Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 5, 2020

ایک ‏بیوی۔۔کٸی ‏شوہر۔۔چین ‏میں ‏شروع ‏ہورہی ‏ہے ‏ایسی ‏روایات ‏۔معاشرے ‏میں ‏گراوٹ ‏اور ‏فیملی ‏پلاننگ ‏کا ‏نتیجہ۔پالی ‏اینڈری ‏ان ‏چاٸنا ‏

اس شادی میں ایک عجیب روایت ہے۔ جس طرح ایک ہی خاتون خاندان میں دو تین بھائیوں کی بیوی ہے لیکن شادی کی رسمیں صرف بڑے بھائی کے ساتھ ہی ادا کی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ بعد میں ہونے والی دیگر رسومات میں بھی بیوی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ بیٹھتی ہے لیکن عورت گھر کے اندر ہی تمام بھائیوں سے تعلقات رکھتی ہے۔ اس شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کے بارے میں کوئی بھائی یا کنبہ کا کوئی فرد نہیں جانتا ہےکہ اس بچے کا حیاتیاتی باپ کون ہے۔

صداٸے وقت /نیوز 18 اردو کا تبصرہ۔/٥ جولاٸی ٢٠٢٠
=============================
چین میں ون چائلڈ پالیسی one child policy in China) کی وجہ سے معاشی ترقی تو ہوئی لیکن لڑکے اور لڑکیوں کے ریشیو پر اس سے بھاری فرق (gender imbalance) پڑا ہے۔ پرانی سوچ والے چینی کپل نے لرکون کی پیدائش کو تعجہ دی۔ اس وجہ سے چین میں آج لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے بھی کافی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں شادی کیلئے مردوں کو دلہنیں نہیں مل رہیں۔ اسے ہی دیکھتے ہوئے حال ہی میں ایک پروفیسر نے ملک میں (polyandry in China ) شروع کرنے کی بات کی ہے۔ پڑوسی ملک تبت Tibet) میں کئی کمیونٹی میں یہ روایت چلی آرہی ہے۔
کیا ہے معاملہ: فوڈان یونیورسٹی کے چینی ماہر معیشت ای کانگ این جی (Yew-Kwang Ng) کے مطابق فی الحال چین میں صنفی عدم مساوات (Gender inequality) اتنی زیادہ ہے کہ 117 لڑکوں پر 100 لڑکیاں ہیں۔ اسی وجہ سے لڑکے غیر شادہ شدہ رہ جارہے ہیں۔ یہ یہ عدم مساوات سال 1980 میں چین میں نافذ ون چائلڈ پالیسی کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ اس پالیسی میں سال 2016 میں نرمی دے دی گئی لیکن تب تک عدم مساوات آچکی تھی۔ اب چین میں لڑکوں کی بڑی آبادی شادی کیلئے ساتھی نہ ملنے کی پریشانی سے جوجھ رہی ہے۔ یہان تک کہ پڑوسی ممالک اور پاکستان کی بھی مائنارٹی سے لڑکیوں کی چین میں اسمگلنگ کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ماناجارہا ہے کہ نوجوانوں کے غیر شادی شدہ رہنے پر بچوں کی تعداد بھی کم رہے گی اور اس سے معیشت پر برا اثر ہوگا۔
پریشانی کو حل کرنے کیلئے چین کے جانے مانے ماہر معیشت نے two-husband( دو شوہر ) حکمت عملی اپنانے کی بات کہی ہے۔ اس چینی ویب سائٹ میں اپنے باقاعدہ کال لکھنے والے یہ پروفیسر کافی مشہور ہیں۔
انہوں نے پولینڈری ان (polyandry in China ) کی وکالت کرتے ہوٸے تبت کا بھی حوالہ دیا کہ وہاں پر بھی کئی کمیونٹیوں میں ایک بیوی کے کئی شوہر ہوتے ہیں۔
 “Is polyandry really a ridiculous idea?” 
یعنی کیا پولینڈری ان واقعی میں خراب ہے۔ 
عنوان کے ساتھ انہوں نے تبت کی بات کی اور چین کو بھی اسی طریقے سے پریشانی کا حل کرنے کا سجھاؤ دیا۔
تبت میں صدیوں سے بیوی شیئر کرنے کی روایت چلی آرہی ہے۔ اس کے تحت ایک کنبے میں دو یا تین بھائیوں کی ایک ہی بیوی ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ تبت اپنے آپ میں ہی چھوڑا ملک ہے۔ ایسے میں کھیتی۔کسانی کرنے والے کنبوں میں اگر ہر لڑکے کی ایک بیوی ہوتی ہو تو شادی سے ہونے والے بچوں اور پھر زمین کے وارثوں کی پریشانی ہوتی۔ زمینیں یا دوسری جائیداد کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتی۔ پولینڈری ان (polyandry ) سے وہاں کی کئی کمیونٹی کو جائیداد کے ٹکڑے کرنے سے چھٹکارا ملا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ اگر ایک بھائی کسی وجہ سے دور کے سفر پر نکلے تو بیوی اور زمین کی دیکھ۔ریکھ کیلئے ھر پر ایک مرد ممبر ہو۔
شادی کی رسمیں ایک ہی بھائی کے ساتھ: اس شادی میں ایک عجیب روایت ہے۔ جس طرح ایک ہی خاتون خاندان میں دو تین بھائیوں کی بیوی ہے لیکن شادی کی رسمیں صرف بڑے بھائی کے ساتھ ہی ادا کی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ بعد میں ہونے والی دیگر رسومات میں بھی بیوی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ بیٹھتی ہے لیکن عورت گھر کے اندر ہی تمام بھائیوں سے تعلقات رکھتی ہے۔
اس شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کے بارے میں کوئی بھائی یا کنبہ کا کوئی فرد نہیں جانتا ہےکہ اس بچے کا حیاتیاتی باپ کون ہے۔ اس لحاظ سے یہ بہتر سمجھا جاتا ہے کہ تب ہی بچے کو تمام باپ دادا سے ایک جیسی محبت ملے گی۔ کئی بار یہ معلوم بھی رہے  کہ بچے کا حیاتیاتی باپ کون ہے ، تب بھی یہ بات نہیں کہی جاتی ہے اور بچے کو سب کی طرف سے یکساں پیار کیا جاتا ہے۔