Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 10, 2020

کفایت ‏شعاری ‏بہت ‏ساری ‏پریشانیوں ‏کا ‏علاج ‏ہے ‏( ‏قسط ‏2)

از/ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی /صداٸے وقت 
=============================
ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑی مصیبت لڑکی یا لڑکے کی شادی کی تقریب ہے ۔ اور اس مصیبت کی وجہ بھی جہالت' رسم و رواج کی پابندی ' عزت و بے عزتی کے بے جا معیار اور وہی نام ونمود اور ریاکاری ہے ۔
دیکھیے اگر آپ حلال اور جاٸز آمدنی سے ارب پتی ' کروڑ پتی اور لکھ پتی ہیں تو کوٸی حرج نہیں ہے کہ آپ کروڑوں' لاکھوں اور ہزاروں روپیے اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کریں ۔ البتہ دو باتوں کا ضرور خیال رکھنا چاہیے ۔ایک تو ریاکاری اور دکھاوے کا جذبہ نہ ہو ۔دوسرے آپ کا جاٸز عمل بھی معاشرے کے لیے غلط راہ اختیار کرنے کا سبب نہ بن جاۓ ۔اس کو میں ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ نے آپ کو مال و دولت سے خوب نوازا ہے ۔آپ اچھے سے اچھا کھاییے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھانے پینے کی اشیا ٕ چھپاکر لا یا کرو اور پھلوں کے چھلکے وغیرہ باہر اس طرح نہ پھینکو کہ غریبوں کو اپنی محرومی کا احساس ہو ۔ ان کے دل میں حرص اور حسد پیدا ہو ۔اسی طرح مکان کی تعمیر کرو تو پڑوسی کا کچھ خیال رکھو کہ تمہاری وجہ سے اس کو دھوپ وغیرہ کے معاملے میں تکلیف نہ ہو ۔ دین اسلام کے احکام اور احادیث پر آپ غور کیجیے تو بہت حساسیت نظر آے گی ۔ ایک کام جو آپ کرسکتے ہیں مگر دوسرے کو رنج نہ ہو ' اس کا بھی پاس و لحاظ رکھنا چاہیے کہ یہ مناسب ہے اور اعلی اخلاق کا تقاضہ ہے ۔ ایک شخص ہیلی کاپٹر خرید سکتا ہے اور وہ اس کے لیے کوٸی حیثیت نہیں رکھتا تو وہ شرعی لحاظ سے حق رکھتا ہے کہ وہ خریدلے لیکن اسلام کی حساسیت اور غریب سماج کو پیش نظررکھتے ہوۓ نہیں خرید رہا ہے تو اس عمل کو یقیناً اعلی اخلاق میں شمار کیا جاۓ گا ۔
جو لوگ غریب ہیں یا اتنی حیثیت نہیں ہے تو انہیں بھی اپنی استطاعت کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے اور حرص وحسد کرنے کے بجاۓ قناعت اور صبر و شکر کی راہ اختیار کرنی چاہیے ۔ مسلم معاشرے میں حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی مثال ہے کہ دولت مند ہیں لیکن غریبوں پر اپنا مال تقسیم کر رہے ہیں اور غریب صحابہ ہیں کہ کھیتوں میں محنت مزدوری کرکے اپنی آمدنی کے لحاظ سے اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں لیکن نہ حرص ولالچ ہے نہ حسد ہے اور نہ دست سوال دراز کرتے ہیں ۔
ہمارے معاشرہ کے ہر فرد کے لیے سیرت رسول اور حیات صحابہ میں مثال موجود ہے ۔ ہمیں وہاں سے روشنی حاصل کرنی چاہیے ۔بلاوجہ نام ونمود کی خاطر نہ خود پریشان ہوں اور نہ دوسروں کی پریشانی کا سبب بنیں ۔ یہی طرز عمل بیٹی یا بیٹے کی شادی میں اختیار کیا جانا چاہیے ۔ بعض لوگ سادگی کے نام پر نکاح تو مسجد میں کرتے ہیں جو قابل ستاٸش ہے مگر ولیمہ اور دعوت کے نام پر اس قدر خرچ کرتے ہیں کہ صرف ڈیکو ریشن پر لاکھوں روپیے خرچ کردیتے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے کوٸی معنی نہیں رکھتا جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے مگر دوسروں کے لیے ایک آزماٸش ہو جاتی ہے ۔  ( جاری ).
ڈاکٹرسکندرعلی اصلاحی 9839538225