Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 13, 2020

اعظم ‏گڑھ ‏کے ‏بگڑتے ‏حالات ‏، ‏اسباب ‏اور ‏تدبیریں۔


                                                                                                                                    *ایاز احمد اصلاحی*/ صداٸے وقت 
===============================
کہا جاتا ہے کہ خطہ اعظم گڑھ ہندوستانی مسلمانوں کا اندلس ثانی ہے، اتر پردیش میں واقع یہ ضلع اپنے آپ میں اسلامی تھذیب و تمدن کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے، یہاں کے مسلمان معاشی و تعلیمی لحاظ سے کافی مستحکم ہیں اور عالمی سطح کی شخصیات کو جنم دینے والی شبلی و فراہی کی یہ سرزمین اپنی مردم خیزی کے لیئے بھی کافی معروف ہے۔ اپنی ان خوبیوں کی وجہ سے یہ ضلع پوری دنیا میں عزت و وقار کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے، لیکن مسلم دشمن عناصر کو یہ ایک آنکھ نہیں بھاتا اور ان کے دلوں میں یہ ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ ہوگی ادیتیہ ناتھ بھی انھیں میں سے ایک ہیں جو اس وقت یو پی کے وزیر اعلی ہیں، اعظم گڑھ ان کے نشانے پر اب بھی ہے اور اس وقت بھی تھا جب وہ اس کے قریبی ضلع گورکھ پور کے ایم پی ہوا کرتے تھے۔

افسوس کہ میرے اپنے وطن، اغظم گڑھ سے اس وقت اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں۔ اعظم گڑھ اور جونپور میں ادھر چند دنوں کے اندر کم سے کم چار گاؤوں میں مسلم اور دلت فرقوں کے بیچ ( ہریجن ) ہوئے معمولی جھگڑے شدید ٹکراؤ، لوٹ مار اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں تبدیل ہوگئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے لاک ڈاؤن کے ستائے ہوئے غریب و ستم رسیدہ مزدوروں کی ملک بھر میں خدمت کرکے ان کے دلوں میں جو جگہ بنائی ہے وہ ملک کے مسلم دشمن عناصر برداشت نہیں کر پارہے ہیں اور وہ اپنی منفی حرکتوں سے اس خوشگوار تبدیلی کے اثرات کو جلد از جلد زائل کردینا چاہتے ہیں۔ 
تمام آثار و قرائن یہی اشارہ کر رہے ہیں کہ آر ایس ایس کے کارندے مسلمانوں کی حالیہ انسانی خدمات کے مثبت اثرات اور مضبوط ہوتے دلت مسلم اتحاد سے گھبرائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ نیا خوش آئند رجحان ان کے مسلم مخالف ایجنڈوں کو بالکل راس نہیں آئے گا۔ اس لیئے وہ فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے والے اپنے پرانے طریقوں کو آزما کر ہر قیمت پر اس برتاؤ کے مثبت اثرات کو منفی ماحول میں بدل دینا چاہتے ہیں۔ 
یہ مسئلے کا ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ ہماری بہت بڑی ناکامی ہو گی اگر ہم اتنی آسانی سے سنگھیوں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس جائیں؟ سوال یہ ہے کہ ہم خود کیوں اتنی سادگی سے مکار دشمن کی چالوں کے شکار بن جاتے ہیں؟ آخر اللہ تعالی نے ہمیں بھی عقل و خرد سے نوازا ہے اور ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ یہاں کی مسلم دشمن قوتیں ہروقت ایسے واقعات کی تلاش میں رہتی ہیں جو انھیں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا موقع فراہم کریں،اس کے باوجود نہ تو ہمارے اندر چوکنا رہنے کی عادت ہے اور نہ وقت رہتے ہم دشمن کی سازشوں کو سمجھ پاتے ہیں، اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ وقتی رد عمل کے سوا حالات کے تقاضوں کے مطابق ان شیطانی چالوں کو ناکام بنانے والی ہمارے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہوتی۔ 
میری معلومات کے مطابق دلٹ مسلم تصادم کے ان تازہ واقعات کے پیچھے کوئی بڑا سبب نہیں ہے، کہیں آم توڑنے کو لیکر نوجوانوں میں تو تو میں میں ہوئی تو کہیں کوئی دوسرا معمولی واقعہ حجت و تکرار کا سبب بنا لیکن ہوا کیا؟ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہریجن بستیوں کے لوگ مسلم گاؤ ں کو لوٹنے کے در پے ہو گئے، دونوں گروہوں میں جارحانہ تصادم ہوئے، دوسری طرف پولیس نے، جو پہلے سے ہی انتظار میں تھی، متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر مسلمانوں کو گرفتار اور ہراساں کرنا شروع کردیا ہے۔ اس طرح اس علاقے میں مسلمانوں کی یک طرفہ گرفتاریوں کا ایک نئے سلسلے کا آغاز ہو گیا ہے۔ اطلاع کے مطابق صرف ایک گاؤں بھدیٹھی سے تقریبا ساٹھ مسلمانوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں جن میں بوڑھے بچے، جوان سب شامل ہیں۔ متعلقہ گاؤوں کے مسلم گھروں میں پولیس برابر چھاپے مار رہی ہے، نوجوان بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں، کچھ گھروں میں پولس کے ذریعہ توڑ پھوڑ اور عورتوں کے ساتھ بد تمیزی کی بھی خبریں موصول ہوئی ہیں، ہریجنوں پر ایک خاص پالیسی کے تحت کہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا، البتہ یوگی کا حکم ہے کہ تمام گرفتار شدہ مسلمانوں پر این ایس اے لگایا جائے۔
حالانکہ ہمیں پورا یقین ہے اگر یہ جھگڑے دلت بنام برہمن یا دلت بنام ٹھاکر ہوئے ہوتے تو یا تو یہ واقعات اتنا آگے نہ بڑھتے یا اگر بڑھتے بھی تو ہریجنوں پر دباؤ ڈال کر خاموش کردیا جاتا۔ صاف معلوم پڑتا ہے کہ یہ حادثات یوں ہی اچانک رونما نہیں ہو ئے ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک سوچی سمجھی اسکیم کام کر رہی ہے۔ مگر افسوس ہے مسلمانوں پر، ایسے ماحول میں مسلمانوں کو جس سو جھ بوجھ سے کام لینا چاہئے تھا اور دانشمندانہ طریقے سےدلتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر فوری طور سے معاملہ حل کر لینا چاہئے تھا وہ شاید وقت پر نہیں ہو سکا۔
ان حالات میں وقت رہتے جو کام ترجیحی بنیاد پر کرنے کا ہے وہ ہے فوری طور پر دلتوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو باہمی مفاہمت سے حل کرنا ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس علاقے میں درج ذیل کام منصوبہ بند طور سے اور ترجیحی بنیاد پر کیئے جائیں۔
۱۔۔ ایسے تمام مسائل کی نشاندہی کر کے انھیں جلد از جلد حل کیا جائے جو کشیدگی کا سبب بنے ہوئے ہیں یا بن سکتے ہیں۔ اس کے لیئے ہر ایسے گاؤں میں جہاں ہریجن بستی ہے، "دلت مسلم کوآرڈینیشن کمیٹی" بنائی جائے، اور اس کی مٹنگوں میں ہریجنوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ امید ہے اس قسم کی کمیٹیاں مستقبل میں متنازعہ مسائل کے حل میں بڑا موثر رول ادا کر سکتی ہیں۔
۲۔۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سےضرورت مند دلتوں کی مدد کے لیئے مقامی سطح پر عملی پروگرام ترتیب دیئے جائیں۔ اس سے علاقے کی دلٹ بستیوں میں مسلمانوں کے تعلق سے ایک مثبت پیغام پہنچے گا۔
۳۔۔ دلتوں کے ساتھ مستقل طور سے رابطہ استوار کیا جائے، ان سے تعلق مزید مضبوط کیا جائے، ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر انھیں مسلمانوں سے قریب کیا جائے۔ یہ قربت ہی آئندہ غلط فہمیاں دور کرنے میں معاون بنے گی۔
۴۔۔ ایسے تمام امور سے سختی سے پر ہیز کیا جائے جو اونچ بیچ اور ذات پات کے تصور کی حمایت کرنے والے ہوں۔ دلتوں کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک کیا جائے، جیسا کہ اسلام کی تعلیم ہے۔ وقت بدل چکا ہے اور وقت کی ترجیحات بھی بدل چکی ہیں، اعلی ذات کے ہندووں کی طرح جن لوگوں کو کل تک ہم بھی اچھوت اور ہریجن سمجھ کر نظر انداز کرتے تھے یا ان سے نگاہیں پھیر لیتے تھے وہ آج ہماری ضرورت ہیں، ملک کے موجودہ ماحول می برہمنی نظام مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے اور فسطائیت کی راہ پر گامزن ہے، وہ سیاسی و معاشی وسائل سے بھی پوری طرح مسلح ہے، ان کی نظر دلت ہوں مسلمان سب دوسرے درجے کے شہری ہیں ۔ اس ماحول میں مسلمان اور دلت دونوں کو یہ بات سمجھنی ہے کہ اب تمام کمزور طبقے مل کر ہی ملک کی ظالم قوتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم دلتوں کو بھی اس برہمنی چال سے آگاہ کرنے کی طرف توجہ دیں۔ دور رس تبدیلی کا یہی ایک مستقل راستہ ہے۔ لیکن اس کے لیئے سب سے پہلے خطہ اعظم گڑھ کے مسلم اشرافیہ طبقے کو اپنی ذہنیت بدلنی پڑے گی اور خود کو زمیںدارانہ سوچ سے الگ کرنا پڑے گا۔
۵۔۔ دیرپا تبدیلی کے لیئے دینی جماعتوں کو ان دلت بستیوں کے لیئے ایک ٹھوس دعوتی منصوبہ ترتیب دینا ہوگا۔۔ یہ بستیاں آج بھی دعوتی امکانات سے بھری ہوئی ہیں۔اگر یہاں دعوتی روابط کے تمام ممکنہ طریقوں آزمایا جائے تو حیرت انگیز نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں دو فائدے حاصل ہوں گے: ایک تو دلتوں اور مسلمانوں کی بیچ دوریاں کم ہوں گی جو غلط فہمیوں کی اصل بنیاد ہے۔ دوسرے اس کے ذریعہ ہم اپنے ایسے نوجوانوں کو ایک مثبت کام میں مصروف کرسکتے ہیں جو زندگی میں کوئی متعین نصب العین نہ ہونے کی وجہ سے فریسٹریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور اکثر مسائل کو فرقہ وارانہ زاویے سے دیکھنے کی غلطی کرتے ہیں۔ 
۶۔۔ ان تمام کاموں کے ساتھ اپنے تحفظ و دفاع سے بھی ہمیں غافل نہیں رہنا ہے ، ہر گاؤں میں بیدار، باہمت اور باہم متحد نوجونوں کا ایک ایسا گروہ ضرور ہو جو وقت آنے پر پوری ہوش مندی اور خاموشی کے ساتھ اپنی دفاعی حکمت عملی ترتیب دے سکے۔ اس کے علاوہ انتظامیہ اور پولیس افسران سے بھی ہمارا تعلق مستقل طور سے استوار رہنا چاہیئے، یہ رابط و تعلق پولیس کی یک طرفہ کاروائیوں سے ہمیں بچانے کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائی میں بھی ہمارے کام آ سکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حالات جیسے بھی ہوں کبھی کبھی ذاتی تعلق مذہبی تعصب پر بھاری پڑ جاتا ہے۔