندار عمارت ہے،سیکڑوں طالبات یہاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے گاؤں بوہروا میں رحمانی اسکول بھی قائم کیا تھا لیکن چند برسوں کے بعد بند ہو گیا ۔مرحوم مادری زبان اردو کے فروغ کے لئے بھی کوشاں رہے ۔جب اقلیتی فلاح کے وزیر تھے تو اردو اکادمی کی میٹنگوں میں بذات خود شرکت کرتے ، مفید مشوروں سے نوازتے اور مشوروں پر عمل در آمد کی راہ ہموار کرتے۔ ضابطہ کے اعتبار سے اقلیتی فلاح کے وزیر اردو اکادمی کے نائب صدر ہوتے ہیں اس حیثیت سے آپ نے ہمیشہ اکادمی کے پروگرام میں شرکت کو ترجیح دی اور اس کے لئے سرگرم رہے ۔اکادمی کو فعال اور متحرک بنایا، اردو اساتذہ، مدارس اور اسکول کے مسائل سے بھی دلچسپی لیتے اور اس کے لئے پوری محنت کرتے۔وقف بورڈ کے سالانہ کانفرنس میں شرکت کرتے، اس کے لئے پورا وقت دیتے۔اجلاس کے اختتام تک موجود رہتے۔ آ پ وقف املاک کی حفاظت اور اس کی ترقی کے لئے بورڈ کو قیمتی مشورہ دیتے اور اسکے لئے تگ و دو کرتے۔
موصوف اردو کے لکچرر تھے ۔ لیکن سیاست نے ان کو ادب کی طرف سے یکسوہو کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا ۔ ان کا تحقیقی مقالہ قاضی عبدالستار بحیثیت ناول نگار جو دراصل پی ایچ ڈی کا مقالہ رہے شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے۔ ان کے مطالعہ سے آپ کے ادبی ذوق، مطالعہ اور تحقیق کا اندازہ ہوتا ہے ۔ انہوں نے اپنے مقالے میں ان کے ناولوں کا بہترین محاکمہ کیا ہے اور ناولوں کا تعین قدر کرتے ہوئے معائب ومحاسن پر نگاہ مرکوز کی ہے۔ یہ کتا ب قا ضی عبدالستار کے فن اور شخصیت پر جامع کتاب ہے ۔ ڈاکٹر عبدالغفور کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ کسی کی دعوت کو نامنظور نہیں کرتے تھے۔ آسانی سے کسی پروگرام ، سیمنار ، اجلاس یا میٹنگ کے لئے وقت دے دیا کرتے تھے ۔ گاؤں دیہات سے جو لوگ ان سے ملنے کے لئے آتے ان کو اپنے یہاں ٹھہرانے اور کھلانے کا انتظام کرتے، علاقہ کا کوئی شخص حج کے لئے جاتا تو ان سے ملنے حج بھون آتے اور ان کی دعوت اپنے گھر پر کرتے۔ شادی بیاہ کے موقع پر بھی گاؤں دیہات کے لوگ ان کو بلاتے اور یہ بخوشی جاتے۔ اس قدر خیال رکھنا ، دلجوئی کرنا ، اپنے پرائے کے خوشی وغم میں شریک ہونا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔
ہفتہ میں ایک دو بارمیری ان سے ضرور ملاقات ہوتی ۔ مسکرتے ، خیریت دریافت کرتے ، کبھی گاؤں اور علاقے کے بارے میں پوچھتے ، والد صاحب کے احوال معلوم کرتے، سیمنار اور اجلاس میں میری تقریر یا نظامت ہوتی تو بہت خوش ہوتے اور حوصلہ افزائی کرتے ۔ ’’خطبات ولیؔ‘‘ جب شائع ہوکر منظرعام پر آیا تو بہت  خوش ہوئے، مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ کے اجلاس عام میں کتاب کے اجراء کے موقع پر موجود تھے۔ کا م کو سراہا، تحسین آمیز کلمات کہے اور بہت دعائیں دیں۔ حوصلہ افزائی میں بخالت سے کام نہیں لیتے تھے۔ موصوف کے ساتھ پٹنہ اور آس پاس کے بہت سارے پروگرام میں ایک ساتھ شرکت کرنے کا موقع ملا، میں نے اکثر دیکھا ہے کہ بڑے لوگ چند دیر رکنے یا اپنی تقریر کر لینے کے بعد چلے جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ا خیر تک پروگرام میں موجود رہتے۔
مرحوم باضابطہ کسی مدرسہ کے فارغ نہیں تھے لیکن مدارس،اہل مدارس اور علمائے کرام سے ان کا رشتہ بڑا گہرا تھا۔ دعوت پر مدارس کے اجلاس میں شرکت کرتے اور بسا  اوقات انتظامیہ کی خواہش پر تقریر کرتے، مدرسہ رحمانیہ سوپول بیرول ضلع دربھنگہ  اور مدرسہ فضل رحمانی بھلاہی ضلع سہرسہ،  کے اجلاس دستار بندی میں ضرور شرکت کرتے۔ علماء کے بڑے قدر داں تھے۔ امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانی صاحب سے قلبی لگاؤ تھا۔ امارت شرعیہ اور جامع رحمانی سے گہرا تعلق تھا۔امارت شرعیہ کی میٹنگوں میں شرکت کرتے۔ دارلاسلامیہ گون پورہ کے اجلاس اور ختم بخاری شریف کی تقریب میں تشریف لے جاتے۔ بڑے معتدل تھے۔ ہر مکتبہ فکر کو ساتھ لے کر کام کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ ادارہ شرعیہ سے بھی ان کا تعلق تھا اور دوسرے مسلک اور مکتبۂ فکر کے اداروں سے بھی آپ کی وابستگی تھی۔ یہ آپ کی محبویت اور مقبولیت کی علامت ہے۔
ایک معمولی اور دور افتادہ دیہی گاؤں اور معمولی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنی محنت ، صلاحیت اور صالحیت سے اونچے مقام پر پہنچے، اور گاؤں ، خاندان اور علاقے کا نام روشن کیا ۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی معمول کے مطابق گذر رہی تھی ۔ مولانا انیس الرحمن صاحب کی دعوت پر پھلواری شریف کے ایک پروگرام میں ان سے ملاقات ہوئی ، تھوڑا کمزور لگ رہے تھے۔ خیریت دریافت کیا تو کہنے لگے طبیعت تھوڑی خراب چل رہی ہے ، ہفتہ عشرہ میں علاج کرانے کے لئے دہلی جاونگا۔ ادھر میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ کی آخری تیاری میں مصروف تھا ۔ جب علاج کراکر پٹنہ لوٹے تو والد محترم نے مجھے فون کیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت بہت خرات ہے۔ دہلی سے علاج کرواکر آئے ہیں جاکر ان سے ملاقات کرو اور میرا سلام عرض کرنا ۔ میں اسی دن دفتر سے واپس آتے ہوئے شام کو ان کی رہائش گاہ پہنچا، وہ دوا کھاکر آرام کر رہے تھے اس لئے ملاقات نہیں ہو سکی۔ میں نے بھی اصرار نہیں کیا ۔ چند دنوں بعد معلوم ہوا کہ طبیعت پھر خراب ہو گئی ہے اور پارس ہاسپیٹل میں ایڈمیٹ ہیں ۔پھر خبر ملی کہ دہلی لے جایا گیا ہے ۔ ان کی صحت یابی کے لئے دعائیں ہوتی رہیں ، ادھر طبیعت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی۔ بالآخر قدرت کا فیصلہ غالب آکر رہا ۔ 28 جنوری کی صبح ڈاکٹرعبد الغفور صاحب دارفانی سے کوچ کر گئے۔ جسد خاکی کو دہلی سے پٹنہ لایا گیا جہاں پہلے سے ہی سیاسی ، سماجی اور معزز ہستیاں موجود تھیں۔ یہاں سرکاری اعزاز کے ساتھ سلامی دی گئی ۔ اسمبلی اور راجد دفتر میں بھی انہیں خراج عقیدت پیش کی گئی ۔ پھر جنازہ کو ان کے آبائی وطن بوہر وا لے جایا گیا ۔ 29 جنوری کو بعد نماز ظہر جنازے کی نماز ادا کی گئی ۔ نماز جنازہ مفتی انظار احمد نائب قاضی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ نے پڑھائی اور آبائی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا ۔جنازہ میں شرکت کے لئے علاقہ اور قرب و جوار سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی،آخری دیدار کرنے والوں میں غیر مسلم حضرات بھی بہت تھے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس علاقہ میں ایسی بھیڑ کبھی نہیں دیکھی گئی ۔
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں