Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 24, 2020

میراث ‏کی ‏تقسیم ‏میں ‏تاخیر ‏کیوں ‏؟



از/  اسعد اعظمی؍ بنارس/صداٸے وقت۔
==============================
 یوں تو سماج میں، خاندان اور رشتہ داروں میں اختلاف وانتشار اور ناچاقی کے بہت سارے اسباب اور مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ ان اسباب ووجوہات کا جائزہ لیں گے تو ایک اہم سبب باپ دادا کی میراث کی تقسیم کا معاملہ بھی ہوتا ہے۔ اس تقسیم میں بھی متعد د طرح کے تنازعے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں کولے کر آپس میں غلط فہمیاں پلتی رہتی ہیں اور بروقت تدارک نہ ہونے سے وہ مخاصمت اور بغض وعداوت کا سبب بنتی ہیں۔

 وراثت کے سلسلے میں پیدا ہونے والے تنازعات کے مختلف اسباب میں سے ایک اہم سبب وراثت کی تقسیم میں تاخیر، بلکہ یوں کہہ لیجیے غیر معمولی تاخیر بھی ہے۔ حسب مشیت الٰہی ہر شخص ایک مخصوص عمر گذار کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے اور اپنے پیچھے بیوی بچوں اور دوسرے اعزہ واقارب کو چھوڑتا ہے۔ اس کا ترکہ کم ہو یا زیادہ، نقدی کی شکل میں ہو یا زمین وجائداد کی شکل میں، ہر ایک سے اس کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا کل متروکہ مال واسباب اس کے ورثہ کی ملکیت ہوجاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں تمام ورثہ کے حقوق متعین کردیے گئے ہیں، اسی روشنی میں ہر ایک کو اس کا حصہ دیا جاتا ہے۔
 کسی بھی شخص کی وفات کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے مال میں سے اس کی تجہیز وتکفین کا انتظام کرنے، اگر قرض ہے تو اسے ادا کرنے، اگر جائز حدود کے اندر وصیت کی ہے تو اسے نافذ کرنے اور اس طرح کا کوئی اور معاملہ ہو تو اسے نمٹانے کے بعد گھر والوں کو چاہیے کہ آپس میں بیٹھ کر اولین فرصت میں وراثت کی تقسیم کا کام انجام دیں۔ اس میں بلا عذر تاخیر کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔ لیکن دیکھا جاتا ہے کہ اکثر لوگ اس تاخیر کے مرتکب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے نئے نئے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں جن سے بآسانی بچا جاسکتا تھا۔
 اس تاخیر کے پیچھے بسا اوقات کچھ غلط تصورات وخیالات بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وراثت کی تقسیم کوئی اچھی بات نہیں، بلکہ جس طرح ہم اپنے والد یا والدین کی زندگی میں مل جل کر رہتے تھے اسی طرح رہیں۔ گویا وراثت کی تقسیم کو ایک عیب کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور اس وجہ سے اسے ٹالا جاتا ہے۔ حالانکہ آج نہیں کل وہ تقسیم ہوکر رہے گی، لیکن ’’بعد از خرابی بسیار‘‘۔
 وراثت کی تقسیم شرعی حکم ہے۔ اس سے شرمانے، ہچکچانے یا اسے آپسی میل جول کے خاتمہ کا سبب بالکل نہیں سمجھنا چاہیے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ جس مزعومہ اتفاق واتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے وراثت کی تقسیم سے گریز کیا جاتا ہے اور ٹال مٹول کی جاتی ہے آگے چل کر وہ اتفاق واتحاد تقسیم میراث کے مسائل کو لے کر ایسے بغض وعناد اور مخاصمت ومنافرت میں تبدیل ہوجاتا ہے کہ الأمان والحفیظ۔
 وراثت کی تقسیم میں تاخیر کا مسئلہ بسا اوقات یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ دوسری نسل رخصت ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یعنی ایک شخص کے انتقال کے برسہا برس بعد تک اس کی میراث تقسیم نہیں ہوتی یہاں تک کہ اس کی اولاد کے انتقال کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اب پوتے لوگ دادا کی میراث تقسیم کریں تب والد کی میراث تقسیم کریں۔ اس دوران متروکہ جائدادوں میں کافی تبدیلیاں ہوچکی ہوتی ہیں اور تقسیم کا معاملہ بڑا پر پیچ ہوجاتا ہے۔
 باپ کی میراث کی تقسیم میں تاخیر کی وجہ سے عام طور سے یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکے باپ کی جائدا د میں کچھ اضافہ کرتے ہیں جو محض ان کی محنت سے ہوتا ہے، اسی طرح باپ کے ذریعہ شروع کیے گئے کاروبار میں اس کے گذرنے کے بعد ایک لڑکا یا کچھ لڑکے اسے ترقی دے کر بہت آگے لے جاتے ہیں، ان تمام حالات میں تاخیر سے میراث تقسیم ہوتی ہے تو ان لڑکوں میں اور دیگر ورثہ میں استحقاق کو لے کر بڑے اختلافات ہوتے ہیں جو بسا اوقات اگلی نسلوں تک منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
 کچھ عورتیں باپ کی وراثت میں اپنا حصہ لینے سے اس لیے ہچکچاتی ہیں کہ اس طرح بھائیوں کے یہاں ان کے آنے جانے کا استحقاق ختم ہوجائے گا اور تعلقات منقطع ہوجائیں گے۔ حالاں کہ ایسا کچھ نہیں، یہ خون کا رشتہ ہے، مال وجائداد کا نہیں۔
 وراثت کی تقسیم کے ذمہ دار (جیسے بڑے بھائی وغیرہ) تقسیم نہ کرنے کا یہ عذر پیش کرتے بھی سنے جاتے ہیں کہ کوئی مطالبہ ہی نہیں کررہا ہے اس لیے میں کیسے تقسیم کروں، یہ عذر بھی غیر معقول ہے۔ باپ کے گذرنے اور اس سے متعلقہ حقوق کی ادائیگی کے معاً بعد تقسیم کا عمل شروع کردینا چاہیے، کسی کے مطالبہ یا اصرار کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔
 وراثت کی تقسیم کے وقت مستحقین کو آپس میں نرمی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کوئی بڑا ہے اس نے باپ کے ساتھ زیادہ کام کیا ہے، چھوٹے بھائی نے کم کام کیا ہے اس لیے اسے کم ملنا چاہیے، اس طرح کی باتیں اخوت باہمی کے سراسر منافی ہیں۔ اپنے سگے بھائی بہنوں کے لیے بھی اگر کوئی اتنی رواداری نہیں دکھا سکتا تو بڑے افسوس کی بات ہوگی۔ ایسے پائی پائی کا محاسبہ کرنے کی ذہنیت والے دیکھے جاتے ہیں کہ وہ سکون وقناعت کی زندگی نہیں گزارتے۔
 خلاصہ کلام یہ کہ
 ٭ وراثت کی تقسیم میں تاخیر سے پرہیز کیا جائے۔
 ٭وراثت کی تقسیم کو سماجی عیب نہ تصور کیا جائے۔
 ٭تقسیم میں کچھ نرم گرم ہو تو برداشت کیا جائے۔
 ٭تقسیم کے معاملے میں سختی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔
 ٭تقسیم کے مسئلہ کو لے کر رشتہ میں دراڑ نہ آنے دی جائے۔ الخ۔
 واللہ ولی التوفیق۔