Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, June 30, 2020

سرحدی ‏تنازعہ۔۔۔نا ‏کام ‏ہوتی ‏ہماری ‏خارجہ ‏پالیسی۔


مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ۔
                  صداٸے وقت۔
             =============
ہند وچین میں جو نوک جھونک ڈوکلام میں چین کے ذریعہ سڑک تعمیر سے شروع ہوئی تھی ، کئی دور کی بات چیت اور فوجی افسران کے آپسی ملاقات  بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی، بات بڑھتی چلی گئی اور لداخ کے گلوان وادی میں دونوں ملک کے افواج کی آپسی جھڑپ میں سرکاری اطلاع کے مطابق بیس ہندوستانی جوان کو اپنی جان گنوانی پڑی، چھہترزخمی ہوئے دس کو چین نے گرفتار کر لیا ، جسے اگلے دن اس نے رہا کردیا،چین کی طرف سے اپنے فوجیوں کی ہلاکت کی تعداد نہیں بتائی گئی ہے، صرف جانی نقصان کا اقرار کیا گیا ہے، خبروں کی مانیں تو پینتیس چینی فوجی بھی مارے گیے ، اس جھگڑے کا تعلق بھی؛ سڑک تعمیرہی سے ہے، ہندوستان اروناچل پردیش؛ جموں وکشمیر ، سکم ، اترا کھنڈ اور ہماچل پردیش کو سرحد سے جوڑنے کے لیے سڑکوں کی تعمیر کر رہا ہے، چین کو ا س تعمیر پر اعتراض ہے ، یہ اعتراض حقائق کی بنیاد پر نہیں، دادا گیری کی بنیاد پر ہے، چین نے ہندوستان پر پہلا حملہ ۲۶۹۱ئ میں کیا تھا اور سولہ ہزار اسکوائر کلو میٹر ہندوستان کی زمین ہڑپ لی تھی ، دوسرا حملہ اس نے ۷۶۹۱ئ میں سکم کی طرف سے کیا، یہ اندرا گاندھی کا دور اقتدار تھا، ہندوستانی افواج نے ایسا چھکہ چھڑا یا کہ ناتھو لا اور چھولا سے چینی افواج کو بھاگنا پڑا، ۵۷۹۱ئ میں چین نے تیسری بار ہندوستان میں گھس پیٹھئے کا کام کیا ، اس بار بھی چین کو منہہ کی کھانی پڑی، لیکن اب کے صورت حال کچھ الگ ہے، سابق میجر اجے شکلا کا کہنا ہے کہ چین ہندوستانی علاقہ میں ساٹھ کلو میٹر اندر تک گھس آیا ہے ، چین کا کہنا ہے کہ افسران کی میٹنگ کے بعد اس نے اپنی فوج کو ڈھائی کلو میٹر پیچھے بلالیا ہے ، اس کا مطلب ہے کہ چین اپنے سابق رہنما ماؤزی تنگ کے اس قول پر عمل کر رہا ہے کہ دس کلو میٹر گھس جاؤ، عالمی دباؤ پڑے تو دو کلو میٹر پیچھے ہٹ جاؤ، آٹھ کلو میٹر کا فائدہ ہوگا اور دنیا امن پسند بھی کہے گی ، تحقیق تو نہیں ہے، مگر لداخ میں ہندوستان کی سرحد پر کچھ ایسا ہی کھیل جاری ہے،گو ہمارے وزیر اعظم نے کل جماعتی میٹنگ میں اس بات کی تردید کی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے ، نہ چین نے ہماری کسی فوجی چوکی پر قبضہ کیا ہے اور نہ ہی ہندوستانی زمین پر، وزیر اعظم نے درست ہی کہا ہوگاان کی طرف سے دی گئی معلومات کو کون جھٹلا سکتا ہے اس لیے ہم مانتے ہیں کہ اجے شکلا کو کہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی، اس کے باوجود سرحد پر دونوں ملکوں کی فوجی سرگرمیاں بڑھی ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ چین تو خیر دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے۔ اب تونیپال جیسے چھوٹے ملک نے بھی اپنے تیور بدل لیے ہیں اور دیرینہ دوستی اور رفاقت کی ساری راہ ورسم کو فراموش کرکے اپنے ملک کے توسیع شدہ نقشے کو نیپالی پارلیامنٹ سے پاس کروا لیا ہے ، دو سو پچھتہر اراکین میں دو سو انٹھاون اراکین نے اس نئے نقشہ کو منظوری دینے کے حق میں ووٹ دیا ، بقیہ ارکان غیرحاضر تھے، حزب اختلاف نیپالی کانگریس اور جنتا سماج وادی پارٹی نے بھی آئین کے تیسرے شیڈول میں ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالا ، اب اسے دو تہائی اکثریت سے قومی اسمبلی سے منظور کرانا ہوگا، اس مرحلہ سے گذرنے کے بعد یہ بل نیپال کے صدر و دیادیوی بھنڈاری کے پاس جائے گا اور اس کے بعد یہ  وہاں کے آئین کا حصہ ہو جائے گا ۔

یہ نقشہ جسے نیپال کی پارلیامنٹ نے منظور کیا ہے ، انتہائی متنازع اور ہندوستانیوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے والا ہے ، کیوں کہ اس نقشہ میں اس نے ہندوستان کے علاقے لیولیکھ ، کالاپانی اور لمپیا دھورا کو اپنے نقشہ میں شامل کر لیا ہے ، حالانکہ یہ بات چین اور نیپال دونوں کو معلوم ہے کہ یہ جگہیں ہندوستان کی ہیں ، نیپال نے چین کے ساتھ ہوئے ایک معاہدہ میں جو ۵۱۰۲ئ میں ہوا تھا ، ان علاقوں پر ہندوستان کی عمل داری کا اقرار کیا ہے ،اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ نیپالی پولیس نے سیتامڑھی کے سرحدی علاقہ میں اندھا دھند فائرنگ کرکے ہندوستان کے کئی لوگوں کو گھائل کر دیا ، جس میں ایک کی موت ہو گئی، چمپارن کے سرحدی علاقوں میں اس نے کئی جگہ پُشتوں کی مرمت کا کام رکوا دیا ہے، ظاہر ہے یہ معاملہ ناقابل برداشت ہے ، ہندوستان کے وزیر دفاع اس مسئلہ پر کیا سوچ رہے ہیں ، یہ ابھی پردئہ خفا میں ہے ، دفاعی معاملات میں منصوبہ بندی کا خفا تدبیر کا حصہ ہوا کرتا ہے ، لیکن عوام یہ ضرور جاننا چاہتی ہے کہ ہم اس وقت اتنے کمزورکیوں ہو گئے کہ نیپال ہماری زمین کو اپنی بتانے کی جرأت کر رہا ہے اور بے گناہ لوگوں پر گولیاں برسا رہا ہے اور لطیفہ یہ ہے کہ اس واقعہ پر حکومت کی طرف سے کوئی بیان بھی نہیں آرہا ہے ، اس پورے معاملہ کا تجزیہ کرتے وقت یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نیپال کس کی شہہ پر اتنا بڑا قدم اٹھا نے کی ہمت جٹاپایا ،تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ اس کے پیچھے چین کا ہاتھ ہے، جو پہلے ہی  لداخ علاقہ میں ہمارے جوانوں پر حملہ کر چکا ہے،چین کی خواہش ہے کہ ہندونیپال کی دوستی پورے طور پر دشمنی میں بدل جائے، نیپال کے موجودہ وزیر اعظم کھڑگ پرشاد اولی(K.P.Oli) کی سیاسی زمین اسی کی متقاضی ہے ، گذشتہ پانچ چھ برسوں میں جو معاہدے چین نے نیپال سے کئے ،اس کے پس پردہ یہی ذہنیت کار فرما ہے، چین پورے خطے میں چھوٹے چھوٹے ملکوں کو ہندوستان کے خلاف کھڑے کرنے میں لگا ہواہے، در اصل چین ہندوستان کی امریکہ نواز پالیسی کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتا ہے ، اس لیے وہ اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کر رہا ہے،وہ چاہتا ہے کہ ہندوستان غیر جانب داری کی پالیسی پر حسب سابق عمل پیرا رہے تاکہ خطے میں اس کے مفادات متاثر نہ ہوں، لیکن ہم اپنی پالیسی بنانے میں کسی کی چشم وابرو کاخیال کیوں رکھیں، ہمارے نزدیک ملک کا مفاد مقدم ہونا چاہیے اور بس، ایسے حالات میں چین سے دوستی کی توقع فضول ہے ، کیوں کہ ہم بار بار اسے آزما چکے ہیں اور عربی کا مقولہ ہے کہ المجرب لا یجرب ، جس کا تجربہ پہلے ہو چکا ہے اس کو دوبارہ تجربہ کے مرحلے سے نہیں گذارنا چاہئے ۔لیکن نیپال کا معاملہ دوسرا ہے اس ملک سے ہمارے قدیم دوستانہ مراسم رہے ہیں، نیپال کے ۰۲ ñ سے ۵۲ ñ لاکھ لوگ ہندوستان میں کام کرتے ہیں اور ہندوستان کے بہت سارے لوگ نیپال میں ، دونوں ملکوں میں بیٹی روٹی کا رشتہ قائم ہے، ایک دوسرے ملک میں آنے کے لیے سرحد یں کھلی ہوئی ہیں اور پاسپورٹ ویزہ کی بھی ضرورت نہیں ہے ، نیپال میں ہونے والی غیر ملکی سرمایہ کاری میں ہندوستان کا حصہ تیس â۰۳ á فیصد ہے، ایک سو پچاس ہندوستانی کمپنیاں بینکنگ، انشورنس ، تعلیم اور سیاحت کے میدان میں وہاں مصروف عمل ہیں، ایسے میںہندوستان، سفیروں کی سطح پر بات چیت سے اس مسئلہ کو حل کر سکتا ہے، یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس وقت ہندوستان کے تعلقات تمام پڑوسی ملکوں سے خراب ہیں، پاکستان سے لڑائی پُرانی ہے ، لیکن اب بھوٹان، بنگلہ دیش ، سری لنکا جیسے ملکوں سے بھی تناؤ ہے،ہم چاروں طرف سے مخالفین سے گھرے ہوئے ہیں، ان حالات میں غور وفکر کا ایک گوشہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ کہیں ہماری خارجہ پالیسی تو ناکام نہیں ہوگئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟