Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 20, 2020

سورج گرہن سے متعلق اسلامی تعلیمات ‏و ‏ساٸنسی ‏نظریات ‏۔

از/مفتی محمد راشد /صداٸے وقت /خصوصی نماٸندہ۔
==============================
آج مورخہ ٢١ جون بروز اتوار مکمل سورج گرہن دنیا کے بیشتر ممالک میں نظر آٸے گا ۔سورج گرہن کے متعلق اسلامی تعلیمات کیا ہیں اور ساٸنسی نقطہ نظر و دیگر اقوام کے توہمات کیا ہیں ۔تفصیل اس مضمون میں ہے۔

گرہن  [گ کی زیر کے ساتھ] کے معنی ہیں: داغ لگنا، سیاہ ہو جانا، چنانچہ جب سورج یا چاند گرہن لگتا ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہے۔
سورج یا چاند گرہن کیوں ہوتا ہے؟ 
سورج یا چاند گرہن کیوں ہوتا ہے؟ اس کے مختلف اسباب ذکر کیے جاتے ہیں۔ سائنسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ زمین کے گرد چاند گردش کرتا ہے اور چاند زمین کی طرح تاریک ہے، وہ سورج سے روشنی حاصل کرتا ہے، جب وہ سورج کے گرد گردش کرتے ہوئے سورج اور زمین کے درمیان آجاتا ہے تو سورج کی روشنی زمین پر پہنچنے سے رک جاتی ہے جس سے ”سورج گرہن“ واقع ہوتا ہے۔ اور جب زمین درمیان میں آجاتی ہے اور وہ چاند پر روشنی نہیں پڑنے دیتی تو ”چاند گرہن“ واقع ہوتا ہے۔
چونکہ زمین سے سورج کا فاصلہ زمین کے چاند سے فاصلے سے 400 گنا زیادہ ہے اور سورج کا محیط بھی چاند کے محیط سے 400 گنا زیادہ ہے، اس لیے گرہن کے موقع پر چاند سورج کو مکمل یا کافی حد تک زمین والوں کی نظروں سے چھپا لیتا ہے۔ سورج گرہن  ہر وقت ہر علاقے میں نہیں دیکھا جا سکتا، اس لیے سائنسدانوں سمیت بعض لوگ سورج گرہن  کا مشاہدہ کرنے کے لیے دور دراز سے سفر طے کرکے گرہن زدہ خطے میں جاتے ہیں۔ 
مکمل سورج گرہن ایک علاقے میں تقریباً 370 سال بعد دوبارہ آ سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ سات منٹ چالیس سیکنڈ تک برقرار رہتا ہے۔ البتہ جزوی سورج گرہن  کو سال میں کئی دفعہ دیکھا جا سکتا ہے۔
مکمل سورج گرہن  اس وقت لگتا ہے جب چاند کا فاصلہ زمین سے اتنا کم ہو کہ جب وہ سورج کے سامنے آئے تو سورج مکمل طور پر چاند کے پیچھے چھپ جائے۔ چونکہ چاند اور زمین کے مدار بیضوی ہیں اس لیے چاند کا زمین سے فاصلہ بدلتا رہتا ہے۔ اس لیے ہر دفعہ مکمل سورج گرہن  نہیں لگتا۔ مکملسورج گرہن کے وقت چاند کا فاصلہ زمین سے نسبتاً کم ہوتا ہے۔ اس میں سورج کے مکمل چھپ جانے کی وجہ سے نیم اندھیرا ہو جاتا ہے اور دن کے وقت ستارے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ تاہم یہ زیادہ سے زیادہ ایک مقام پر سات منٹ چالیس سیکنڈ کے لیے ہو سکتا ہے۔
سورج گرہن کے بارے میں مختلف نظریات
سورج گرہن  کو بعض مذاہب اسے منحوس سمجھتے ہیں اور بعض کے نزدیک یہ خدا کے ناراض ہونے کی نشانی ہے۔
قدیم مذاہب میں سورج گرہن  اور چاند گرہن کے متعلق عجیب و غریب قصے مشہور تھے۔
عربوں میں مشہور تھا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن تب لگتا ہے جب زمین پر کوئی بہت بڑا ظلم ہو، 
زمانہ جاہلیت میں سمجھا جاتا تھا کہ کسی شخص کی موت یا کسی بڑے حادثہ پر سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے۔ 
بر صغیر میں لوگوں کا خیال ہے کہ اس موقعہ پر حاملہ عورتیں چھری وغیرہ کا استعمال نہ کریں، کیونکہ سورج یا چاند کے گرہن ہونے کی وجہ سے ان کے پیٹ میں موجود بچے کا ہونٹ وغیرہ کٹ جاتا ہے، حالانکہ حقیقت سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے، نہ شرعی اعتبار سے اور نہ ہی سائنس کے اعتبار سے، یہ صرف لوگوں کا وہم وگمان ہے اور جاہلانہ بات ہے۔
ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ اگر واقعی اس موقعہ پر حاملہ عورت کے لیے چھری وغیرہ کا استعمال کرنا نقصان دہ ہوتا تو پوری کائنات کے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ اللہ کے حکم سے اس کے متعلق احکام ضرور بیان فرماتے۔
سورج گرہن کے بارے میں اسلامی نظریہ
اسلام میں سورج کی سائنسی حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ سورج اور چاند خدا کے معین کردہ راستے پر چلتے ہیں اور گردش میں ہیں۔ 
ایک مرتبہ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں جب سورج گرہن  ہوا، اُسی دن آپﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو بعض لوگ یہ کہنے لگے کہ گرہن ان کی موت کی وجہ سے ہوا ہے، تو آپ ﷺ نے اس کی تردید کرکے بیان کیا کہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کی موت کی وجہ سے یہ گرہن نہیں ہوتے۔ 
چاند وسورج گرہن اللہ کی نشانی ہے
قرآنِ مجید نے اسے اللہ کی نشانی قرار دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ کسوف و خسوف ادا کر کے بتا دیا کہ اس کیفیت میں سورج و چاند کی حرکت معمول سے ہٹ کر ہے جو اللہ کی نشانی ہے اور قیامت کا منظر ہے۔
چونکہ بوقت قیامت سورج بے نور ہو جائے گا، تو جب سورج کی روشنی ختم تو زمین ساری اندھیرے میں ڈوب جائے گی، لہٰذا جب گرہن لگتا ہے تب بھی سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ پاتی، اس لیے قیامت کے مشابہہ ہو گیا، اور اسے اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا گیا، چنانچہ جب کبھی ایسا ہوتا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گبھرا کر فورا مسجد کی طرف لپکتے تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا کبھی رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایسا ہوا؟ تو جواب دیا کہ خدا کی پناہ ………………
حضور اقدسﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن 
ایک بار حضور اقدسﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہو گیا۔ صحابہؓ کو فکر ہوئی کہ اس موقع پر حضورﷺ کیا عمل فرمائیں گے کیا کریں گے، اس کی تحقیق کی جائے۔ جو حضرات اپنے اپنے کام میں مشغول تھے چھوڑ کر دوڑے ہوئے آئے۔ 
نو عمر لڑکے جو تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے ان کو چھوڑ کر لپکے ہوئے آئے تاکہ یہ دیکھیں کہ حضورﷺ اس وقت کیا کریں گے۔ 
نبی اکرمﷺ نے دو رکعت کسوف کی نماز پڑھی جو اتنی لمبی تھی کہ لوگ غش کھا کر گرنے لگے۔ 
نماز میں نبی اکرمﷺ روتے تھے اور فرماتے تھے۔ اے رب! کیا آپ نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں فرما رکھا کہ آپ ان لوگوں کو میرے موجود ہوتے ہوئے عذاب نہ فرمائیں گے اورایسی حالت میں بھی عذاب نہ فرمائیں گے کہ وہ لوگ اِسْتِغْفار کرتے رہیں (سورہئ انفال میں اللہ جَلَّ شَاْنُہٗ نے اس کا وعدہ فرما رکھا ہے).(وما کان اللہ لیعذبھم و انت فھم و ما کان اللہ معذ بھم وھم یستغفرون) (الانفال:۳۳)۔ 
پھر حضورﷺ نے لوگوں کو نصیحت فرمائی کہ جب کبھی ایسا موقع ہو اور آفتاب یا چاند گرہن ہو جائے تو گھبرا کر نماز کی طرف متوجہ ہو جایا کرو۔ میں جو آخرت کے حالات دیکھتا ہوں اگر تم کو معلوم ہو جائیں تو ہنسنا کم کر دو اور رونے کی کثرت کر دو۔جب کبھی ایسی حالت پیش آئے۔ نماز پڑھو‘ دعا مانگو‘ صدقہ کرو۔(فضائل اعمال)
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: کہ سورج اور چاند کو کسی کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا ”الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہِ“بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ”وَلَکِنَّہُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتٍ“۔ جب ایسا دیکھو تو نماز پڑھا کرو۔” فَإِذَا رَأَیْتُمُوہُمَا فَصَلُّوا“[البخاری].
اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود بھی گرہن کے وقت نماز ادا فرمانا ثابت ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے اس موقع پر لمبی نماز پڑھی۔ نبی اکرمﷺ کی تعلیمات کے مطابق آج تک پوری امت مسلمہ کا یہی معمول ہے کہ اس موقع پر نماز پڑھی جائے، اللہ کا ذکر کیا جائے اور دعاکی جائے۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سورج کو گرہن لگا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسی کیفیت طاری ہوئی جیسے قیامت آ گئی ہو”فَقَامَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَزِعًا یَخْشَی أَنْ تَکُونَ السَّاعَۃُ“۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور نماز پڑھی، بہت ہی لمبے قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ۔ میں نے آپ کو ایسا کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اور فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ جب تم ایسی کوئی بات دیکھو تو اللہ کے ذکر، دعا اور استغفار کی طرف دوڑا کرو ”فَافْزَعُوا إِلَی ذِکْرِہِ وَدُعَاءِہِ وَاسْتِغْفَارِہِ.“[البخاري]۔
گرہن کے وقت کے اعمال 
احادیث ِ مبارکہ سے ایسے وقت میں جو کچھ ہدایات مذکور ہیں ان میں سب سے پہلے مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا ہے۔
دوسرے نمبر پر استغفار کرنا ہے۔
تیسرے نمبر پر ذکر واذکار (تسبیح، تحمیدم تکبیر اور تہلیل) میں مشغول رہنا ہے۔
چوتھے نمبر پر صدقہ خیرات کرنا ہے۔ 
”جدید سائنسی تحقیق کے مطابق کسوف وخسوف کے لمحات انتہائی نازک ہوتے ہیں، کیونکہ جسوف کے وقت چاند سورج اور زمین کے درمیان حائل ہوتا ہے، تو سورج اور زمین دونوں اپنی کشش ثقل سے اسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں، ان لمحات میں خدانخواستہ اگر کسی ایک جانب سے کوشش غالب آ جائے تو اَجرام فلکی کا سارا نظام درہم وبرہم ہو جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں رجوع الی اللہ کے سوا چارہ نہیں“۔ (درس ترمذی: ۲/۳۴۳)
غرضیکہ سورج یا چاند کے گرہن لگنے میں کسی مخلوق کا نہ دخل ہے اور نہ ہی پوری کائنات مل کر سورج یا چاند کے گرہن کو روک سکتی ہیں۔ اس لیے سورج یا چاند کے گرہن کے وقت صرف اللہ تعالیٰ کی ہی پناہ مانگی جائے، اسی کے سامنے جھکا جائے اور اسی کے در پر جاکر پیشانی ٹیکی جائے کیونکہ وہی اس کائنات کا خالق بھی ہے اور مالک ورازق بھی۔ 
نبی اکرم ﷺ سورج گرہن لگنے پر مسجد میں داخل ہوکر نماز میں مصروف ہوئے تھے، اس لیے اگرایسے موقع پر باہر نکلنے سے بچا جائے، اور بعض احادیث مبارکہ میں ہے کہ اے لوگو! جب تم کو یہ موقعہ پیش آئے تو اللہ کے ذکر میں مشغول ہوجاؤ، دعا مانگو، تکبیر وتہلیل کرو، نماز پڑھو اور صدقہ وخیرات ادا کرو۔ (مسلم)
نماز کا طریقہ
سورج گرہن  کے موقع پر پڑھی جانے والی نماز کو ”صلاۃ الکسوف“، جبکہ چاند گرہن کے موقع پر پڑھی جانے والی نماز کو ”صلاۃ الخسوف“ کہتے ہیں۔ 
نماز کسوف کی رکعات:
دو رکعت نماز اذان واقامت کے بغیرباجماعت ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں مانگیں۔ 
بعض علماء کی رائے ہے کہ دو رکعت سے زیادہ بھی ادا کرسکتے ہیں۔ 
نماز کسوف میں قراء ت: آہستہ کرنی چاہئے، اگرچہ بعض علماء کی رائے میں بلند آواز کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
نماز کسوف کا وقت:
جب گرہن اپنے عروج پر ہو ہے، یہ نماز اُن اوقات میں نہیں پڑھنی چاہئے جن اوقات میں نماز پڑھنا منع ہے، اگرچہ بعض علماء کی رائے ہے کہ اوقات مکروہہ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ 
نمازمیں کسوف میں رکوع وسجود:
اس نماز میں بھی عام نمازوں کی طرح ہی دو رکوع اور چار سجدے ہیں، یہی آپ ﷺ سے قول وفعلا ثابت ہے، جن احادیث میں دو سے زائد بار رکوع کا ذکر ہے وہ احادیث فقط فعلی ہیں، اور تعامل ان پر عمل کا نہیں ہے۔ 
نماز کسوف وخسوف میں جماعت
کا حکم یہ ہے کہ کسوف کی نماز تو جماعت کے ساتھ پڑھی جائے گی لیکن خسوف کی نماز انفرادی، اور عورتیں گھروں میں انفرادی ہی ادا کریں گی۔ 
علاوہ ازیں:
ان نمازوں میں قراء ت، رکوع اور سجدہ وغیرہ کو اتنا لمبا کرنا چاہئے کہ نماز پڑھتے پڑھتے ہی گرہن ختم ہوجائے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح ثابت ہے
خلاصہ کلام یہ ہے کہ علماء احناف کی رائے ہے کہ اس موقع پر دو رکعات عام نماز کی طرح پڑھی جائے اور سورج گرہن  کے موقع پر جماعت کے ساتھ لیکن آہستہ قراء ت سے، جبکہ چاند گرہن کے موقع پر انفرادی نماز ادا کی جائے۔ ہاں اگر کسی جگہ مثلاً سعودی عرب میں جماعت کے ساتھ ادا ہورہی ہو تو اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ اِن دونوں نمازوں میں لمبے قیام ورکوع اور سجدے کیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی کیا جائے اور خوب دعائیں مانگی جائیں۔
احتیاطی تدابیر
ایسے وقت میں براہ راست سورج کو نہ دیکھا جائے تو یہ عمل احتیاط پر مبنی ہوگا،کیونکہ سائنسی اعتبار سے بھی اس نوعیت کی احتیاط مطلوب ہے، لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارا تو ایمان ہے کہ جو تکلیف یا آسانی اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقدر میں ہے وہ مل کر ہی رہے گی، اگرچہ تکلیف سے بچنے اور آسانی کے حصول کے لیے تدابیر واسباب ضرور اختیار کرنے چاہئیں۔
لہذا جب بھی سورج گرہن ہوجائے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ خالق کائنات کی طرف متوجہ ہوں۔
مفتی محمد راشد ڈَسکوی