Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 6, 2020

ہم ‏عرب ‏نہیں ‏ہیں ‏جو ‏قتل ‏پر ‏خاموش ‏رہیں ‏۔۔۔۔۔۔۔سیاہ ‏فام ‏امریکی ‏احتجاجیوں ‏کے ‏پوسٹر ‏کی ‏تحریر۔( ‏we ‎are ‎not ‎arab ‎to ‎kill ‎us ‎and ‎keep ‎silent ‎)

از/ذاکری اعظمی/صداٸے وقت /٦ جون ٢٠٢٠۔
=============================
ہم عرب نہیں کہ قتل پر خاموش رہیں*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔      یہ وہ جملہ ھے جو اس وقت امریکی مظاہرین کی زبان پر گردش کر رہا ھے،ہر گلی کوچے سے اس کی صدا آرہی ھے،ہر طرف اس کی بازگشت سنائی دے رہی ھے،لوگوں میں سخت غم و غصہ ھے ،پورے ملک میں افرا تفری کا عالم ھے،چالیس شہروں میں کرفیو نافذ  ھے،ہر گلی میں فسادیوں کی ٹولیاں حیوانیت کا رقص کر رہی ہیں ،املاک تباہ کی جارہی ہیں ،دکانوں کو لوٹا جا رہا ھے،گاڑیوں کو نذر آتش کیا جا رہا ھے،مظاھرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں ،اربوں کی مالیت کا نقصان ہو چکا ھے،ہر طرف قیامت  کا منظر ھے،ہر جانب تباہی کی بھیانک داستان ھے،صورتحال کنٹرول سے بالکل ہو چکی ھے،قصر صدارت پر مظاہرین کا قبضہ ھے،دنیا کا سب سے طاقتور شخص صدر امریکا زمین دوز ہو چکا ھے،پینٹاگن میں ہلچل ھے،امریکی فوج کو سڑکوں پر اتارنے کی بات چل رہی ھے،سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کیا ہو رہا ھے!!  
                                                                      امریکہ کاحالیہ ہنگامہ نسلی تعصب کا شاخسانہ ھے،25 مئی کو سفید نسل کی امریکن پولیس نے ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کو  بے رحمی سے قتل کردیا،قتل کا منظر نہایت ذلت آمیز اور وحشیانہ تھا،پولیس نے دونوں گھٹنوں سے اس کی گردن دبا رکھی تھی ،مقتول کے منھ سے آخری جملہ نکلا کہ میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں،اس ویڈیو کا منظر عام پر آنا تھا کہ سیاہ فام میں بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی،جس کو امریکی صدر نے اپنے بیان سے دو آتشہ کر دیا،انہوں نے مقتول سے ہمدردی جتانے کے بجائے مظاہرین کو دھمکیاں دینی شروع کردیں،اور ان کو طاقت کے زور پر کچلنے کا فرمان جاری کر دیا،بس کیا تھا،دیکھتے ہی دیکھتے ہی بغاوت کی چنگاری شعلہ جوالہ میں تبدیل ہو گئی،اور امریکہ تاریخ کی بد ترین خانہ جنگی کے دہانہ پر پہونچ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                          امریکہ میں نسل پرستی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ھے،اس سے پہلے 1960 کی دہائیوں میں کالے اور گوروں کے درمیان خونریز واقعات اور خوفناک فسادات ہو چکے ہیں ،لیکن اس بار صورتحال کچھ مختلف ھے،سیاہ فام سر میں کفن باندھ کر میدان کارزار میں کود چکے ہیں،اور نسلی تعصب کے خلاف سد سکندری بن کر امریکہ کی سڑکوں پر رقص کر رہے ہیں!!                                                                                 اس احتجاج کی خاص بات یہ ھے کہ،مظاہرین کے ہاتھوں میں ایک تختی نظر آرہی ھے،جس میں لکھا ھے: ہم عرب نہیں کہ قتل پر خاموش رہیں!! یہ جملہ اپنے آپ میں بہت معنی خیز ھے،اور عربوں کی غیرت اور حمیت پر زبردست چوٹ ھے،اس میں اگر چہ لفظ عرب کا استعمال کیا گیا ھے،لیکن اس سے مراد مسلمان ہیں،یہ ایک مسلمہ حقیقت ھے کہ پوری اسلامی دنیا میں غیرت وحمیت کا زبردست فقدان ھے،مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک خون مسلم کی ارزانی ھے،مگر کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی،فلسطین میں ہر دن ظلم وستم کی نئی داستان رقم کی جاتی ھے،شام میں اب تک بشارالاسد کی فوج لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کر چکی ھے،عراق اور افغانستان میں کشت وخون کا کھیل جاری ھے،مگر افسوس کہ ہر طرف خاموشی ھے،نہ کہیں احتجاج ھے نہ مظاہرہ،نہ کہیں شور ھے نہ ہنگامہ،گویا سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہو!!                                                                                        خود اپنے ملک کو ہندوستان کو لے لیجئے!          جہاں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ھے،ان کی ماب لنچنگ کی جارہی ھے،راہ چلتے قتل کیا جا رہا ھے،اخلاق سے لیکر پہلو خان،حافظ محمد جنید،علیم الدین، افراز الاسلام ،تبریز انصاری اور نہ جانے کتنے نام ہیں جنہیں بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا،سی اے اے اور این آرسی کے خلاف حالیہ احتجاج میں سیکنڑوں مسلم نوجوانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا،شاہین باغ اور جامعہ ملیہ میں پر امن احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلائی گئیں،اور پھر دلی کے فساد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا،لیکن ہماری غیرت نہیں بھڑکی،ہماراغصہ نہیں پھوٹا، ظلم وستم کا سلسلہ یہیں نہیں  ختم ہوا،بلکہ لاک ڈاؤن کے دوران دلی پولیس نے ان تمام لوگوں پر کریک ڈاؤن کیا ،جو شاہین باغ اور جامعہ ملیہ کےاحتجاج میں پیش پیش تھے،انہیں حراست میں سخت اذیتیں دی گئیں اور نہایت ظالمانہ برتاؤ کیا گیا،حال ہی میں جامعہ کی ایک طالبہ صفوا زرگر کا ایک خط وائرل ہوا جو اس نے تہاڑ جیل سے لکھا ھے،اس خط میں دلی پولیس کی بربریت اور حیوانیت کی داستان بیان کی گئی ھے،ان تمام لوگوں پر یو اے پی اے جیسے ظالمانہ قانون کے تحت کاروائی گئی ھے،واضح رہے کہ یہ قانون خطرناک دہشت گردوں کیلئے بنایا گیا ھے،لیکن دلی پولیس کی نظر میں پر امن مظاہرین سے بڑا مجرم کون ہو سکتا ھے؟پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے ان تمام مظالم کے باوجود ہر طرف خاموشی ھے،ایسا لگ رہا ھے جیسے سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ھے ،آج جب امریکہ کے مظاہرین کی تختی سامنے آئی ، تو ذہن میں ایک ایک کر کے ماضی کے واقعات گردش کرنے لگے،رہ رہ کر ایک ہی خیال آتا ھے،کیا واقعی ہم اتنے بے حس اور بے غیرت ہو گئے کہ ایک سیاہ فام ہمیں اخوت کا مطلب بتا رہا ھے! ہماری حمیت آخر کہاں مر گئی!ہم تو پوری دنیا میں یہ کہتے پھرتے ہیں کہ سارے مسلمان آپس میں بھائی کی طرح ہیں،دنیا کے کسی خطہ میں اگر کسی مسلمان کو تکلیف پہونچتی ھے ،تو اس کا درد ہمیں محسوس ہونا چاہئے،لیکن کیا واقعی ہم اس کسوٹی پر پورا اترتے ہیں؟یہ سوال کوئی مسلمان نہیں،ایک سیاہ فام شخص کر رہا ھے،جو اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا۔۔۔۔کیا ہم اس سوال کا جواب دینے کیلئے تیار ہیں؟کیا ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے ؟کیا ہمیں غیروں سے سبق لینے کی ضرورت ھے؟یہ وہ سوالات ہیں جن پر ہمیں گہرائی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ھے۔۔فقط۔۔۔