Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 27, 2020

آہ ‏متین ‏عمادی ‏صاحب ‏۔۔۔۔۔۔۔۔کہ ‏موت ‏لاٸی ‏ہے ‏پوشیدہ ‏زندگی ‏اے ‏دوست۔


از/ کامران غنی صبا /صداٸے وقت 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن میں تقریباً پونے تین بجے چھوٹے خالو جان(شاہ فیض الرحمن، کشمیری کوٹھی، پٹنہ سٹی) کا فون آیا کہ متین عمادی صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ خبر بہت چونکانے والے تو نہیں تھی کیوں کہ متین عمادی صاحب کئی دنوں سے مسلسل بیمار چل رہے تھے لیکن ان سے خاندانی اور روحانی تعلق اتنا گہرا تھا کہ اِس خبر نے اندر سے بے چین کر دیا۔ متین عمادی صاحب مجھ سے عمر میں کتنے بڑے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ میں انہیں ’’متین نانا‘‘ کہتا تھا۔ میں ان کے سامنے علم، عمل، تجربہ، مشاہدہ ہر اعتبار سے بچے جیسا تھا لیکن یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ وہ میری کوئی تحریر، کوئی غزل ، نظم کہیں پڑھتے تو اپنے ہاتھ سے خط لکھتے اور اپنی بہو یا بچوں سے مجھے واٹس ایپ کرواتے۔ ان کا ہر خط محبت، حوصلہ افزائی اور دعائوں سے بھرا رہتا تھا۔ اِدھر متین عمادی صاحب مستقل بیمار رہنے لگے تھے۔ جنوری میں فون پر ان سے میری آخری بار بات ہوئی تھی۔ واٹس ایپ پر کبھی کبھی ان کے دعائیہ کلمات موصول ہوتے رہتے تھے۔وہ اکثر اپنے نعتیہ اشعار، قطعات اور غزلیں وغیرہ مجھے ہاتھ سے لکھ کر واٹس ایپ ہی کرتے تھے۔ آخری بار انہوں نے اپنی دو غزلیں بھیجی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ان کی زندگی میں انہیں شائع نہیں کر سکا۔ ان دو غزلوں میں ایک غزل کا مطلع ہے:
ملی ہے شام لہو اپنا چاٹتی ائے دوست
کہ موت لائی ہے پوشیدہ زندگی ائے دوست
 متین عمادی صاحب کا اصل نام سید متین الحق تھا۔ وہ 1942ء میں پٹنہ میں ہی پیدا ہوئے۔ ان کی پوری زندگی خانقاہی ماحول میں گزری۔ تصوف ان کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوا تھا۔ عاجزی، انکساری، شفقت و محبت اور تعلقات نبھانے کا جذبہ ان کی شخصیت کو قابلِ تکریم بناتا تھا۔ عمر کی آخری دہلیز میں پہنچ کر بھی ان کی طبیعت میں ذرا بھی خشکی نہیں تھی۔ بات بات میں مزاح کا پہلو نکالنا ان کا وصف خاص تھا۔ان کی گفتگو کی خاص بات یہ تھی کہ ان سے گفتگو کے دوران وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ 
  متین عمادی صاحب ایک خوش فکر شاعر تو تھے ہی ان کی نثر بھی بہت ہی شگفتہ اور دلچسپ ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے کئی انشائیے بھی لکھے۔ پروفیسراعجاز علی ارشد اپنی کتاب ’’بہار کی بَہار‘‘ میں لکھتے ہیں:
 ’’وہ (متین عمادی) زاہدِ پاکباز ضرور ہیںمگر ان کے مزاج میں زاہدانہ خشکی کی جگہ بذلہ سنجی اور شگفتگی ہے۔ یہ شگفتگی اس وقت زیادہ نمایاں ہوتی ہے جب وہ عہد حاضر کی کسی ناہمواری کو نشانہ بناتے ہیں۔ اخباروں میں شائع ہونے والے ان کے قطعات میں اسلوب کا یہ رنگ دیدنی ہوتا ہے۔انہوں نے مختلف اخبارات میں کم و بیش آٹھ درجن ظریفانہ مضامین(جنہیں وہ انشائیہ کہتے ہیں) بھی لکھے ہیں جن میں ’سنڈے کی فضیلت‘ سب سے نمایاں ہے۔‘‘
 متین عمادی صاحب کی پوری زندگی ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز گزری۔ وہ اچھے نثر نگار تھے اور بہترین شاعر لیکن افسوس کہ انہیں وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جس کے وہ حق دار تھے۔ ان کے بعض اشعار اس قدر تہ دار اور فکری بصیرت سے سرشار ہیں کہ اس عہد کا کوئی شاعر(کم از کم صوبۂ بہار میں) ان کے قریب بھی پہنچتا ہوا نظر نہیں آتا۔ عصری مسائل ہوں یا سماجی تغیرات ، تصوف کے اسرار و رموز ہوں یا سیاسی شعبدہ بازی۔ زندگی کے ہر شعبہ میں متین صاحب کا تخلیقی شعور بالیدہ نظر آتا ہے۔ اِس وقت تفصیل کا موقع اور وقت نہیں ہے۔ صرف چند اشعار پر اکتفا کر رہا ہوں:
وہ مری جاں کا محافظ بھی طلبگار بھی وہ
اِس ڈرامے کا حسیں پردہ بھی، فنکار بھی وہ
۔۔۔
چیختی تنہائیوں کی بھیڑ ہے چاروں طرف
اور تو کچھ بھی نہیں ہے خامشی کے شہر میں
۔۔۔
ہر سانس میں موجود رہی رشتوں کی خوشبو
کیوں کہہ دوں کہ میں تیری محبت سے پرے تھا
۔۔۔
تیرگی ہی تیرگی ہے روشنی کے شہر میں
آدمی کو ڈھونتا ہوں، آدمی کے شہر میں
۔۔۔
شاید وہ پرندوں کو غذا بانٹ رہا ہے
مردہ ہے کوئی جسم جو کہسار کے پیچھے
۔۔۔
گھر آیا جب تو ساری تھکن دور ہو گئی
چہرہ غریب بیوی کا ہنستا ہوا ملا
۔۔۔۔
متینؔ فکر کا جب پیرہن بدلتا ہے
نیا لباس پہنتا ہے شاعری کا بدن
۔۔۔
ہم بھی گناہ کرنے کی عادت کو چھوڑ دیں
پروردگار تجھ میں جو بخشش کی خو نہ ہو
۔۔۔
میرے غرور کی وہیں بنیاد پڑ گئی
جب عرش پر فرشتوں نے سجدہ کیا مجھے
 کیا یہ اشعار شاعر کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ افسوس کہ سرزمین عظیم آباد نے ایک بڑے شاعر اور خوبیوں سے بھرے انسان کو کھو دیا۔متین صاحب کی ہم ان کی زندگی میں تو قدر نہ کر سکے۔ کاش پس مرگ ہی سہی ان کی تخلیقی عظمت کو زندہ رکھنے اور آنے والی نسلوں کو اس سے متعارف کروانے کی سنجیدہ کوشش کی جا سکے۔ اللہ متین عمادی صاحب کو غریق رحمت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے۔