Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 13, 2020

مولانا ‏الطاف ‏حسین ‏حالی ‏کی ‏یاد ‏میں ‏۔۔۔۔۔۔۔۔تعارف ‏و ‏تجزیہ۔


از/ ابوسعد اعظمی/صداٸے وقت۔
==============================

مولانا الطاف حسین حالی کی شخصیت اردو داں طبقہ کے لیے کسی تعارف کی محتاج نہیں۔حیاتِ سعدی، یادگار غالب، مقدمہ شعر وشاعری، مسدس حالی اور حیات جاوید کو عہد آفریں تخلیقات کا درجہ حاصل ہے۔یہ ایسے زندۂ جاوید کارنامے ہیں جن کی تازگی اور تابندگی کو گزرتے وقت کی گرد مدھم نہیں کرسکے گی ۔حالی صدی کی مناسبت سے ملک کے باوقار علمی ادارہ دار المصنفین نے ان کو عقیدت ومحبت کا خراج پیش کرنے کے مقصد سے ۲۶؍اپریل ۲۰۱۵میں یک روزہ قومی سیمینار کا انعقاد کیا جس میں حالی کی دلآویز شخصیت اور ان کی عظیم الشان علمی اور ادبی خدمات کو ممکن حد تک احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ زیر تعارف کتاب در حقیقت اسی سیمینار میں پیش کیے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔البتہ اس کو زیادہ مفید  بنانے کے مقصد سے اس میں کچھ اضافے بھی کیے گئے ہیں جیسا کہ مرتب کتاب پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے اپنے مقدمہ میں صراحت کی ہے۔کتاب کے شروع میں پروفیسر ظلی کا تفصیلی مقدمہ ہے جس میں حالی وشبلی کے تعلقات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اور حالی کی عظمت وکردار کو ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے ’’ملی دردمندی، شرافت نفس، مروت، وضع داری، تواضع اور انکسار وہ عناصر ترکیبی تھے جس سے ان کی دلآویز شخصیت کی تعمیر وتشکیل ہوئی تھی‘‘۔
اس کتاب کا پہلا مقالہ ’’حالی کی کہانی خود ان کی زبانی‘‘ کے عنوان سے ہے جس کی حیثیت اضافہ کی ہے اور جو اس سے قبل معارف میں شائع ہوچکا ہے۔ اس کے بعد ’’حیات سعدی اور مولانا حالی ‘‘ کے عنوان سے علامہ شبلی کی ایک ابتدائی نادر تحریر ہے جو ان کے قیام علی گڑھ کی یادگار ہے۔ ایک اور اضافی مضمون ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی کا ’’تصانیف حالی‘‘ کے عنوان سے ہے جو اس سے پہلے فروغ اردو ۱۹۵۹ کے حالی نمبر کی بھی زینت بن چکا ہے۔افادۂ عام کے لیے اسے بھی شامل کردیا گیا ہے۔پروفیسر اصغر عباس نے  ’’حالی اور سرسید‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالہ میں ان کے آپسی تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔’’مسدس حالی ‘‘ کے پیچھے سرسید کی جو تحریک کارفرما رہی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ہم نے حالی سے کہا کہ اے مرد مخدوم، خدا نے تم کو زبان دی ہے اور تم نہیں بولتے، خدا نے تم کو معجز بیانی دی ہے اور تم کوئی معجزہ نہیں دکھاتے،خدا نے تمہاری آنکھ میں ابر نیساں سے بہتر آنسو دیے ہیں اور تم ایک بھی نہیں بہاتے، یقین کرو، ابر نیساں صدف کے دل میں جاتا ہے مگر تمہارا آنسو انسانوں کے دل میں جائے گا، للہ قوم کے حال ہر روؤ اور قوم کی جو تباہ حالت ہے اس پر مثل قرطبی کے ایک مرثیہ لکھ دو‘‘۔حالی اور سرسید میں جو نمایاں فرق ہے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’حالی اس معاملے میں سرسید سے واضح طور پر مختلف تھے کہ انہوں نے مسلمانوں سے ان کی اپنی شاندار تاریخ کا واسطہ دینے میں،اسلام کے ماضی کی فخریہ تعمیر نو کا خاص طور سے ذکر کیا ہے۔یہ امر نہایت اہم ہے کیونکہ وہ پورے دور آئندہ میں مذہبی ترقی کے لیے بنیاد کا کام کرتا ہے‘‘۔پروفیسر ظفر احمد صدیقی کا مضمون ’’حالی۔ ایک جامع کمالات شخصیت‘‘ اپنے موضوع پر خوب ہے ۔اردو زبان کے حوالہ سے مولانا حالی کی خدمات کے سلسلہ میں ان کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو ’’اردو ادب کے تعلق سے ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے تنقید کو تذکروں کے اشاروں کنایوں سے نکال کر باقاعدہ علم کا درجہ عطا کیا۔ مقدمہ شعروشاعری اردو تنقید کی سب سے پہلی باضابطہ اور مفصل کتاب ہے۔اس کتاب میں شاعری کی حقیقت وماہیت اور اس کے متعلقات کے بار ے میں جس تفصیل وتوضیح اور تجزیہ وتحلیل کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے، حالی سے پیشتر ہمارے ادب میں اس کی کوئی دوسری مثال مفقود ہے‘‘۔تنقید کےمیدان میں مولانا حالی کی انفرادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’گذشتہ صدی میں محمد حسن عسکری اور سلیم احمد سے لے کر جدیدیت بلکہ مابعد جدیدیت تک اردو تنقید نے ارتقا کے جو مراحل طے کیے ہیں وہ یقینا لائق افتخار ہے لیکن ان سب کے علی الرغم حالی ہمارے لیے اب بھی منارۂ نور ہیں‘‘۔بحیثیت سوانح نگار حالی کی عظمت ملاحظہ ہو ’’عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ’حیات سعدی‘ اردو میں جدید طرز کی پہلی سوانح عمری ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اردو میں اس سے پہلے کسی قدیم طرز کی بھی مستقل سوانح عمری کا پتہ نہیں چلتا، لہٰذا یوں کہنا چاہیے کہ ’حیات سعدی‘ اردو کی پہلی باقاعدہ اور مستقل سوانح عمری ہے‘‘۔ حالی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے ’’یادگار غالب‘‘ لکھ کر ہمیں غالب کی شخصیت اور فکر وفن کی عظمت کا احساس دلایا۔مقالات حالی کی اہمیت یہ کہہ کر واضح کرتے ہیں ’’مقالات حالی کے مطالعے کے بغیر حالی سے ہماری واقفیت سرسری اور ادھوری رہتی ہے، کیونکہ حالی کی سیرت وشخصیت اور افکار ونظریات کے نہاں خانوں میں اترنے کے لیے مقالات حالی کے دریچوں کا وا کرنا بھی از بس ضروری ہے۔’’حالی ایک مطالعہ‘‘ کے عنوان سے دارالمصنفین کے سینئر رفیق عمیر الصدیق ندوی کا مقالہ بھی لائق مطالعہ ہے۔حالی کی شخصیت کے تعارف میں ان کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو ’’ حالی کی شخصیت میں وہ سب جمع ہوگیا جو ایک اصل ہندوستان کی شکل میں ہمیشہ سے لوگوں کے سامنے آتا رہا ہے۔ یہ پہچان کیا تھی؟ بہت کم الفاظ میں بیان کیا جائے تو شخصیت کی بلندی اور سیرت کی پاکیزگی تھی۔ان کی پوری زندگی کو پڑھنے کےلیے ان کی کتابیں کافی ہیں، جو قدم قدم پر بتلاتی ہیں کہ انصاف پسندی، میانہ روی، بالغ نظری، خلوص، قومی درد اور سب سے بڑھ کر بے غرضی جیسی خوبیاں تھیں جو جمع ہوکر حالی بن گئیں۔۔۔۔حالی میں سرسید کی وجاہت اور انتظامی قابلیت نہ تھی لیکن قومی درد اور بے غرضی میں وہ سرسید سے بھی بڑھا ہوا، حالی قوم کا خادم تھا، جس نے ہمیشہ کٹھن کام اپنے ہاتھ میں لیا، اپنے طبعی جوہر اور خلوص سے اس میں کمال پیدا کیا لیکن حق الخدمت لینے سے بھاگتا رہا‘‘۔ڈاکٹر محمد عزیر شمس کا مقالہ ’’مسدس حالی اور اس کے اثرات‘‘ معلومات سے پر ہے، اس سے یہ  بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسدس کی رد اور اس کی نقل کرتے ہوئے متعدد اشخاص نے مسدس نظم کیا لیکن ظاہر ہے جو قبولیت اور شہرت مسدس حالی کے حصہ میں آئی اس کا عشر عشیر بھی کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا۔انگریزی اور عربی زبان میں بھی مسدس کے کئی ترجمے شائع ہوئے ہیں فاضل مقالہ نگار نے مقالہ کے آخر میں ان کی تفصیلات پیش کی ہیں۔ڈاکٹر صفدر امام قادری کا مقالہ ’’حالی کی نثر۔ غیر افسانوی ادب کا  مثالی اسلوب‘‘بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔ٓحالی کی نثر سے متعلق ان کا یہ تبصرہ کس قدر حقیقت سے قریب ہے ’’حالی ماضی اور حال سے بڑھ کر مستقبل کو نگاہ میں رکھتے ہیں اس لیے غیر افسانوی نثر لکھتے ہوئے انہوں نے ایک ایسا اسلوب وضع کیا جس میں موجود اصناف تو شامل ہیں ہی لیکن ایسی صنف یا صنفیں جو آنے والی نسلوں کی ضرورت بنیں گی، اس کی زبان کی مزاج دانی بھی ان کے یہاں موجود ہے۔ حالی کے ذہن کی متانت، سنجیدگی، قرار، ٹھہراؤ اور سب سے بڑھ کر توازن ایسے اوصاف ہیں جن سے انہوں نے ایک ایسا نثری اسلوب وضع کیا جو کسی بھی موضوع کو خود میں سمیٹ کر لے چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘۔
دارالمصنفین کے رفیق مولانا کلیم صفات اصلاحی کے مضمون ’’شبلی کی حالی شناسی‘‘ کو اگر حاصل سیمینار قرار دیا جائے تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔دار المصنفین کا علمی وقار، بحث وتحقیق کی تابندہ روایت اور اس کا اعلی معیار، زبان وبیان کی سلاست اور مواد کی تلاش وجستجو میں کوہ کنی وعرق ریزی سب اس میں شامل ہیں۔حالی اور شبلی کے تعلقات کی وضاحت، ایک دوسرے کی عظمت کا پاس ولحاظ اور ان کے روابط کے سلسلہ میں اٹھائے گئے اشکالات کا محققانہ جائزہ اس مقالہ میں پیش کیا گیا ہے جس سے شبلی اور حالی کے تعلقات کی جہات پر کوئی گرد وغبار باقی نہیں رہتا۔شاہ نواز فیاض کا مقالہ بھی حالی پر مزید بحث وتحقیق کی خواہش رکھنے والوں کے لیے اس لحاظ سے کافی مفید ہے کہ اس میں ۱۹۹۱ سے اب تک اس موضوع پر لکھی جانے والی تحریروں کی ایک جامع کتابیات تیار کردی ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل ضیاء الدین انصاری کی تیار کردہ کتابیات ’’نقش حالی‘‘ کے نام سے ۱۹۹۱ء میں فکر ونظر (علی گڑھ) کے حالی نمبر میں شائع ہوچکی ہے۔ بحث وتحقیق سے دلچسپی رکھنے والے اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اگر کسی موضوع کے تعلق سے یہ بات ان کے سامنے واضح ہو کہ اس پر اب تک کتنا اور کن کن پہلووں سے کام ہوچکا ہے تو ان کے لیے سمت سفر متعین کرنا آسان ہوجاتا ہے۔کتاب میں اس کے علاوہ پروفسیر قمر الہدی فریدی، ڈاکٹر شباب الدین، ڈاکٹر محمد السلام اعظمی، ڈاکٹر عمیر منظر اور فضل الرحمن اصلاحی کے مقالات بھی بالترتیب ’’حالی کی تنقیدی بصیرت کے حوالے سے بعض باتیں‘‘ ’’حالی کا نظریۂ شعر‘‘، ’’مولانا حالی اور عربی زبان وادب‘‘، ’’سماجی درد مندی کا استعارہ۔مجالس النساء‘‘ اور ’’حالی کی تحریروں میں بچے اور عورتیں‘‘ کے عناوین سے شامل ہیں۔آخر میں سیمینار کی روداد، معارف اور حالی کے علاوہ اشخاص، کتب اور مقامات پر مشتمل جامع اشاریہ بھی شامل ہے۔کتاب میں شامل مقالہ نگاران میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اردو ادب کی دنیا میں جانے پہجانے جاتے ہیں، بحث وتحقیق اور اردو ادب کے فروغ کی کوشش میں ہی ان کی زندگیاں گزری ہیں ۔پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی اس تجویز پر اس کا اختتام کرتا ہوں کہ ’’ضرورت ہے کہ حالی کی سوانح حیات اور علمی کاوشوں پر مشتمل ایک ایسی جامع اور مبسوط کتاب تیار کی جائے جسے ’حیات جاوید‘ اور ’حیات شبلی‘ کے پہلو بہ پہلو رکھا جاسکے‘‘۔