Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, July 11, 2020

گالیاں ‏کھا ‏کے ‏بے ‏مزہ ‏نہ ‏ہوا۔

.
از/شکیل شمسی ، ایڈیٹر روزنامہ انقلاب/صداٸے وقت 
==============================

اگر دنیا میں سروے کروایا جائے تو ہمارے ملک کا الیکٹرانک میڈیا اپنی صحافتی بددیانتی کی وجہ سے دنیا کا بدترین ٹیلی ویژن نیٹ ورک ثابت ہوگا۔ ان چینلوں میں جانبداری ، فرقہ پرستی ، حکومت نوازی، اور اقلیت دشمنی کی میز پر بدتمیزی ، گالی گفتاری ، بدکلامی اور بد زبانی کے پتھر سجا کر اس لئے رکھے جاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چینل کے مزاج کے خلاف کوئی بات کہے تو فوراً ہی ان میں سے ایک پتھر اٹھا کر اس کے منہ میں ٹھونس دیا جائے۔ 

ہندوستانی صحافت کے ماتھے کا کلنک بن چکے نیوز اینکرز کی ہر وقت یہی کوشش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو کسی نہ کسی بہانے سے ذلیل کیا جائے، اس کے لیے وہ مسلمان جیسے دکھائی دینے والے کسی گمنام شخص کو، یا کسی ایسے مسلمان کو سیاسی لیڈر کہہ کر یہ لوگ اپنے اسٹوڈیو میں بلا لیتے ہیں جو اسمبلی کا تو کیا کارپوریشن کا الیکشن بھی جیت نہیں سکتا، ظاہر ہے کسی مسلم نما شخص کو مدعو کرنے کا یہ مطلب تو ہوتا نہیں ہے کہ نیوز چینل والوں کو پروگرام میں مسلمانوں کی نمائندگی مقصود ہوتی ہے، بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلم نما شخص پر وار کرکے ہندوستان بھر کے تمام مسلمانوں کو چِت کیا جائے۔ ان چینلوں کو معلوم ہے کہ وہ چاہے اسلام اور مسلمانوں پر کتنے ہی رکیک حملے کیوں نہ کریں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی، (کیونکہ وہ سب سرکار کے راج دلارے ہیں) لیکن اگر پروگرام میں حصہ لینے والا مسلمان کہیں کوئی بات ان کے مذہب کے خلاف کہہ دے گا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اسی وجہ سے بہت سے مسلمانوں نے نیوز چینلوں کے مباحثوں میں جانا بند کردیا، مگر کچھ بے ضمیر ابھی ایسے بچے ہیں جو ارنب گوسوامی جیسے مسلم دشمن اور فرقہ پرست کے چینل پر بھی چلے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ایک پروگرام میں چار پانچ ہزار روپے ملتے ہیں، اور سماج میں پہچان بھی ملتی ہے، اس لیے مسلم نما لوگ گالیاں کھانے کو بھی تیار رہتے ہیں۔ 

 *مجھے جب ایک نیوز چینل میں کام کرنے والے نوجوان نے بتایا کہ "اب نیوز چینلوں کے اسٹوڈیوز کے میک اپ روم میں گول والی جالی دار ٹوپیاں بھی رکھی رہتی ہیں، تاکہ اگر کوٹ پینٹ پہن کر آنے والا شخص صورت سے مسلمان نہ لگ رہا ہو تو اس کو ٹوپی پہنا کر عوام کو یہ بتایا جائے کہ یہ مسلمان ہے، اور اس کو کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے ہم نے بلایا ہے"، تو میں بہت حیران تھا، مگر مجھے اس نوجوان کی بات کا یقین اس وقت ہو گیا جب میں نے ارنب گوسوامی کے چینل میں کوٹ پینٹ اور ٹائی میں ملبوس ایک شخص کو گول ٹاپی لگا کر مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے دیکھا۔* ظاہر ہے کہ اس کا حلیہ مسلمانوں جیسا اسی لئے بنایا گیا تھا کہ اس کو ایک علامت بنا کر تمام مسلمانوں کو ذلیل و خوار کیا جاسکے۔ 

ارنب کے چینل پر مسلم دشمنی اب اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ 5 جولائی کو ایک غیر معروف سیاسی پارٹی کے ایک گمنام مسلمان کو ایک پروگرام میں محض اس لیے بلایا گیا تھا کہ فوج کا ایک سبکدوش افسر جی ڈی بخشی اس کو لائیو پروگرام کے دوران ماں کی گالی دے سکے۔ ارنب اس طرح کی حرکتیں جان بوجھ کر کرواتا ہے تاکہ لوگ اس کے چینل کو دیکھیں، اور راشٹر پریم کے نام پر اس نے نیوز روم میں جو دوکان سجا رکھی ہے اس کی ٹی آر پی بڑھا کر مزید مال کمایا جاسکے۔ خاص بات تو یہ ہے کہ ارنب کے چینل پر جس وقت اس شخص کو بخشی نے گالی دی اس وقت اینکر ایک لڑکی تھی۔

اس پروگرام کو دیکھ کر ایسا لگا کہ جی ڈی بخشی کوئی ریٹائرڈ فوجی افسر نہیں بلکہ کوئی کُنجڑا ہے۔ اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ گالیاں بکنے میں کافی مہارت رکھتا ہے، اور دفاعی انسٹی ٹیوٹس میں جب وہ پڑھانے کو جاتا ہے تو وہاں بھی گالم گلوچ کرکے گالیاں دینے کا ہنر ہی سکھاتا ہے، حالانکہ گالی بکنا کوئی ہنر نہیں ہے، کیونکہ انسان گونگا بھی ہو تو اشارے سے گالی دے سکتا ہے۔

جی ڈی بخشی کو بھی یہ بات معلوم ہوگئی ہوگی کہ گالی بکنا کوئی فنکاری نہیں، کیونکہ سوشل میڈیا پر ان کو ان کی بکی ہوئی گالی سے بھی زیادہ بھدی گالیاں دی جا رہی ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر دی جا رہی گالیوں کو دیکھ کر مجھے لگا کہ زیادہ تر لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ جی ڈی بخشی کی عمر کے آدمی کو کون سی گالی دینا چاہیے، واضح ہو کہ مرزا غالب نے اپنے ایک خط میں کسی دوست کو لکھا تھا کہ

 *"یہ لوگ مجھ بوڑھے کو ماں کی گالی دیتے ہیں، افسوس کے ان کو گالی دینا بھی نہیں آتا، گالی بکنے کا اصول یہ ہے کہ جوان کو بہن کی، بچے کو ماں کی، اور بوڑھے کو بیٹی کی گالی دیتے ہیں".* 

غالب نے جو بھی کہا وہ تو بذلہ سنجی ہے، مگر میں تو سوشل میڈیا پر گالی کے جواب میں گالی دینے والوں سے یہی کہوں گا کہ گندے نالے میں بیٹھے لوگوں سے لڑنے کے لیے گندے نالے میں اترنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔

 شکیل شمسی 
ایڈیٹر روزنامہ انقلاب 

.