Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 6, 2020

دہلی فساد: متاثرین ہی مجرم ٹھہرے؟

از/ ایم ودود ساجد/ صداٸے وقت / 6 جون ٢٠٢٠۔
=============================
اِس سال فروری میں برپا ہونے والا دہلی کامسلم کش فسادتاریخ کا وہ بدترین فساد بن گیا ہے جس کے بعد پولیس کارروائی بھی فساد میں لٹنے پٹنے والوں کے خلاف ہی کر رہی ہے۔۔۔انگریزی جریدے آؤٹ لک میں شاستری رام چندرن لکھتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ دہلی پولیس اور کجریوال حکومت کو متاثرین کو انصاف دلوانے کی کو ئی جلدی نہیں ہے۔
 
اب تک 700 مسلمانوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔یہ سب جیل میں ہیں۔ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے CAA کے خلاف منظم ہونے والے مظاہروں میں نمایاں طورپرحصہ لیا تھا ۔۔۔لیکن انہیں بھی فسادات سے جوڑ دیا گیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ فساد کا ذمہ دار کپل مشرا ، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کی منافرت انگیز اور اشتعال آمیز تقریروں اور بیانات کو نہ مان کر اس کی پوری ذمہ داری مظاہرین پر ڈال دی گئی ہے ۔۔۔ ان کے خلاف سخت دفعات لگائی گئی ہیں ، جن میں UAPA کے علاوہ دفعہ B 120-‘153-A اور 124 اے بھی شامل ہیں ۔۔۔ 120-A مجرمانہ سازش‘ 153-A مذہب کی بنیاد پر مختلف طبقات کے درمیان منافرت پھیلانے اور 124-A ملک سے غداری کے الزامات کے تحت عاید کی جاتی ہیں ۔۔۔ ان 700گرفتار شدگان میں سے بہت سوں کے خلاف چارج شیٹ بھی داخل کردی گئی ہیں۔ 
پولیس نے چند روز قبل 20 ہندؤں کے خلاف بھی چارج شیٹ دائر کی ہے ۔۔۔ پولیس نے اس خبر کو بڑی اہمیت کے ساتھ جاری کیا ہے اور صاف طورپر بتایا ہے کہ دو حقیقی بھائیوں ، ہاشم علی اور عامر علی کے قتل کے الزام میں اس نے 20 ہندؤں کے خلاف چارج شیٹ داخل کردی ہے ۔۔۔ خبر کے اتنے سے حصہ کو اگر دیکھیں تو پولیس غیر جانبدار محسوس ہوتی ہے ۔۔۔ لیکن سمجھنے کا نکتہ یہی ہے کہ پولس نے ان 20 افراد کے خلاف دفعات کیا لگائی ہیں ۔۔۔؟
اس سلسلہ میں پولیس نے جو کچھ بتایا ہے اسے سمجھنا ضروری ہے: پولیس کے مطابق مذکورہ 20 لوگ ان 125ہندؤں کے اس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جس نے 24 فروری کی شب وہاٹس ایپ پر ایک گروپ ’کٹرہندو‘ کے نام سے تشکیل دیا تھا ۔۔۔ پولیس کہتی ہے کہ اس گروپ کا مقصد ’بدلہ‘ لینا تھا ۔۔۔ یہ لوگ آپس میں گروپ پر اس طرح کی گفتگو کر رہے تھے: لاٹھی ، ڈنڈے اور گن کا انتظام کرلو۔ ایک ممبر نے لکھا کہ ” میں نے کسی ایک کام کام تمام کردیا “۔
لہذا پولیس نے مذکورہ 20 ماخوذ ہندوؤں کے خلاف جو چارج شیٹ داخل کی ہے اس میں ”دنگا ، آگ زنی اور قتل “ کی دفعات لگائی گئی ہیں۔ ان کے خلاف UAPA یا دفعہ B120-‘153-A اور 124-A نہیں لگائی گئیں ۔۔۔ یہ دفعات صرف مسلمانوں کے خلاف ہی لگائی گئی ہیں ۔۔۔ گویا عملاً متاثرین کو ہی فساد شروع کرنے کا ذمہ دار گردان لیا گیا ہے اور اشک شوئی کیلئے بلکہ غیر جانبدار نظر آنے کیلئے دو مسلم نوجوانوں کے قتل کے الزام میں جن 20 ہندؤں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کو بالواسطہ طور پر محض جوابی اور دفاعی حملہ کا قصوروار گردانا گیا ہے ۔۔۔
اس سلسلہ میں 27مئی کو دہلی کی ایک عدالت سے آنے والا تبصرہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔۔۔ انڈین ایکسپریس کی اننیہ بھاردواج نے بتایا ہے کہ ایڈیشنل جج دھرمیندر رانا نے سی اے اے کے خلاف مظاہروں کی رہ نمائی کرنے والے آصف اقبال تنہا کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے پولس کو سخت پھٹکار لگائی اور کہا کہ لگتا ہے کہ انویسٹی گیشن ایک ہی طرف کو جارہی ہے اور حقائق بہت ہی زیادہ پریشان کن ہیں ۔۔۔ عدالت نے کرائم برانچ کے ڈی سی پی سے کہا ہے کہ وہ خود انویسٹی گیشن کی نگرانی کریں ۔۔۔ اسی طرح دہلی ہائی کورٹ نے بھی دو ماخوذ نوجوانوں کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے بہت سخت تبصرہ کیا ہے اور ایک تفصیلی حکم جاری کیا ہے۔
اب ذرا دل تھام کر اور سانس روک کر یہ خبر پڑھئے:
مذکورہ تمام مقدمات کی پیروی کیلئے دہلی حکومت نے جو وکیل مقرر کئے ہیں ان کے نام تشار مہتا‘ امن لیکھی اور منندر سنگھ ہیں ۔۔۔ یہ مقدمات دہلی کی ذیلی عدالتوں میں اور غالباً کڑ کڑ ڈوما یا شاہدرہ کی عدالت میں چلیں گے۔ لیکن ان میں متاثرین کی پیروی یا نمائندگی تشار مہتا جیسے سینئر وکیل کریں گے۔ تشار مہتا صرف سینئر وکیل ہی نہیں ہیں بلکہ وہ اس وقت مودی حکومت کے سالیسٹر جنرل ہیں جو سپریم کورٹ میں حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں ۔۔ سالیسٹر جنرل ملک کا دوسرا سب سے بڑا لا آفسر ہوتا ہے ۔۔ دوسرے دو وکیل امن لیکھی اور منندر سنگھ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ہیں۔ امن لیکھی نئی دہلی کی (بی جے پی) ممبر پارلیمنٹ میناکشی لیکھی کے شوہر ہیں ۔۔۔ میناکشی لیکھی پارلیمنٹ میں کپل مشرا کی حمایت کرچکی ہیں ۔ یہی نہیں انہوں نے سی اے اے کے مخالفوں اور مسلمانوں پر بھی سخت لعن طعن کی تھی۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تینوں سینئر وکیل ، بلکہ حکومت ہند کے سینئر لا آفیسرز متاثرین کی کیا پیروی کریں گے ۔۔۔ کیا ان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ فساد زدگان کو انصاف دلوائیں گے جبکہ وہ کپل مشرا ، انوراگ ٹھاکر اور پریش ورماکے آقاؤں کی نوکری کر رہے ہیں ۔۔۔؟
تشار مہتا کے بارے میں اتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ 2002 کے گجرات فسادات میں انہوں نے مقامی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک میں فسادات کے ملزموں کی نمائندگی کی تھی اور اوڈے میں 23 مسلمانوں کو زندہ جلاکر مارڈالنے کے الزام میں عمر قید کی سزا پانے والے 15مجرموں کو سپریم کورٹ سے اس شرط پر ضمانت دلوادی تھی کہ رہا ہونے کے بعد وہ سماجی خدمت کے کام کریں گے ۔۔۔ انہی تشار مہتا نے گجرات ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی تھی جس میں ہائی کورٹ نے گجرات فساد کے دوران تباہ ہونے والی 500 عبادت گاہوں کی مرمت کرانے کیلئے حکومت گجرات کو ہدایت دی تھی۔ مذکورہ دونوں مقدمات میں تشار مہتا حکومت گجرات کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کی حیثیت سے پیش ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ نے گجرات ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلہ کو بھی کالعدم قرار دیدیا تھا ۔۔۔
تشار مہتا نے حال ہی میں ملک کی سڑکو ں پر سرگرداں مزدوروں کے معاملہ میں بھی سپریم کورٹ میں مودی حکومت کی نمائندگی کی تھی اور مزدوروں کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو ”گِدھ ، قیامت کے پیغام بر اور غیر محب وطن“ قرار دیا تھا ۔۔۔ یہی نہیں انہوں نے ملک کی ان 19ہائی کورٹس پر ملک میں متوازی حکومت چلانے کا الزام بھی عاید کیا تھا جو مزدوروں کے حق میں کچھ ہدایات جاری کر رہی تھیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے تشار مہتا کو کچھ نہیں کہا تھا ۔۔۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اروند کجریوال نے تشار مہتا کو فسادات کے مقدمات کی پیروی کیلئے سرکاری وکیل کیوں مقرر کیا؟