Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 18, 2020

پہلے ‏ذاکر ‏ناٸک ‏، ‏پھر ‏تبلیغی ‏اور ‏اب ‏خواجہ ‏معین ‏الدین ‏چشتی ‏رحمة ‏اللہ ‏علیہ ‏پر ‏نشانہ ‏۔


متحد  ہو   تو  بدل  ڈالو  نظامِ گلشن 
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو

از قلم : علی اشہد اعظمی(دوحہ قطر)
مینیجر آئی این اے نیوز اعظم گڑھ /صداٸے وقت /عاصم طاہر اعظمی۔
=============================

فرقہ پرست طاقتوں کے لگاتار زہر گھولنے سے ملک میں نفرت کا ماحول پیدا ہوتا ہے چند گندی سوچ رکھنے والوں کا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جب ملک کے آئین کا چوتھا کالم ہی معاشرے میں زہر گھولنے کا کام کرے تو ملک کی بربادی طے ہے اس لئے ایسے سماجی دشمنوں پر قانونی کاروائی کا سہارا لے کر ان پر سخت کاروائی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ، پہلے ذاکر نائک پر حملہ ہوا تو کچھ لوگ خوش ہوئے اور اس آگ  میں گھی بھی ڈال دئے جس کی وجہ سے اسلام دشمن لوگوں کو موقع مل گیا اور اسی کا سہارا لے کر  ان کی تنظیم میں تالا لگوا دیا تنظیم سے جڑے لوگ بے روزگار ہوگئے اور زاکر نائک کو ملک چھوڑنا پڑا اور ایک عظیم شخصیت جو غیر مسلموں کے دلوں سے اسلام کے متعلق غلط فہمیاں دور کرتا تھا وہ ہم سے دور کہیں کھو گیا پھر سلسلہ چلتا رہا اس کے بعد کرونا جیسی بیماری پوری دنیا میں داخل ہوئی اس مہلک بیماری سے بچاؤ کے لیئے لاک ڈاؤن کیا گیا اس بیماری کو لے پورا ملک ایک ساتھ مل کر ایک دوسرے کی مدد کرنے لگا بنا مذہب بنا ذات پات بلا تفریق لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دینے لگے لوگوں میں اتحاد دیکھ کر فرقہ پرست عناصروں کے پیٹ میں درد ہونے لگا چونکہ ان کی بنیاد ہی نفرت اور فرقہ واریت پر کھڑی تھی چونکہ پورا ملک اس بیماری کو لے کر ایک ہونے لگا ہمارے معاشرے کا ایک اچھا کام یہ ہے کہ لوگ خوشی میں بھلے نہ شامل ہوں لیکن دکھ میں سارے گلے شکوے بھلا کر ایک ہوجاتے ہیں اور وہی ہوا لیکن لوگوں کو ایک ہوتا دیکھ سب سے زیادہ نقصان گودی میڈیا کو ہونے لگا کیونکہ سماج میں جب سب ایک ہوجائیں گے تو پھر ان کے چینل پر مسالہ دیکھنے کہاں سے ملے گا جب عوام ہنگامہ کرتی ہے آپس میں لڑتی ہے تو مرچ مسالہ لگا کر ان کی زوردار بحث چلتی ہے دو چار نیتاؤں اور دو چار سرکاری مولوی کو بٹھا کر اپنی دکان چلاتے ہیں ، کرونا جیسی بیماری میں سارے دھندے بند ہوگئے تھے پوری دنیا میں ہاہاکار مچا تھا اور تقریباً دنیا بھر کے میڈیا ہاؤسس کی ٹی آر پی نچلے سطح پر آرہی تھی لیکن اس بیچ ہندوستانی میڈیا نے وہ کھیل کھیلا جس سے لاک ڈاؤن کے بیچ ان کی ٹی آر پی آسمان چھونے لگی وہ موضوع تھا تبلیغی جماعت کا انھوں دہلی کے نظام الدین مرکز پر نظر ڈالی اور وہیں سے لوگوں کے بیچ اتحاد کو دیکھ بوکھلائی گودی میڈیا نے نفرت کا کھیل کھیلنا شروع کیا اور تقریباً ہر چینل پر صرف اور صرف تبلیغی جماعت ہی چلنے لگا ان کا الزام یہ تھا کہ ان کی وجہ سے کرونا ملک میں داخل ہوا پھر شروع ہوا فرقہ واریت کا ننگا ناچ اور اس میں ملک کے ، آگ لگانے والے بڑے بڑے نیتا کود پڑے اور ساتھ ہی ان کے اندھ بھکت بھی معاشرے میں جماعت کے نام پر خوب زہر گھولنے کا کام گیا اور کرونا چین کے وہان سے نکل کر پوری دنیا کا چکر کاٹ کر ہندوستان میں آکر مسلمان ہوگیا جب کہ اس کے برعکس اپوزیشن کے سب سے بڑے نیتا راہل گاندھی  نے جنوری میں ہی حکومت کو یاد دلایا تھا کہ کرونا بہت مشکل پیدا کرے گا اس کو سنجیدگی سے لینا چاہئے لیکن اس کو نظرانداز کر امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ملک میں بلایا گیا اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کی سرکار گرا کر عہد لینے کا پروگرام بھی کیا گیا اور سب کام ہونے کے بعد اچانک رات میں اعلان ہوتا ہے کہ کل سے پورا ملک مکمل لاک ڈاؤن پر رہے گا موجودہ سرکار اپنے سیاسی فائدے کے لئے ملک کو کرونا کی آگ میں ڈھکیل دیا اور اس آگ میں گھی ڈالنے کا کام میڈیا نے بخوبی نبھایا اس سے سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی ، تبلیغی جماعت کے ہزاروں لوگوں پر کیس درج کر انہیں خوب پریشان کیا گیا لیکن ملک کے دوسرے علاقوں میں سادھو سنتوں کے ہجوم والا وڈیو بھی شوشل میڈیا وائرل ہوا لیکن گودی میڈیا کی ہمت نہ ہوئی کی اس کو اپنے چینل پر دکھایا جائے 
یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا وہی گودی میڈیا کے لوگ آج اس حد تک آگئے کہ خواجہ معین الدین اجمیری رح  کی بے حرمتی اور بدنامی کر ڈالی ٹی وی بحث میں پانچ ہزاری مولویوں کے ساتھ بیٹھ کر اولیا کرام تک کو لٹیرا کہہ ڈالا غلطی ہماری ہے ہم نے اپنے صفوں سے اتحاد کو ختم کر دیا ہے پہلے زاکر نائک کو نشانہ بنایا تو ہم چپ تھے پھر تبلیغی جماعت پر حملہ ہوا تب بھی تماش بین بنے رہے اور آج خواجہ معین الدین رح کی شان پر حملہ ہوا ہم نے ان کے حوصلہ بڑھائے ہیں 
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو 
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں 
اگر فرقہ بازی چھوڑ کے پہلے ہی مل کر  آواز اٹھائے ہوتے تو آج کسی کی ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی،
اپنے اپنے مسلک پر قائم و دائم رہتے ہوئے مسلکی اختلافات کو طاق پر رکھ کر اپنی اپنی عبادتیں کیجئے لیکن جب بات ہمارے اسلام کی آجائے تو متحد ہوجاؤ ایک ہوجاؤ ان اسلام دشمن عناصر کا منہ توڑ جواب دو یہی وقت کی ضرورت ہے 

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں 
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
علی اشہد اعظمی۔۔۔۔رابطہ۔.....9746698865+