Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 22, 2020

اعتبار ‏کا ‏جادو ‏۔۔۔۔۔


تحریر / کامران غنی صبا/صداٸے وقت۔
........................... ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اعتبار‘‘ بظاہر ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس لفظ میں دنیا و آخرت کی کامیابی کا ایک گہرا سمندر پوشیدہ ہے۔ اعتبار انسان کو فرش سے عرش تک محبوب بناتا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو یہ پوری کائنات’’اعتبار کی بنیاد‘‘ پر قائم ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کا اعتبار کھو دیں تو نظام کائنات درہم برہم ہو جائے۔ ذرا تصور کیجیے کہ آپ سڑک پر چل رہے ہوں۔ اچانک کوئی آدمی آپ کے سامنے آئے اور آپ کی گردن پر چاقو رکھ دے اور آپ کو یقین دلانے کی کوشش کرے کہ اس کا ارادہ نیک ہے، وہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ کیا آپ اس اجنبی کے اس عمل کو برداشت کریں گے؟ شاید نہیں۔کیوں کہ آپ کو اِس پر اعتبار نہیں ہے۔ اب تصویر کے دوسرے رُخ کو دیکھیے۔ آپ سیلون جاتے ہیں۔حجام آپ کی گردن پر استرے چلاتا ہے ۔ آپ اطمینان کے ساتھ آنکھیں بند کیے، گردن جھکاکرموسیقی کا لطف لے رہے ہوتے ہیں۔ اُس وقت آپ کو ذرا بھی خوف نہیں ہوتا۔ کیوں کہ آپ کو حجام پر اعتبار ہے کہ وہ صرف آپ کے بال تراشے گا، گردن نہیں۔ مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسے اپنی تحویل میں لے لیتا ہے۔ گھر والوں کو مریض سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ڈاکٹر اسے آپریشن تھیٹر میں لے جاتا ہے۔ اس کے مختلف اعضا کو الگ الگ کر دیتا ہے۔ مریض کے اہل خانہ کوئی مزاحمت کرنے کی بجائے ڈاکٹر کو کثیر رقم دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں ڈاکٹر پر بھروسہ ہے کہ وہ مریض کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے گا، اس کی زندگی کی حفاظت کرے گا۔

اسی طرح زندگی کے مختلف شعبوں پر نظر ڈالیے۔ جس شعبے میں جتنا زیادہ اعتبار ہوگا وہ شعبہ اتنا زیادہ مضبوط اور پائدار ہوگا۔ جہاں اعتبار کی کمی ہوگی وہاں ناپائداری ہوگی، عدم اطمینان ہوگا۔ اس شعبے سے وابستہ افراد کے تعلق میں دوریاں ہوں گی۔ معاملات میں شکوک و شبہات ہوں گے۔ اعتبار اگر فرد سے متعلق ہو تو شخصیت ناپسندیدہ ہو جاتی ہے اور اگر جماعت سے متعلق ہو تو ادارے اپنی مقبولیت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ’’اعتبار‘‘ کو ’’ایمان‘‘ کے ساتھ لازم و ملزوم کر دیا ہے۔چنانچہ ابودائود کی ایک حدیث میں حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’جب نبی کریمﷺ خطبہ ارشاد فرماتے ، تو اکثر اس میں یہ کلمات بھی ادا فرماتے: جو مسلمان بااعتماد نہیں ہوتا، وہ کوئی ایمان نہیں رکھتا اور جو اپنے وعدے پورے نہیں کرتا، اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔‘‘
جب ہم سیرتِ رسولﷺ کا مطالعہ کرتے ہیںتو آپ کی شخصیت کا جو پہلو سب سے پہلے متاثر کرتا ہے وہ آپ کا ’’اعتبار‘‘ ہے۔ یہ آپﷺ کے اعتبار کا ہی جادو تھا کہ آپ کے مخالفین بھی آپ کو صادق و امین تسلیم کرنے پر مجبور تھے۔ لوگ آپ کے پاس اپنی امانتیں رکھتے تھے۔ یہاں ایک قابلِ غور پہلو یہ بھی ہے کہ رسول کریمﷺ نے اول روز سے تبلیغ اور اشاعت دین کا کام نہیں شروع کیا۔ انہوں نے پہلے لوگوں کا اعتبار جیتا۔ یہاں تک کہ لوگ یہ ماننے پر مجبور ہو گئے کہ آپ جھوٹ بول ہی نہیں سکتے۔ آپ امانت میں خیانت کر ہی نہیں سکتے۔آپ سے وعدہ خلافی ہو ہی نہیں سکتی۔ اس اعتبار کی بدولت ہی دشمن دوست بننے لگے اور آپﷺ کے جانثاروں میں شامل ہونا باعث فخر و نجات سمجھنے لگے۔
آج ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اعتبار کی عمارت کو خود سے ہی منہدم کر نے پر آمادہ ہیں۔ نتیجتاً ہمارے معاشرتی تعلقات تو متاثر ہوہی رہے ہیں، اخروی نقطۂ نظر سے بھی ہم خسارے کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگر ہم اعتبار کی ٹوٹتی ہوئی عمارت کو بچاکر دین و دنیا کی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں درج ذیل نکات پر بھرپور توجہ دینی چاہیے:

*حق گوئی اور وعدے کی پاسداری:* جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے والا شخص کبھی معتبر نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم لوگوں کا اعتبار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سچائی اور وعدے کی پاسداری کا بھرپور خیال رکھنا ہوگا۔ کچھ لوگ دل کے صاف ہوتے ہیں۔ وہ کسی کا دل توڑنا نہیں چاہتے۔کسی کام سے انکار کرنا انہیں اچھا نہیں لگتا۔ جس کے نتیجے میں وہ بیک وقت کئی کئی لوگوں سے وعدہ کر لیتے ہیں اور پھر اسے وفا نہیں کر پاتے۔ ممکن ہے کہ اس طرح کے لوگ اپنے اس رویے سے مطمئن ہوں لیکن یہ رویہ اعتبار حاصل کرنے کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

*شکوہ شکایت سے گریز*: جو لوگ شکوہ شکایت کرنے کے عادی ہوتے ہیں وہ بھی اعتبار کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ جو شخص آپ کے سامنے کسی دوسرے کی برائی اور گلہ شکوہ کر رہا ہے، وہ دوسروں کے سامنے آپ کی برائی اور گلہ شکوہ کیوں نہ کرتا ہو؟

*دوسروں کی حوصلہ افزائی اور ستائش:* جب ہم کسی کو کوئی اچھا کام کرتے ہوئے دیکھیں تو اُس کی بھرپور حوصلہ افزائی اور ستائش ہونی چاہیے۔ ستائش اور حوصلہ افزائی کے چند جملے محبت اور اعتبار کو مضبوط کرتے ہیں۔

*اپنی تعریف سے گریز*: اپنے منھ سے اپنی تعریف انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے۔ اپنی تعریف خود سے کرنے والے لوگ اپنی شخصیت کو ناپسندیدہ بنا لیتے ہیں۔بعض لوگ ’’شکرانِ نعمت‘‘ کا حوالہ دے کر خود ستائی کا باب کھول لیتے ہیں اور اللہ کے نام پر اپنے جملہ اوصاف خود سے ہی بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ’’شکرانِ نعمت‘‘ کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ کے ساتھ کسی نے کوئی احسان کیا، آپ کی چھوٹی یا بڑی کوئی مدد کی تو آپ اس کی تعریف اس طرح کریں کہ اللہ نے مجھے ایسی ایسی اولاد، دوست، رشتہ دار، بہی خواہ دئیے ہیں جو پریشانی کے وقت میرے کام آتے ہیں۔
*احسان جتانے سے گریز:* اگر ہم کسی کے ساتھ کوئی احسان کریں تو پوری کوشش کریں کہ دو کے سوا کسی تیسرے کو اس کا علم نہ ہو۔بعض لوگ نیکی اور خیرخواہی تو کرتے ہیں لیکن اسے پوشیدہ نہیں رکھ پاتے اور لوگوں سے اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح جس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہے، اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور وہ خود کو جھکا اور دبا ہوا محسوس کرتاہے۔یاد رکھیں کہ ہمارا نفس ستائش چاہتا ہے۔ جب دوسرے ہماری ستائش نہیں کرتے تو نفس مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنی ستائش خود سے کریں۔ یہ بہت ہلاکت خیز رویہ ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ہمیں اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ ہم نے اگر کسی کے ساتھ بھلائی کی ہے تو ہمیں اس کا بدلہ اللہ کے یہاں ملنے والا ہے۔ دنیا والے بھلا ہمیں کیا بدلہ دیں گے۔ زیادہ سے زیادہ تحسین کے چند سکے۔ البتہ ہمارے اس عمل سے ہمارے اجر میں کمی ضرور واقع ہو سکتی ہے۔
*عزت، شفقت اور پیار*: اگر ہم دوسروں کا اعتبار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں عزت، شفقت اور پیار دینے کی عادت بنانی چاہیے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف بڑے ہی عزت کے مستحق ہوتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بچے بھی عزت چاہتے ہیں۔ ان کی بھی انا و خودداری ہوتی ہے۔جب ہم بچوں کو برسرمحفل ڈانٹتے ہیں یا سب کے سامنے ان کی کسی غلطی پر سرزنش کرتے ہیں تو بچے سے ہم اپنا اعتبار کھونے کی نادانستہ کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح رشتہ داروں، دوستوں اور دفاتر میں اپنے کولیگز اور ماتحتوں کو اگر ہم عزت اور پیار دینے کی عادت ڈالیں تو بدلے میں ہمیں بھی عزت اور پیار ہی ملے گا۔جس کے لاز می نتیجے کے طور پرہم ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اور اعتبار قائم ہوگا۔