Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 25, 2020

ملی ‏نماٸندے ‏وقت ‏کی ‏ضرورت ‏پر ‏توجہ ‏دیں۔۔۔۔۔



از/ شکیل رشید /صداٸے وقت ۔
==============================

ممبئی میں ایک آن لائن پریس کانفرنس میں اہم ملی تنظیموں کے نمائندوں نے لداخ میں چین کی در اندازی کی مذمت کرتے ہوئے مودی سرکار سے اپیل کی ہے کہ وہ عوام، حزب اختلاف، فوج اور سفارت کاری کے ماہرین کو اعتماد میں لے۔ اور فی الفور پر امن، منصفانہ اور مستقل حل تلاش کرے تاکہ پوری یکسوئی کے ساتھ معیشت کی بحالی اور عالمی وبا سے مقابلہ کرنے پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔ ملی نمائندوں کے اس بیان سے ان کی وطن سے بے پناہ محبت کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے اور ملک کی معیشت کی بگڑتی صورتحال اور کورونا وباء کی تیز رفتاری پران کی بے چینی کا احساس بھی ۔ ملک کے ہر اچھے شہری کو چاہئے کہ وہ ملی نمائندوں کی بے چینی کو محسوس کرے اور اس میں خود شامل بھی ہووے ۔

ملی نمائندوں نے اپنی اپیل میں تین باتوں پر زور دیا ہے، مسئلے کا پرامن اورمنصفانہ حل، معیشت کی بحالی اور کورونا سے مقابلہ ۔ واقعی اس وقت یہ تینوں ہی اہم مسئلے ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا چین سے بات چیت اور کشیدگی کے خاتمہ کے بعد لداخ کا مسئلہ حل ہو جائے گا، کیا ملک کی معیشت پٹری پر آجائے گی، اور کیا پھر کورونا سے لڑائی پر پوری طرح سے توجہ مرکوز کر دی جائے گی؟؟  جو ان سوالوں کا جواب ’ہاں‘ میں دیتے ہیں انہیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ چین پر کسی بھی صورت میں بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، اس نے ہمیشہ دھوکہ دیا ہے، فوج کے ریٹائرڈ افسران اور عالمی امور کے ماہرین چین کو ہندوستان کے لیے پاکستان سے بڑا خطرہ قرار دیتے چلے آرہے ہیں، اس نے پنڈت جواہر لال نہرو کو دوست بن کر دھوکہ دیا، اروناچل پردیش تک گھس آیا، تبت اور سکم پر اس کی نظریں ہیں، وہ بھوٹان کو آنکھیں دکھا کر ہندوستان کو تزویری طور پر زیر کرنے کے لیے کوشاں ہے اور ساری گلوان وادی پر دعویٰ کر چکا ہے۔ چین کا مسئلہ پیچیدہ ہے۔  لہٰذا مسئلے کے فی الفور پر امن، منصفانہ اور مستقل حل تلاش کرنے کی اپیل کرنا تو آسان ہے ،اس پر عمل درآمد آسان نہیں ہے ۔مسئلہ اگر حل ہوگا بھی تو اس میں مدت لگے گی، تب تک اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو معیشت مزید تباہ ہو جائے گی اور کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ یہ دونوں مسئلے فوری طور پر توجہ کے متقاضی ہیں، پر افسوس کہ مودی سرکار معاشی میدان میں بھی اور کورونا کی وباء سے نمٹنے کے معاملے میں بھی بری طرح سے ناکام ہو چکی ہے۔ اب تو یہ لگ رہا ہے کہ معیشت کی بحالی کی کوئی کوشش کی ہی نہیں جا رہی ہے۔ بڑی ہی بے شرمی سے کہا یہ جا رہا ہے کہ معیشت کی صورتحال بہتر ہے !!  اور جہاں تک بات کورونا کی ہے تو مرکزی حکومت نے ہاتھ اٹھا لیے ہیں اور ریاستی سرکاروں کو کورونا سے نمٹنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ تالی بجانے، تھالی پیٹنے اور موم بتیاں جلوانے کے بعد یہی ہونا تھا۔
ملی نمائندوں سے ایک سوال ہے، کیا ملک میں بغیر امن اور چین کے قیام کے معیشت مستحکم ہو سکتی ہے اور کورونا سے مقابلہ کرنا ممکن ہے؟؟  اس سوال کے ساتھ ایک سوال اور جڑا ہوا ہے، کیا ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کو اعتماد میں لیے اور ان سے انصاف کیئے بغیر ملک میں امن و چین ممکن ہے؟ ایک سوال مزید ہے، کیا اقلیتوں کے مسائل کا فی الفور حل ضروری نہیں ہے؟ آج کی صورتحال دیکھیں کہ ماب لنچنگ پھر شروع ہو گئی ہے، سہارنپور میں اسرار نامی ایک شخص نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ شاملی سے ایک مسلم نوجوان کو مارنے پیٹنے کی خبر آ رہی ہے ۔شاملی ہی میں مسلمان پولیس کے ستم سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اس گاؤں میں بھی جہاں وہ اکثریت میں ہیں اپنے گھروں کو فروخت کرکے دیگر علاقوں میں جانے کے لیے تیار ہیں، مظفر نگر میں علی الصبح اذان دینے کے لیے جا رہے موذن شہزاد کو پولیس والے بری طرح سے پیٹ دیتے ہیں اور کوئی زبان نہیں کھولتا، دہلی اور یوپی کی مسلمانوں کی اندھا دھند گرفتاریاں سامنے ہیں۔ مسلمان ڈرائے اور ستائے جا رہے ہیں، کیا حکومت سے ان مظلومین کو انصاف دینے کی اپیل نہیں کی جا سکتی؟ ملی نمائندے ان کی طرف بھی دیکھیں اور حکومت پر امن، انصاف اور ان ستائے جانے والوں کے مسائل کے مستقل حل کا پرزور مطالبہ کریں۔ اگر ملک میں امن رہے اور نفرت کے بادل چھٹیں تو معیشت بھی پٹری پر آئے گی اور کورونا سے مقابلہ بھی آسان ہو جائے گا، اورچین کو بھی جارحیت سے پہلے سو بار سوچنا پڑے گا۔ ملی نمائندے، بہتر یہی ہے کہ عالمی اور قومی معاملات کا حل حکومت، سیاست دانوں اور ماہرین پر چھوڑ دیں اور ملی مسائل پر پوری توجہ مرکوز کریں کہ یہی وقت کی ضرورت ہے ۔