Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 15, 2020

اسلامی ‏مکاتب: ‏موجودہ ‏صورت ‏حال ‏،چیلینجز ‏اور ‏مستقبل ‏کے ‏خاکے ‏(7ویں ‏قسط ‏).



ڈاکٹر فخرالدین وحید قاسمی
ڈائریکٹر الفاروق اکیڈمی, عمران گنج, صبرحد, جونپور
+91 9838368441
                    صداٸے وقت 
                ============
کسی بھی پرائمری نظام تعلیم کی روح, مذہبی اور عصری تعلیم کا بہتر امتزاج ہے. اسلام جس طرح کی معتدل, متوازن اور باشعور نسل تیار کرنا چاہتا ہے, وہ اس کے بغیر ممکن نہیں. قرآن کریم میں دینی ودنیوی زندگی میں اعتدال وتوازن کا اس درجہ لحاظ رکھا گیا کہ دنیا  وآخرت کے الفاظ بالکل برابری کے ساتھ 115 بار استعمال ہوئے ہیں. قرآن کریم کے اس لفظی مساوات کا مقتضیٰ یہ ہے کہ مسلمان ان دونوں میں توازن برقرار رکھیں. قرآن یک رخی زندگی پسند نہیں کرتا. اس کے یہاں نہ دینی رہبانیت ہے اور نہ ہی دنیاوی ہوس. یہ آیت دینی ودنیوی زندگی میں توازن کی وضاحت کرتی ہے کہ مومن کی زندگی قرآن کریم کی آیت "وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ" سے عبارت ہو. یہ آیت دنیا وآخرت؛ دونوں زندگی کی حسنات کو طلب کرنے کا حکم کرتی ہے. دونوں زندگیوں میں توازن اور اعتدال جبھی پیدا ہوگا, جب بچپن سے دینی وعصری علوم کی مشترک تعلیم ہوگی, اور تبھی ان کے مزاج وافکار میں اعتدال پیدا ہوگا. یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اقرء کے ساتھ باسم ربک الذي خلق کا اضافہ فرمایا کہ پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا. یہ آیت دینی وعصری علوم کے بغیر کما حقہ نہیں سمجھی جاسکتی ہے.

کائناتی اور سائنسی علوم کے بغیر صفت ربوبیت وخلاقیت کی واقعی تشریح تقریباً ناممکن ہے. قرآن کریم کی سب سے پہلی آیت کا تقاضا یہی ہے کہ تعلیم کی ابتداء دینی وعصری علوم کے اشتراک کے ساتھ ہونی چاہیے. بچوں سے خدا کا تعارف اس کی تخلیقات کی ٹیکنیک کے ساتھ ہونا چاہیے. تاکہ بچہ کا فہم وشعور صرف کیوں؟ کے جواب تک منحصر نہ رہے بل کہ کیسے تک کی علمی واقفیت تک وسیع ہو. اس طرح سے بچہ خدا کے سسٹم اور ان کے اصولوں سے واقف ہوگا. یہ دنیا خدا کی تخلیق کے بعد انسانی فن کاری سے ہی سجی ہے. انسان اپنی فن کاری خدا کے تخلیقی نظام اور اصولوں کی روشنی میں ہی کرتا ہے. سائنس انہی اصولوں کی دریافت کا نام ہے. 
حضور ص نے علم کی دینی ودنیوی تقسیم کہیں نہیں فرمائی, بل کہ عام حکم فرمایا ہے کہ علم کی سچی طلب ہر مسلمان میں لازمی ہے. آپ ص کا یہ واضح بیان بھی آیا کہ یا تو عالم بنو, یا طالبِ علم بنو, یا اہلِ علم کے ہم نشیں بنو, یا ان سے محبت کرو, لیکن کبھی بھی علم اور اہلِ علم سے نفرت نہ کرنا. 
آپ ص نے علم کی نافع اور غیر نافع میں تقسیم فرمائی ہے. علم نافع کے حصول کے لیے آپ ص نے دعا مانگی ہے اور غیر مفید علم سے بچنے کے لیے پناہ بھی مانگی ہے. اس حدیث سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ ص تمام طرح کے نافع علوم کو مسلمانوں میں عام کرنا چاہتے تھے اور ایک طرح سے مسلمانوں کا یہ مزاج بنانا چاہتے تھے کہ ان کا ہر فرد اپنے زمانے کے نافع علوم کو حاصل کرے تاکہ وہ اپنے لیے اور پوری انسانیت کے لیے زیادہ کار آمد ہو, اور غیر مفید یا کم مفید علوم میں اپنے آپ کو ضائع نہ کردے. ہماری تعلیمی کوششوں کے بار آور نہ ہونے میں حدیثِ بالا سے چشم پوشی کا بھی کافی اثر رہا ہے. 
اسلام کے دورِ عروج میں علوم میں کہیں تفریق نہیں ملتی ہے. چنانچہ وہ علم وشعور کی قوت تھی کہ پوری دنیا مسلمانوں کے سامنے محکوم تھی. امریکن فلاسفر جون ڈیوی نے سچ کہا ہے کہ Knowledge is power علم ایک طاقت ہے. 
گذشتہ کچھ صدیوں سے چل رہے ہمارے علمی زوال کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے پرائمری سطح پر بھی علم کو دو خانوں میں بانٹ ڈالا, اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگ بھی بچپن سے یک رخی تعلیم کی وجہ سے زمانہ شناس اور خدا شناس دونوں نہیں بن پاتے. اب ان کی فکروں میں وہ جدّت, افادیت, معنویت اور پختگی نہیں نظر آتی جو ہمارے اسلاف کا حصہ تھی. یک رخی تعلیم شعور وآگہی پر کتنے دبیز پردے ڈال دیتی ہے, اس کا اندازہ ہمیں اپنے برادرانِ وطن کی تعلیمی میدانوں میں سبقت کے باوجود, بے تکی باتوں سے آئے دن ہوتا ہے. یہی نہیں, مغربی ممالک کے بہت سے نامی گرامی سائنس دانوں اور اسکالروں نے بے شمار مضحکہ خیز اور بے بنیاد باتیں صرف اس لیے کہہ ڈالیں کہ ان کی ظاہر بیں نگاہیں دینی علوم کے حقائق سے بے بہرہ رہ گئی تھیں. لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں واقعی صاحبِ علم اور باشعور بنیں, تو ہمیں دونوں علوم میں تفریق کو فکری اور عملی دونوں سطح پر ختم کرنا ہوگا, تبھی عظیم انسانوں کے بننے کی شکلیں پیدا ہوں گی. ہمارے پیارے نبی ص کی عظمت کا سب سے روشن اور ممتاز پہلو یہی جامعیت تھی. چنانچہ عیسائی مصنف مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی کتاب دی ہنڈریڈ میں آپ ص کی اس عظمت کا کھلے دل اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ میں نے دنیا کی سب سے بااثر سو شخصیات کی فہرست میں پہلا مقام محمد ص کو دیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انسانی تاریخ کے واحد ایسے شخص ہیں جو مذہبی اور سیکولر دونوں پیمانوں پر مکمل اترے. ان کے الفاظ ہیں:
(He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular level)
یقیناً آپ ص کی عظمت کا یہ ایسا معیار ہے کہ اس پر دنیا کی کوئی شخصیت نہیں اترتی, کیونکہ جس نے مذہبی کردار ادا کیا, وہ زندگی کے دوسرے میدانوں میں صفر رہا, اور جنہوں نے دنیوی امور میں اہم کارنامے انجام دیے, ان کا مذہبی کردار کسی شمار میں نہیں. 
خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں مکاتب کے نظامِ تعلیم کو دینی وعصری علوم کے بہتر امتزاج سے مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ہماری نئی نسلیں علمی میدانوں میں پھر سے قیادت سنبھال سکیں.

نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے 

جاری......