Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, July 11, 2020

بہار ‏میں ‏اردو ‏کے ‏مساٸل۔۔


از/مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ/صداٸے وقت۔
==============================
بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ،ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا کے دور میں چند اضلاع کے لئے اردو کو دوسری زبان کا درجہ ملا  ستندر نارائن سنہا نے اپنے وقت میں چھوٹی لکیر کے مقابل بڑی لکیر کھینچ کر پورے بہار کے لئے اردوکو دوسری سرکاری زبان قرار دے دیا، سرکاری اعلان اپنی جگہ، لیکن اس کی تنفیذ کا کام بہت سست روی کے ساتھ ہوتا رہا، یہ سستی سرکاری سطح پر بھی رہی اور عوامی سطح پر بھی، سرکاری عملہ نے اس کے نفاذ میں سستی دکھائی اورقصداًاس کے فروغ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں،عوام نے اپنے بچوں کے مستقبل کو دیکھا اور ان کو ملازمت کے مواقع دوسری زبانوں کے پڑھنے میں نظر آئے ،چنانچہ انہوں نے اپنے بچوں کو اردو کی تدریس سے دور کر لیا، اس دوری نے اس بحث کو جنم دیا کہ کم از کم دس بچے اسکول میں ہوں گے تو اردو اساتذہ کی بحالی عمل میں آئے گی، اردو دوستوں کا کہنا تھا کہ پہلے استاد بحال ہوں گے تب ناطلبہ آئیں گے،یہ ایسی بحث تھی جیسے پہلے مرغی  یا انڈا، اس بحث کا خاتمہ وزیر اعلی کے اس اعلان سے۲۰۰۹ء میں ہوا کہ سارے ہائی اسکول میں اردو اساتذہ بحال کئے جائیں گے، یہ اعلان بھی لال فیتہ شاہی کی نذر ہو گیا اور بات آگے نہیں بڑھ سکی۔

اس درمیان حکومت بہار کے محکمہ تعلیم نے ہائی اسکول میں اساتذہ کی بحالی کا ضابطہ تیار کیا اور اسے اپنے مکتوب نمبر۷۹۹ مؤ۱۵/مئی ۲۰۲۰ء کے ذریعہ پورے بہار میں محکمۂ تعلیم سے جڑے افسران کو بھیجا،اس  مکتوب کے ذریعہ دو بنیادی تبدیلی پہلے ضابطہ میں کی گئی ،ایک تو یہ کہ ہائی اسکول کے درجات کو نویں اور دسویں کلاس تک محدود کر دیاگیا ،پہلے ہائی اسکو ل کا مطلب چھٹے درجہ سے دسویں تک تھا، بعد میں یہ تین درجات ۸تا۱۰ میں سمٹ گیا ،اساتذہ بھی اسی حساب سے مقرر کئے جانے لگے،پہلے اساتذہ کی تقرری میں تدریس کے موضوعات کے ساتھ کلاس ٹیچر کی بھی رعایت ہوتی تھی یعنی اساتذہ اتنے ہوں کہ کوئی کلاس خالی نہ رہے، جب ہائی اسکول نویں دسویں تک محدود ہو گیا تو کلاس ٹیچر کا کوئی معاملہ نہیں رہا،اب بحالی تدریسی موضوعات کے اعتبار سے قرار پائی،چھ اساتذہ کی تقرری کی منظوری محکمہ نے دی،جن میں ہندی،انگریزی ،حساب ،سائنس،سماجیات اور دوسری زبان اردو،سنسکرت،بنگلہ کے لئے ایک استاذ کی بحالی ہوگی،جہاں فزیکل کلاس منظور ہے ،وہاں ایک استاذ اس کے لئے بھی بحال کئے جائیں گے۔
گزشتہ چند سالوں سے نصاب میں موضوعاتی اعتبار سے طلبہ پر بوجھ کم کرنے کی بات چلتی رہی ہے ،اسی کے نتیجہ میں دس سو نمبرات کو پانچ سو میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ،اس سرکولر میں دوسری زبان کے لئے ایک استاد کی بحالی کی تجویز ہے،دوسری سرکاری زبان کا درجہ بہار میں صرف اردو کو حاصل ہے،قاعدہ کی بات تو یہ ہے کہ ان تینوں زبانوں کے لیے اسکول میں الگ الگ اساتذہ بحال کیے جاتے، تاکہ تینوں زبانوں کو تعلیم و تدریس کے ذریعہ پھلنے پھولنے کا موقع ملتا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہار میں بنگال سے متصل اضلاع  کے علاوہ بنگلہ بہاریوں کی زبان نہیں ہے،سنسکرت کا معاملہ اس سے بھی الگ ہے، بہار کیا پورے ملک میں کہیں کی بھی یہ زبان نہیں ہے، اس کو اردو بنگلہ کے ساتھ صرف مذہبی زبان ہونے اور ہندؤوں کو مطمئن کرنے کے لیے جوڑ دیا گیا ہے ، مذہبی زبان کو دوسری زبان کے طور پر متعارف کرانا ہو تو عربی اس کی زیادہ مستحق ہے ،کیونکہ وہ زندہ زبان ہے اور دنیا کے بہت سارے ملکوں میں بولی جاتی ہے، اس کے پڑھنے سے خلیجی ممالک میں ملازمت کے مواقع بھی بہت ہیں، لیکن سیاسی لوگوں نے اردو کے ساتھ سنسکرت کو رکھنا پسند کیا جو کہیں کی زبان نہیں ہے، رہ گئی اردو جو  یہاں کی دوسری سرکاری زبان ہے،پورے بہار میں بولی ،لکھی اور پڑھی جاتی ہے، اس صورت حال کا تقاضہ یہ ہے کہ  ہائی اسکول  میں اردو کے اساتذہ رکھے جا ئیں اور جن علاقوں میں بنگلہ بولنے والے ہیں وہاں بنگلہ پڑھانے کے لئے الگ استاذ ہوں،سنسکرت کہیں بولی نہیں جاتی ہے، لیکن اس کے لیے بھی الگ سے استاذ بحال ہوں تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
ان تینوں زبان کے لئے ایک استاذ کا مطلب ہے کہ ہائی  اسکول سطح پر  ان تینوں میں سے کسی ایک زبان کو لینے کی اجازت ہوگی اور موضوع کے اعتبار سے یہ لازمی نہیں اختیاری ہو جائیں گے،بحالی جن کے مطالبے پرہوگی اور بحالی جن کے ہاتھ میں ہو گی وہ چاہیں گے کہ اردو کے  علاوہ  دوسری زبان کے استاذ کو بحال کیا جائے، سرکاری افسران کی اردو دشمنی جگ ظاہر ہے، جب استاذ نہیں ہوں گے تو طلبہ اردو کے بجائے کسی دوسری زبان لینے میں عافیت محسوس کریں گے اور اردو کا جنازہ بہار سے نکل  جائے گا، پہلے اردو کو زندہ رکھنے کے لئے جو لوگ سرگرم تھے مثلاً پروفیسر عبدالمغنی، غلام سرور،محمد ایوب،بیتاب صدیقی ، قمر اعظم ہاشمی، ہارون رشید وغیرہ اب اس دنیا میں نہیں رہے، انہوں نے کاروان اردو اور اردو تحریک کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری دوسروں کے کاندھے پر ڈالی اور دنیا سے رخصت ہو گئے،اب جو پرانے لوگ ہیں ان میں شمائل نبی، شفیع مشہدی،اعجاز علی ارشد،ڈاکٹر ریحان غنی،پروفیسر اسلم آزاد ،قوس صدیقی ، ایس ایم اشرف فرید ،اشرف استھانوی ،پروفیسر علیم اللہ حالی وغیرہ بہت کچھ کر سکتے ہیں ،انوارالحسن وسطوی، انوارالہدی،  اردو پروگرام افسر اسلم جاوداں جیسے لوگ آگے بڑھکر تحریک چلا سکتے ہیں،اردو پروگرا م افسر اسلم جاوداں کی سرکاری ملازمت سے جڑے ہونے کی وجہ سے اپنی مجبوری ہے، انوارالحسن وسطوی بیمار چل رہے ہیں ،ان کا گھر سے نکلنا مشکل ہے،البتہ اخبارات میں مراسلے لکھ کراور اردو کے لئے کام کرنے والوں کو فون کر کے وہ اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں ،ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اس موضوع پر اخباری بیان بازی کا سلسلہ انہیں کی تحریک پر شروع ہو ا، عبدالقیوم انصاری اور انوارالہدیٰ اس مسئلے پر وزیر تعلیم سے مل بھی چکے ہیں،امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم بھی اس سلسلہ میں متفکر ہیں،مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی اور شبیر حسن کے بیانات بھی اخبارات میں آئے ہیں،لیکن بات آگے نہیں بڑھ پا رہی ہے ،سرکاری وعدوں کا حال غالب کی زبان میں‘‘تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا ’’کی طرح ہے،ایسے میںاردو کے نام پر جو تنظیمیں ہیں، انجمن ترقی اردو، کاروان اردو،اردو کونسل،حلقۂ ادب،اردو نفاذکمیٹی،تحریک اردو،علمی مجلس وغیرہ  ان کے لوگوں کووفد کی شکل میں وزیر تعلیم سے ملنا چاہیے ،اسمبلی اگلے ماہ شروع ہو گی اس میں ممبران اسمبلی کو سوال اٹھانے چاہیے ،جمہوری حکومت میں کام کے یہی سب طریقے ہیں، اقلیتی کمیشن کے چیئرمین محمد یونس حکیم صاحب اس معاملے میں حکومت سے رابطہ میں ہیں لیکن سیکریٹریٹ میں ایک سردبستہ بھی ہوتا ہے، معلوم ہوا ہے کہ ان کے خطوط سرد بستے میں جا رہے ہیں، محکمہ کی طرف سے انہیں کوئی جواب نہیں مل رہا ہے، حالانکہ اس وقت  ماحول سازگار ہے، یونس حسین حکیم اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ہیں، عامر سبحانی اقلیتی فلاح کے سکریٹری ہیں، وزیر تعلیم کرشن نندن پرساد ورما اردودوست ہیں، اردو ڈائریکٹریٹ کے انتہائی متحرک اورفعال ڈائریکٹر امتیاز کریمی ہیں ،جناب عبدالقیوم انصاری انجمن ترقی اردو کے ذمہ دار اور بہاراسٹیٹ مدرسہ بورڈ کے چیئر مین ہیں اور وزیراعلیٰ ہرہائی اسکول میں اردو استاذ بحال کرنے کی بات پہلے ہی کہہ چکے ہیں ،اسمبلی الیکشن بھی سامنے ہے ایسے میں تھوڑی سی تحریک اورتوجہ سے کام ہو سکتا ہے ،لیکن سب لوگ خواب خرگوش کے  مزے لے رہے ہوں گے تو صرف اردو اردو کرنے سے کام نہیں چلے گا۔
 مسائل اور بھی ہیں، بہار اردو اکیڈمی میں کئی سالوں سے سکریٹری نہیں ہے، ڈبل چارج میں جو صاحب ہیں کچھ تو ان کے اختیارات محدود ہیں اور کچھ کام آگے بڑھانے سے وہ گھبراتے ہیں، جس کے نتیجے میں لائبریری کو جو گرانٹ اور مصنفین کو کتاب کی طباعت کے لئے جو رقم ملتی تھی سب بند ہے، انعام وغیرہ کا سلسلہ بھی موقوف ہے، سرگرمیاں تقریباً رک سی گئی ہیں، اس کے احاطے میں گورنمنٹ اردو لائبریری ہے ،وہاں کے لائبریرین کے سبکدوش ہونے کے بعد وہاںان دنوں لائبریرین بھی نہیں ہے،صدر سیکریٹری نہ ہو تو کام کسی قدر چل سکتا ہے لیکن لائبریرین نہ ہو تو کتب خانے کی ساری افادیت ختم ہو جاتی ہے۔
 بہار میں اردو کے فروغ میں ضروری مشورے دینے کے لیے مشاورتی بورڈ بھی قائم ہے، ڈاکٹر کلیم عاجز اور شفیع مشہدی جیسے اردو کے ماہرین اس کے صدر نشیںرہے ہیں ،لیکن شفیع مشہدی صاحب کی مدت کارپوری ہوئے دو سال سے زائد ہو رہے ہیں ،حکومت کی توجہ اب تک اس طرف نہیں ہے، ظاہر ہے یہاں صدر نشیں ہی اصل ہوتا ہے اور اس  عہدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے ایسا لگتا ہے یہ بورڈہی ختم ہو گیا ہے، لے دے کر ایک اردو ڈائریکٹریٹ باقی ہے، محترم امتیاز کریمی صاحب نے اس ادارے کو وقار اور اعتبار دونوں بخشا ہے، اسلم جاوداں جیسے فکرمند اور کام کرنے کا ملکہ رکھنے والے اسی ادارے سے وابستہ ہیں،اس ادارے کی کارکردگی نے سرکاری اداروں پر اعتبار قائم کرنے میں مدد پہو نچائی ہے، اس کے سیمینار،اس کا رسالہ اور اس کی ڈائری کی پورے ہندو پاک میں اپنی شناخت ہے،بلکہ کہنا چاہئے کہ اپنی کار کردگی کی وجہ سے یہ اردو کی نئی بستیوں میں بھی متعارف ہے اورسمندر پار کے لوگ بھی اس کی خدمات کے معترف ہیں،ان تمام کے باوجود اس ادارہ کے ذریعہ جو ایوارڈ کا سلسلہ جاری تھاوہ ۰۱۰۲ئ سے بند ہے،کتابوں کی طباعت کے لئے مصنفین کو جو رقومات دی جاتی تھیںوہ بھی کئی سالوں سے نہیں مل پائی ہے،ہندی ڈائریکٹریٹ نے کتابوں پر انعام وامداد کی جو تجویز بھیجی تھی اسے حکومت نے مان لیا، لیکن اردو والی فائل پر اب تک کوئی کارروائی ہی نہیں ہوسکی،دوسرے محکمہ کا معاملہ ہوتا تو ہم سوچ سکتے تھے کہ ذمہ داران کام نہیں کر رہے ہیں،لیکن جناب امتیاز کریمی اور اردو پروگرام افسر اسلم جاوداں کی موجودگی میں ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے ،اردو مترجم معاون وغیرہ کی جو سترہ سو پینسٹھ آسامیوں پر بحالی ہونے جارہی ہے وہ بھی انہیں حضرات کی جد وجہد کا نتیجہ ہے، ورنہ جاننے والے جانتے ہیں کہ ان آسامیوں میں تخفیف کی کس قدر کوشش کی گئی،پہلے اسے نو سو پر لایا گیا ،پھر چارسو پر سمیٹنے کی کوشش کی گئی،لیکن اردو ڈائرکٹریٹ کے سر گرم فعال ذمہ داروں نے کسی طرح اس کو منظور کراکر ہی دم لیا،اللہ کرے امتحان کے بعد بحالی بھی ہوجائے،اورکوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو۔
ایک اور مسئلہ اردو ٹی ای ٹی پاس امیدواروں کی بحالی کا ہے،احتجاج دھرنے اور لاٹھی ڈنڈے کھانے کے باوجودا ن کے لئے آج بھی روز اول ہے ،پہلے انہیں پاس قرار دیا گیا ،پھر فیل کر دیا گیا،اور عدالت کی ہدایت اور مختلف صوبوں میں گریس مارکس دے کر پاس کرنے اور کٹ آف مارکس کے کم کرنے کی روایت کے باوجود اللہ جانے کیوں ان لوگوں کو پنڈولم بنا کر رکھا گیا ہے،مسئلہ کے حل کی یقین دہانی افسران کراتے ہیں ،لیکن بات آگے نہیں بڑھ پاتی ہے،ان کا معاملہ بھی حکومت کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنا چاہئے،اس سے حکومت کی سرد مہری کا پیغام لوگوں میں جاتا ہے جو انتخابی سال میں نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔
میری نگاہ میں بہار میں اردو کے لئے ایک بڑا مسئلہ خود اردو بولنے والے لوگ ہیں،ان کی بے اعتنائی سے بھی اردو کے فروغ میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں،وہ اردو کے اخبار کے بجائے انگریزی کے اخبار پڑھنا پسند کرتے ہیں،اپنے بچوں کو انگلش میڈیم میں پڑھواتے ہیں ،انہیں فرفر بچے کا خالص اردو بولنا پسند نہیں ،لیکن فراٹے سے انگلش بولنے کی مدح سرائی کرتے رہتے ہیں،اس کی وجہ سے بچہ اردو سے دور ہوتا جارہا ہے،اورجب ذہنی  دوری ہو تو وہ سبجیکٹ کے طور پر اسے کیسے اختیار کرے گا،شہروں میں گھوم جائیے مسلمانوں کی دکانوں پر بھی انگریزی ،ہندی کے بورڈ لگے نظر آئیں گے ،مکانوں پر ‘‘نیم پلیٹ’’بھی انگریزی ہندی میں لگے ہوں گے،شادی کارڈ انگریزی میں چھپے گا،میں نہیں کہتا کہ انگریزی میں نہ ہو ،میرا کہنا صرف یہ ہے کہ اردو کو ان مواقع سے فراموش نہ کیا جائے،اسی صورت حال کی وجہ سے میں کہا کرتا ہوں کہ اردو کی لڑائی ہم اپنے گھر میں ہار چکے ہیں ۔