Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 7, 2020

زندگی ‏کے ‏تمام ‏معاملات ‏میں ‏حقیقت ‏پسندانہ ‏رویہ ‏اختیار ‏کرنے ‏کی ‏ضرورت ‏ہے ‏۔

از /  ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی / صداٸے وقت /7 جون 2020.
==============================
سال 1988 میں مدرسة الاصلاح سراۓمیر میں ہمارے ایک استاذ مولانا اظہار الدین اصلاحی علیہ الرحمہ تھے ۔وہ قدیم استاذ ,تمام درسیات پر عبور رکھنے والے , حاضر دماغ , حاضر جواب اور استاذ الاساتذہ تھے ۔ بڑی تعریفیں سن رکھی تھیں ۔ مگر جب ہمارے حصے میں آۓ تو کبرسنی اور مختلف بیماریوں کی وجہ سے بڑی حد تک معذور ہوچکے تھے ۔اکثر دانتوں کے درد سے پریشان رہتے تھے ۔ پڑھانے میں بہت پریشانی ہوتی تھی ۔ وہ اپنے اس طرف کے گال کو تیزی سے سہلاتے رہتے تھے جدھر درد ہوتا تھا ۔وہ کیا بول رہے ہوتے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا ۔یادداشت متأثر ہوچکی تھی ۔ان کے ذہن پر 1936 چھا گیا تھا ۔مولانا آپ مدرسہ میں کب آۓ ؟۔1936 ۔ مولانا آپ کے چھوٹے بھائی بامبے کب گئے تھے ؟۔ 1936 ۔ مولانا مودودی مدرسہ پر کب آۓ تھے ؟۔ 1936 ۔ مولانا آپ کی تاریخ پیدائش کس سال ہوئی؟ ۔ 1936۔ وغیرہ یہ لطیفہ نہیں ہے ۔ ہمار ے دور کے تما م ساتھیوں کو یاد ہوگا ۔
مدرسہ کے ذمہ داران کے سامنے بہت سے مسائل تھے ۔ نئے استاذ کا تقرر کریں تو ان سے کیا کام لیں گے ۔صحت اس لائق نہیں رہ گئی ہے کہ ان سے کسی طرح کا کام لیا جاسکے ۔ اگر ان کو رخصت کردیتے ہیں تو ان کے اخراجات اور زندگی کے معاملات کیسے انجام پائیں گے ۔اگر رخصت نہیں کرتے ہیں اور ان کی عمر کے دیگر افراد کو سبکدوش کردیتے ہیں تو لوگ سوال کریں گے کہ ہمارا قصور کیا ہے ؟ کہ ہمیں تو چھٹی دے دی گئی جب کہ فلاں صاحب مجھ سے زیادہ کمزور ہیں تو انہیں کیوں نہیں چھٹی کی گئی ۔ اگر پانچ سات لوگ اسی نوعیت کے بزرگ یکجا ہوجائیں تو مدرسہ ان کی تنخواہ کہاں سے دےگا ۔ جو صحیح سلامت ہیں ان کی تنخواہوں کا انتظام کرنے میں تو دن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں تو باقی اور لوگوں کو جو اب بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے معذور ہوگیے ہیں ان کا انتظام کیسے اور کہاں سے کیا جاۓ ۔
ادھر یہ بھی مسئلہ ہے کہ اگر سبکدوش نہ کیا جاۓ تو بچوں کا تعلیمی مستقبل خراب ہورہا ہے اور اگر رخصت کرتے ہیں تو تمام مسائل کے علاوہ سماج کے لوگوں کی ناراضگی مول لینی پڑتی ہے ۔اور ان سے ہمدردی بھی ہے ۔ اب آپ کیا فیصلہ کریں گے ؟ کوئی حکومتی ادارہ تو ہے نہیں یا آمدنی کے اتنے وسائل تو ہیں نہیں کہ سارے بزرگوں کی کفالت کی جاۓ اور نئے لوگوں کو تنخواہ بھی دی جاے ۔ایسے میں اگر کسی کو عمر یا بیماری کی وجہ سے سبکدوش کیا جاتا ہے تو اور باتوں کے علاوہ یہ بھی سننا پڑتا ہے کہ  کارپوریٹ سیکٹر کا نظام چلایا جارہا ہے ۔ ایک شخص کی جوانی نچوڑ لی گئی اور بڑھاپے میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ۔ 
چنانچہ تین چار سال تک کسی طرح مولانا اظہار الدین اصلاحی صاحب کو چلاتے رہے مگر یقینا طلبہ کے ساتھ نا انصافی ہوئی جس کا احساس طلبہ کو اس وقت نہ ہونا تھا نہ ہوا ۔ ان کو کھلونا چاہیے تھا اور کھلونا ملا ہوا تھا ۔ روز ایک نیا کھیل ہوتا ۔ مولانا آج پڑھنے کا موڈ نہیں ہے ۔ مولانا اچھا تو وہ آپ نے فلاں صاحب کا نکاح پڑھانے سے انکار کیوں کردیا ۔ مولانا آپ کے بچے بھی نہیں ہیں تو جو تنخواہ ملتی ہے وہ کہاں خرچ ہوتی ہے ۔ اب سنتے رہیے ۔ اس وقت بڑا مزہ آتا رہا کہ طالب علمی اور کھیل کود کا زمانہ ہوتا ہے ۔ مگر اب خیال ہوتا ہے کہ نہیں ہمارے ساتھ غلط ہوا ۔ہمدردی اور کسی کا تعاون اپنی جگہ لیکن کوئی کام متأثر نہیں ہونا چاہیے ۔آخر کوئی فیصلہ تو کرنا ہوگا ۔ 
ہمارے مدرسہ سے فارغ ہونے کے دوسال بعد ان کو سبکدوش کیا گیا تو پورے علاقے میں چرچا تھا ۔ بڑی زیادتی ہوئی ۔ بے چارے بڑھاپے میں کیا کریں گے ۔بتایے مدرسہ کے ذمہ داران کتنے بے رحم ہیں ۔ کچھ نہیں سوچا اور جتنے منہ اتنی باتیں ۔
آپ بتاییے ۔ آپ کے پاس کیا حل ہے؟ کوئی تو ضابطہ بنائیں گے ۔ 
آپ اپنے گھر دکان پر ایک ملازم رکھتے ہیں ۔ پچیس تیس سال کام لیتے ہیں اور جب آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارا کام نہیں ہورہا ہے تو پہلے شخص کو کچھ دے دلاکر اس کی تنخواہ سے زیادہ تحفے تحائف دے دلاکر رخصت کردیتے ہیں اور پھر دوسرا تازہ دم آدمی لاتے ہیں ۔ یہی تو کرتے ہیں یا پرانے لوگوں کو بھی بٹھاکر تنخواہ دیتے ہیں اور نیے لوگوں کو بھی ۔
سوچیے ۔ یہی حال تمام اداروں ,مدارس, مساجد اور جماعتوں کا ہوتا ہے ۔ مجبوری ہے ۔ اگر آپ کو یہ ذمہ داری دی جاۓ تو آپ کیا کریں گے ؟
کسی سطح کے ذمہ داروں نے اس طرح کی شکایت کبھی نہیں کی کہ فلاں صاحب کو کیوں سبکدوش کردیا گیا ۔البتہ جو اس طرح کا کویی فریضہ انجام نہیں دے رہے ہیں وہ لوگ اس طرح کی باتیں بہت کرتے ہیں ۔ میرا خیال ہے ایسے لوگوں کے ذمہ کچھ کام دے کر پھر پوچھنا چاہیے کہ اب بتاییے کیا خیال ہے ۔
ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی    لکھنؤ
9839538225