Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 7, 2020

میڈیکل ‏ٹورزم ‏کا ‏خواب ‏،،، ‏اسلاموفوبیا ‏اور ‏ڈاکٹر ‏چندانی۔


از /حکیم نازش احتشام اعظمی/ صداٸے وقت /7 جون 2020.
==============================
ہندوستان میں جس طرح تمام شعبہ ہائے زندگی کو سرمایہ داروں اور کارپوریٹ نامی جانوروں نے کاروباری بنادیا ہے ، اسی طرح خالص خدمت خلق کاامین اور محافظ باور کیا جانے والا شعبہ طب بھی ان کے خونیں پنجوں سے محفوظ نہیں رہ سکا اور وہاں بھی ان ساہوں کاروں اور ان کے پروردہ آلہ (stethoscope) براداروں نے ڈیرے ڈال دیے ۔آج شعبہ صحت کی حالت یہاں تک خراب ہوچکی ہے کہ آپ کسی بھی نرسنگ ہوم ، میٹرنٹی سینٹراور بڑے ڈاکٹر وں کے شاہی ٹھاٹ باٹ سے مزین شفاخانوں میں علاج کی غرض سے داخل ہوں تو بیماری سے زیادہ یہ آپ کو یہ فکر بھنبھوڑنے لگے گی کہ اتنا بڑا اور عالی شان اسپتال ہے ،پتہ نہیں معالج صاحب کتنے کا بل بنائیں گے ،شاید ایسا نہ ہو کہ ڈاکٹر کے ریسپشن پر بیٹھی حسینہ مسکراتے لبوں سے آپ کو اتنابھاری بھرکم بل تھمادے یا اسٹیٹمنٹ بتادے،جسے سن کر آپ خود بے ہوش ہوجائیں اور علاج کے بجائے بیمار رہتے ہوئے موت کو گلے لگالینے کا فیصلہ کرلیں۔یہ کوئی ہوا ہوائی لفاظی نہیں ہے، بلکہ معالجات کی موجودہ حالات کا آنکھوں دیکھا مشاہدہ ہے، جس سے رات دن ہم سب کا سابقہ پڑتا رہتا ہے۔اب یہ سارے میٹھے اور دلکش لگنے والے موہنے الفاظ صرف’’ جملہ‘‘ تک محدود ہوکر رہ گیے ہیںکہ’’ ڈاکٹر روئے زمین پر بھگوان کا اوتار یا مسیحا ‘‘ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔یہ تو رہی شعبہ صحت کی عام سی بات جسے لگ بھگ ہم لوگوں نے ذہن و دل سے قبول بھی کرلیا ہے کہ ڈاکٹر ہوگا تو معالج سے زیادہ بنیا اور ساہوکار ہوگا۔آپ کی اقتصادی کنڈیشن سے اسے کوئی سرو کار نہیں ہوگا ، بلکہ علاج کے بدلے اس کو بھاری بھرکم فیس چاہیے، اوپر سے پیتھولوجی، لیباریٹری اور دوا کمپنیوں سے کمیشن چاہیے ،یعنی وہ آپ کو چاروں جانب سے لوٹے گا، یہی اس کا پیشہ ہے اور اسی تگ ودو میں اس کی زندگی کے شب وروز گزرتے ہیں۔ اب اس بات کو جانے دیجیے کہ طبی اخلاقیات بھی اس معالج کے نصاب کا خاص چیپٹر رہاہوگا اور ڈگری ہاتھ میں لیتے وقت اس نے جو قسم کھائی ہوگی یا حلف اٹھایا ہوگا کہ وہ : مال و دولت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے امیرو غریب سب کے علاج کو اپنا فرض منصبی تصور کرے گا۔
حکیم نازش احتشام اعظمی۔

پیسے کی کمی کی وجسےکسی کواپنی کلینک کی سیڑھیوں سے اتر تا ہوا دیکھ کر اس کا کلیجہ منہ کو آجائے گا اور ایسا کرنا کسی بھی قیمت پر وہ گوارا نہیں کرے گا۔ یہ طب کی اعلیٰ اخلاقیات ہیں ،جس کا تقاضہ اس کا یہ فن زندگی کے ہر موڑ پر اس سے کرتی  ہے ۔مگر آج کا طبیب ہر لمحہ اس طرح کےخیالات کو تھوکتا اور پیروں تلے مسلتا رہتا ہے۔ 
امید ہے میرے اطبا احباب اس بات کو میری جانب سے تعمیری تنقید ہی سمجھیں گے کہ اب وطن عزیز ہندوستان میں اطباء خصوصاً تجربہ کار اور مصروف معالجین جدید طبی اخلاقیات سے قطعاً ناواقف نظر آتے ہیں اور نو آموز ڈاکٹروں کے لئے کوئی ایسی عملی مثال بن کر سامنے نہیں آتے، جس کی تقلید کی جاسکے۔ گو مخلص اور ایماندار اطباء اب بھی موجود ہیں، لیکن شاید آٹے میں نمک کے برابر۔ آپ اس کے سامنے اپنی غریبی، محتاجی اور لاچاری کا لاکھ رونا روتے رہیں ، اس کے سر پر آپ کی حالت زار کو دیکھ اور سن کر جوں تک نہیں رینگے گی، بلکہ اسے آپ سے جتنا وصول کرنا ہے وہ اتنا اتار کرہی دم لے گا ۔
 کیا میں یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ پیشۂ طب روبہ زوال ہے اور اس کے عزت و وقار میں بتدریج کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ اور یہ سب خود جدید میڈیکل سائنس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مخلوق کی سیہ کاریوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔ اس کی وجوہات میں ریاست کا عوام کی صحت سے مجرمانہ اور دانستہ غفلت کا رویہ، پرائیویٹ میڈیکل تعلیم میں مسلسل اضافہ، غیر معیاری طبی تعلیم، بین الاقوامی فارما سیو ٹیکل کمپنیوں کی ڈاکٹروں پر سرمایہ کاری اور ایک کمزور انڈین میڈیکلکونسل سب سے نمایاں ہیں۔ ہم اس وقت صرف طبی اخلاقیات پر بحث کریں گے۔غریب مریضوں کے ساتھ جانوروں سابرتاؤ کرنے والے بیشتر معالجین کی بات کریں گے جن میں سے زیادہ ترکی تعلیم  ڈکیتی اور سوداگری سکھانے والےپرائیویٹ میڈیکل کالج سے ہی ملی ہے۔
واضح رہے کہ حیاتیاتی اخلاقیات کا دائرہ اسپتالوں یا شفاخانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ مضمون طب اور صحت کے شعبوں میں خدمات فراہم کرنے والے تمام اداروں، ان کے طبّی اور نیم طبّی عملے، اس شعبے میں تعلیم، تحقیق اور تجربات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ لہٰذا اس میں تمام متعلقہ افراد کے حقوق اور فرائض بھی آجاتے ہیں۔ کمیونٹی ہیلتھ سائنسز کی ایک ماہر کے بقول ’طبی اخلاقیات‘ (medical ethics) اپنے آپ میںبہت وسیع مضمون ہے، جس کا تعلق بنیادی طور پر انسانی اخلاقیات سے ہے۔
یہ ہمیشہ یاد رکھیے کہ فرد کی اخلاقی تربیت کی ابتداء گھر سے ہوتی ہے۔ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح طب اور صحت کے شعبوں میں بھی آج بہت سے اخلاقی مسائل در آئے ہیں۔ مثلاً غلط طریقوں سے دولت کمانا، تحقیقی کام کی چوری یا نقّالی اور اسپتالوں و شفا خانوں وغیرہ میں کام کرنے والے طبّی اور نیم طبّی عملے کی جانب سے لوگوں یا مریضوں کے ساتھ غلط رویہ اختیار کرنا، مریضوں کے ساتھ نا انصافی کرنا وغیرہ۔یہ رہی طبی اخلاقیات(medical ethics) کی بات۔ مگر اس پر اگر مذہب کی افیم چڑھی ہو تو اس کے ہر قدم سےصحیح معنی میں طب کے  معزز پیشے کی توہین ہوگی۔
دراصل گزشتہ یکم جون2020 کواین ڈی ٹی وی کی انگریزی سائٹ پر ایک ہیبت ناک خبر شائع ہوئی ہے، جس نے میڈیکل کے معزز پیشہ کو شرمسارکرکے رکھ دیا ہے اور آن واحد میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی، این ڈی ٹی کی رپورٹ کے مطابق کسی مقامی جرنلسٹ نے جی ایس وی ایم میڈیکل کالج کان پورکی پرنسپل اور ریاست کی معروف لیڈی ڈاکٹر لال چندانی کا ایک ویڈیو وائرل کیاہے، جس میں ڈاکٹر لال چندانی اسپتال میں کووڈ19-کے لیے زیر علاج تبلیغی جماعت کے لوگوں کو دہشت گرد قرادیتے ہوئے کہتی ہے کہ تم لوگوں کا ٹھکانہ جیل یا جنگل یا کسی تہ خانے میں ہونا چاہئے اور فوراً اسپتال سے باہر پھینک دینا چاہئے۔خیال رہے کہ یہ وائرل ویڈیو دوماہ پرانا یعنی ماہ اپریل 2020 کا ہے، جب سے چندانی کی حیوانیت کا پرچار سوشل میڈیا کے ذریعہ ساری دنیا میں ہورہا ہے۔
’’A top Uttar Pradesh doctor, the principal of one of the biggest government hospitals in Kanpur, has been caught on camera apparently referring to members of the Islamic sect "Tablighi Jamaat" as terrorists and saying they should be sent to jail or to 'jungles and dungeons' instead of hospitals.‘‘ 
غور کیجیے ! کیا یہ کسی مستند معالج کی زبان ہوسکتی ہے جو سند لیتے وقت ہر قسم کی تفریق سے بالاتر ہوکر خالص انسانی بنیاد پر بیماروں کی خدمت کرنےکا حلف لیتاہے اور جسے ہمیشہ طبی اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جس میں بتایا جاتا ہے کہ اس کے پاس علاج کی غرض سے آنے والا کوئی بھی مریض صرف مریض ہوتا ہے،لہذا اس کاعلاج مذہب یا اس کی ذات اور رنگ و نسل دیکھ کرنہیں کیا جاسکتا ، یہ طریقہ کار سراسر طبی اخلاقیات(medical ethics) کے منافی اور فن کے ساتھ فریب و غداری ہے۔ مگر جس کی تربیت ہی نفرت پھیلانے والی قوتوں اور تنظیموں کی گود میں ہوئی ہو،اس سے کسی کے ساتھ بھی  انسانیت یا باہمی رواداری اور محبت و الفت قائم کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ڈاکٹر چندانی جیسے لوگوں کے بارے میں ہی شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ غیرمذہب کے بیماروں کو موت کا انجکشن لگانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے ہوں گے۔بچوں کو اچھے اخلاق اور انسان بن کر جینے اور زندگی گزارنے کی تعلیم گھر سے ہی دی جاتی ہے، لگتا ہے کہ لال چندانی کے والدین بھی اسی نفرت کے گٹر کے  تربیت یافتہ ہوں گے ،جس گٹر کے بانیوں نے ملک سے غداری کی تھی اور انگریزوں کی غلامی کا طوق گلے میں ڈال کر زندگی بھر مجاہدین آزادی کے مخبری کی ذمے داری ادا کرتے رہے۔
آرتی لال چندانی کے خلاف اپنی شکایت میں سپریم کورٹ کے وکیل علی زیدی نے لکھاہے کہ ’’میں یہ شکایت ڈاکٹر آرتی لال چندانی کے خلاف کررہا ہوں ، جو گنیش ودھاتی میڈیکل کالج ، کانپور کی پرنسپل ہیں ، ذیل میں دیے گئے حصوں کے تحت ایف ۔آئی۔آر کے اندراج کے لیے ہیں۔ ڈاکٹر آرتی لال چندانی اور دیگر نامعلوم افراد کی گفتگو کا ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہو رہا ہے ، جس میں اسے ایک خاص مذہب کے ممبروں اور خاص طور پر مسلم برادری کے لوگوں کے خلاف تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور انہوں نے یہ تبصرہ کیاہے۔’’وہ دہشت گرد وں کو وی آئی پی ٹریٹمنٹ دے رہی ہے۔ انہیں جنگلوں میں بھیج دو ، انھیں کال کوٹھری میں پھینک دو۔ یہ 30 کروڑٹیرورسٹ100 کروڑہندوستانیوں  کے لیے معاشی نقصان کا باعثبن رہے ہیں۔ سوچیے اور فیصلہ کیجیے کہ کیایہ کسی مستند معالج کی زبان ہوسکتی ہے، یا نفرت کے جہنم میں بھنے ہوئے سنگھ کے پالے پوسے شدت پسندوں کی شر انگیزی۔
ایسے حالات میں جب وزیر اعظم ہندوستان کو ’’میڈیکل ٹورزم کا ہب ‘‘ بنانے کا خواب بن رہے ہیں ،جب چندانی جیسی ناگنوں کازہر شوسل میڈیا کے ذریعہ ان ملکوں تک پہنچے گا جہاںکے پیشنٹ کی جیب تراشی کے لیے ساہوکار لوگوں نے بڑے بڑے اسپتال بنارکھے ہیں وہ ایسے خطرناک بیانات کو سن کر علاج کے لیے ہندوستان آنے کی ہمت کرسکیں گے۔ وہ اس جگہ علاج کے لیے سفر کرنا پسند کریں گے ،جہاں معالج کی ذہنیت اتنی غلیظ ہو، جہاں کے معالج پر اسلامو فوبیا کا بھوت سوار ہو اور جہاں کے ڈاکٹر مذہب کے نام پر کسی کی جان لے لینے کو جائز سمجھتے ہوں۔کون ایسا بے وقوف ہوگا جو موت کی بات کرنے والے معالج کواپنا جگر چاک کرنے کی اجازت دے گا۔اگر ڈاکٹر چندانی کے خلاف حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کی گئی تو سمجھ لیجیے کہ ’’ہندوستان کو میڈیکل ٹورزم کاہب‘‘ بنانے کاوزیر اعظم کا خواب خواب ہی رہ جائے گا۔