Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 17, 2020

عصر ‏حاضر ‏میں ‏مسلمان ‏، ‏ساٸنس ‏اور ‏ٹیکنالوجی ‏سے ‏بے ‏خبر ‏کیوں ‏ہے۔


تحریر: محمد حسین  جامعہ ملیہ اسلامیہ/صداٸے وقت
==============================
کچھ عرصہ پہلے یہ خیال عام تھا کہ سائنس کی ترقی صرف یورپی اقوام کی جاگیر ہے مگر رفتہ رفتہ یہ حقیقت تسلیم کرلی گئی کہ سائنس اور ٹیکنا لوجی کی ترقی میں غیر یورپی اقوام نے بھی بہت اہم کر دار ادا کیا ہے جس میں مصر ، جنوبی امر یکہ ،چین، ہندوستان اور مختلف عرب ممالک شامل ہیںالبتہ اسلام کے زیر ے اثرعربوں نے قدیم سائنس کو سیکھنے اور اس کو یورپ تک منتقل کرنے اور خود اس ورثے میں نیا اور اہم اضافہ کرنے کا جو تاریخی کا ر نامہ انجام دیا اس کا اعتراف اب سنجید ہ علمی حلقوں کی ذات سے کیا جانے لگا ہے۔

اردو زبان میں ایسی کتابیں کم ہیں جن میں مسلمانوں کے سائنسی کار نامے کو تنفس کے ساتھ کیا گیا ہو اس لیے مسلم طلبہ و طالبات میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ سائنس کی ترقی صرف یورپ کے اقوام کا کارنامہ ہے۔
حقیقت یہ کہ مسلمانوں نے سائنس اور ٹیکنا لوجی کی ترقی میں ہر میدان میں اضافہ کرنے کی جدو جہد کی اور یورپ کے ترقی کے لیے بنیادیں فراہم کیں مسلم حکمرانوں نے یونان، ایران اور ہندوستان کی کتابوں کے ترجمے کروائے اوران سے استفادہ کو عام کیا مسلم دنیا میں بہت سے ایسی عظیم شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے سائنس کے میدان میں زبر دست خدمات انجام دیں ان میں چند نام یہ ہیں:
ابو القاسم الزہراوای دنیاانہیں بابائے سرجری کے نام سے جانتی ہے اس طرح جابر ابن حیان علم کیمیا کے بانی ہیں اور ابن ہیشم کو بصر یات کا بانی کہا جاتا ہے علم ریاضی کی ایک اہم شخصیت موسیٰ الخوارزمی جس نے انجینئر کی ایجاد کی اسی طرح ابن سینا نے کتاب القانون فی الطب سے اس علم کو آسمان کی بلند یوں تک  پہنچادیا ۔قرون وسطی کے مسلمانوں کے سائنسی کارمے پڑھنے کے بعدناظرین کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوگا کہ جب مسلم اقوام نے ایسے عظیم کارنامے ماضی میں انجام دئے توپھر آج سائنس اور ٹیکنالوجی میں وہ کیوں پیچھے رہ گئے یہ واقعی ایک اہم سوال ہے اس مضمون میں تفصیلی گفتگو کرنا ممکن نہیں مختصر عرض کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے سائنسی میدان میں پیچھے رہ جانے کے اہم اسباب ہیں: اس کا ایک اہم سبب یورپی استعمار ہے جس نے مسلمانوں کو غلام بنالیا اور ترقی کی راہیں محدود کردیں۔
اگرچہ مسلم ممالک اب آزاد ہوچکے ہیں لیکن سیاسی آزادی کے ختم ہو جانے کے باوجود ذہنی غلامی اب بھی موجود ہے ایک آزاد مسلم سماج کے لیے ضروری تھا کہ وہ سارے علوم بشمول سائنس کے اپنے طرز زندگی اور نظر یہ کے مطابق نئے سرے سے مرتب کرتا اور اپنی زبان اور اپنی اصطلاحات استعمال کرتا دوسرے تہذیبوں سے سیکھنے میں نقل کرنے کے بجائے تنقید سے کام لیے ہوئے استفادہ کرتا اور تحقیق و تفیتش کے نئے طریقے کی بنیادرکھتا جو اس کے نظریہ کے مطابق ہوتے اگر یہ سارے کام کر لئے جاتے تو سائنس ورثہ اسلامی علمی روایات کا جز بن جاتا ایسی صورت میں ممکن تھا کہ مسلمان سائنس سیکھتے اور خود سائنس کی تخلیق کرتے اب سائنس ایک اجنبی نظریئہ زندگی کی حیثیت سے مسلمان کے سامنے آتی ہے چنانچہ وہ انکے نفسیات کا جز نہیں بنتی اس لئے نہ وہ اسے سیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کو ترقی دے سکتے ہیں ۔
مسلمانوں میں آزادی فکر اور تخلیقیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ کتاب و سنت کو معیار حق تسلیم کریں اور تمام انسانی افکار و نظر یات اور آراء کو اس معیار سے عقل کی میزان پر رکھنے کے عملا قائل ہوں۔اگر مسلم سماج کا ذہن وشعور آزاد ہو جائے اور وہ اسلامی مقاصد کو پورے شرح صدر کے ساتھ اپنالے تو اس کے اندر حرکت پیدا ہوگی اس کا اثر زندگی کے ہر شعبہ پر سائنس کی حکمرانی ہے۔ پوری انسانیت علم کی برکتوں سے فیضیاب ہو رہی ہے۔
مسلمان جہاں سائنس کی ایجادوں سے دوسروں کی طرح فائدہ اٹھا رہے ہیںوہاں ان کے ذہن میں باربار سوال ابھرتا ہے کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کا کیا رول رہا ہے؟اپنے زمانے کے ناموروں میں کسی مسلمان کا نام نہ پاکر نئی نسل خاص طور پر احساس کمتری کا شکا ر ہورہی ہے اسکولوں، کا لجوں اور یونیور سٹیوں میں زیر تعلیم مسلم طلبہ کو یہ احساس ہمیشہ رہا ہے کہ انکے اسلاف کا سائنسی کار ناموں سے دامن کیوں خالی ہے؟غیر مسلموں کی نظر میں مسلمانوں کی تصور ایک ایسے شخص کی شبیہ ہے جو عیش وعشرت کا عادی اور تعلیم سے محروم انسان ہے۔ اسے زمانے کے تقاضوں کا کوئی علم نہیں۔پرانی روایات کو سینے سے چمٹائے ہوئے ہے۔غیر مسلموں کے ذہنوں میں یہ مکر وہ شبیہ پیدا کرنے کا ذمہ دار خود مسلمان ہے جس کی کا ہلی اور لاعلمی نے غیروں کو ہنسنے کا موقع دیا ۔ عصر حاضر میں اخلاقی لحاظ سے مسلمانوں کی پسماندگی کی اصل وجہ اگر ایمان و عمل سے ان کی دوری ہے تو دنیا وی اعتبار سے ان کے زوال کا اہم سبب سائنس اور ٹیکنا لوجی سے بے خبر ی ہے۔ وہ زمانے کے تقاضوں سے بے خبر ہیں  اور نئے علوم کی طرح توجہ نہیں دیتے ۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہیں اگر عہد زوال میں انہوں نے غالب، اقبال،اور احمد شوقی جیسے شاعر پیدا کئے تو سائنس کے شعبے میں کوئی صاحب کمال کیوں پیدا نہیں ہو سکا؟۱۹۰۱ سے عالمی پیما نے پر گراں قدر سائنسی خدمات کے قرار پر اعتراف ہر سال چوٹی کے سائنس داں کو نوبل پر ائز دیا جاتا رہا ہے اب تک سائنس کے شعبے میں اس انعام سے جس قوم کا دامن خالی ہے وہ مسلمان ہے۔ آج کے دور کی کوئی ایجادود ریافت بظاہر ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں ہم فخر سے کہہ سکیں کہ یہ ہماری محنت وجانفشانی کا ثمرہ ہے مسلم طلبہ مایوس ہیں بعض اوقات وہ دوسرے کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان کی حیثیت سے متعارف کرانا عیب سمجھتے ہیں ۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جس سائنس نے ان کی آنکھیں خیر ہ کرکے انہیں احساس کمتری میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اسے ان کے اسلاف ہی نے صدہا سال خون جگر سے سینچ کر پروان چڑھا یا ہے۔ سائنس اپنے و جود اور اپنے ترقی کے لئے ہمارے آباو اجداد کی صدیوں تک مرہون منت رہی ہے اور آج وہ ہمارے لئے متاع گمشدہ ہے جس کے بارے میں آیا ہے کہ حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے اسے جہاں پائو حاصل کرلو۔
بہر حال :ہم نے جب دین اور دنیا کے تقاضوں پر عمل سے خود کو دور کرلیا ، ہم تنزل وانحطاط کا شکار ہوتے چلے گئے ۔ اب ہماری کا میابی کی ایک ہی شرط ہے اور وہ یہ کہ ہم دین پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرتے ہوئے علمی میدانوں میں دوسری قوموں کے ساتھ شانہ بہ شانہ محنت کریں۔ کوئی بھی قوم اپنی محنت کی بنیاد پر ہی ترقی کی شاہر اہ پر آگے بڑھتی ہے۔