Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 12, 2020

شرجیل ‏عثمانی۔۔۔۔ایک ‏اور ‏طالب ‏علم ‏رہنما ‏ہندتوا ‏نظریہ ‏ ‏کا ‏شکار۔

صداٸے وقت /بشکریہ اردو روزنامہ ” ہم آپ “ ممبٸی /١٢ جولاٸی ٢٠٢٠۔
=============================
 علی گڑھ مسلم یونیوسرسٹی کے طالب علم رہنما شرجیل عثمانی اپنی مسلم شناخت کی وجہ سے ہندو تو نظریہ کا شکار ہوگئے ہیں۔ایک روشن نوجوان ‘  ابھرتے ہوئے اسکالر اور ملک اور قوم کے اثاثہ کو یوپی پولیس نے ان کے گھر اعظم گڑھ سے اٹھا کر عدالتی تحویل میں بھیج دیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ان پر۱۵؍ دسمبر کو اے ایم یو میں ہوئی پرتشدد کارروائیوںمیں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔لیکن حقوق انسانی کارکنان کی دلیل ہے کہ کیمپس میںشہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) کا احتجاج کر رہے پر امن مظاہرین پر پولیس کاکریک ڈائون ہی اصل تشددکا سبب بنا تھا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ ہی کی طرح اے ایم یو کے طلباء بھی تشدد بھڑکانے والے نہیں تھے بلکہ وہ خود تشدد کا شکار تھے۔وسیع پیمانے پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ عثمانی او ردیگر مسلم نوجوانوںکے خلاف کریک ڈائون مسلم معاشرے میں بڑھتی ہوئی قیادت کو کلیوں میں گھوٹنے کی کوشش ہے۔ہندوتوا کے بڑے منصوبہ کے مطابق بار بار اپنی زبردست طاقت کے استعمال کے ذریعہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو دہشت زدہ رکھنا ہے۔مسلمانوں کو دہشت زدہ کرکے ہندتوا طاقتیںہر روز ان کے حقوق کی خلاف ورزی پر ان کو خاموش رکھنے کی کوشش کرتی ہیں ۔فرقہ وارانہ حکمران طبقات کبھی بھی مسلمانوں کو برابر کے شہری اور ساتھ ہی ملک کی ترقی میںبرابرکے شراکت دار کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ان کے نزدیک مسلمان صرف سستی مزدوری کا ذریعہ ہیںجبکہ روزانہ ان کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں‘  انھیں ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ریاستی اقتدار پر قبضہ کرکے ہندوتوا طاقتیں مسلمانوں کو دوسر ے درجہ کے شہری کی حیثیت سے پیش کرنے کے لئے ہر کوششیں کررہی ہیں۔مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا طاقتوں کی نفرت کا ذریعہ ’’برتری(superiority) ‘‘ کا احسا س ہے۔مساوات اور بھائی چارگی ہمیشہ ہندوتوا کے لئے ملعون چیز رہی ہے۔ان کے اندر  کوٹ کوٹ کر بھری عصبیت‘   مسلمانوں کو’’ ممکنہ پانچواں کالم نگار‘‘ کی حیثیت سے پیش کرنے کی ذمہ دارہے۔یہی فرقہ وارانہ ذہنیت سی اے اے مخالف مظاہرین خصوصاً مسلمانوں پر تشدد کی ذمہ دار رہی ہے۔یہاں تک کے فیس بک کے چیف ایگزیٹیومارک زکربرگ‘  جو ہندوستان سے کئی میل دور ہیں‘  نہ صرف جانتے ہیں بلکہ انھوں نے عوامی طور پر کہا بھی کہ فروری میں دہلی فسادات کے پیچھے کن طاقتوں کاہاتھ تھا لیکن پولیس متاثرین کو ’حملہ آور‘ قرار دے کر سزا دینے میں مصروف ہے۔بیسویںصدی کے شاعر عامر قزلباس نے نظام کے ذریعے پھیلی  ناانصافی پر مناسب تبصرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقین تھا ہمارا ہی قصور نکلے گا
شرجیل عثمانی کی گرفتاری ریاست کی طرف سے مسلمانوں پر زیادتی کی پہلی مثال نہیں ہے۔چنگیز خان ‘  صفورا زرگر‘  گلفشاں فاطمہ ‘  خالد سیفی‘  میران حیدر‘  شفاء الرحمٰن ‘  ڈاکٹر کفیل خان‘ آصف اقبال اور شرجیل امام اور دوسرے بہت سارے اپنی شناخت کی وجہ سے شکارہوئے ہیں۔ہندتوا کے ظالمانہ نظام نے گوتم نولکھا‘  آنند تیلتمبڑے‘  سدھا بھاردواج‘  اکھل گوگوئی‘  نتاشا نروال‘  دیوانگنا کلیتا‘  سونی سوری (فی الحال ضمانت پر ہیں) اور کئی دیگر افراد کو بھی شکار بنایا ہے۔اس لئے ایک بڑی یکجہتی کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔مسلمان ‘ غیر مسلمان ‘  ایمان والا یا غیر ایمان والا جو بھی نظام عدل کا خواب دیکھتا ہے اسے ساتھ میں آنا چاہیے۔بڑے شیطان اور پرتشدد ریاست سے شدید خطرہ کے پیش نظراحتجاج کو دور دور تک پھیلانا پڑے گا۔ خلاصہ یہ کہ صرف ایک متحدہ جدوجہد ہی ہندوتوا طاقتوں کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔اس ملک کو ایک مخصوص طبقہ کی ’’جاگیر‘‘ بننے سے روکنے کے لئے ایک متحدہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ہماری جامع ثقافت ‘  مساوات اور جمہوریت کو دوبارہ ثابت کرنے کے لئے خاموشی کو توڑنا ہوگا۔ہندوستان سب کا ہے۔ قانون کی نظر میں سب ہندوستانی ‘  قطع نظر ان کے مذہب‘  ذات پات‘  علاقائیت اورصنف کے ‘  یکساں ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم فرقہ پرستوں کے خلاف پر امن اور جمہوری جدوجہد کریں۔فرقہ پرست طاقتیں جوابی انقلاب پر تلی ہوئیں ہیں۔قائدین کا نظریہ کبھی بھی نفرت اور تفرقہ کا نہیں رہا۔سرسید کے خیالی تصور میں ہمارا ملک ’’نئی دلہن کی طرح ہے جس کی دوخوبصورت اور دلکش آنکھیں ہندو اور مسلمان ہیں۔‘‘  مہاتما گاندھی نے بھی۲۷؍اکتوبر ۱۹۲۰ء کو خواتین کے اجلاس میں اس طرح کے جذبات کی بازگشت کی تھی۔’’ہندو اور مسلمان دو آنکھوں کی طرح ہیں۔ ان میں کوئی دشمنی نہیں ہونی چاہیے۔‘‘  اسی طرح مولانا آزاد نے ۱۹۴۰ء میں کانگریس کے منعقدہ ۵۳؍واںسیشن میں اپنے صدارتی خطبہ میں اسی جذبات کا اظہار کیا تھا۔’’ہر چیز ہماری مشترکہ کوشش کی مہر ہے۔ ہماری زبانیں مختلف تھیں لیکن ہم نے مشترکہ زبان کو بڑھاوا دیا۔ہمارے آداب و رسومات مختلف تھے لیکن انھوں نے ایک نئی ترکیب پیدا کی۔کوئی خیالی تصور یا مصنوعی تدبیرالگ یا منقسم کرنے سے اس کو توڑا نہیں جاسکتا۔ہندوستان کی سرزمین پر اسلام کا بھی اب اتنا ہی بڑا دعویٰ ہے جتنا ہندومت کاہے۔‘‘  بابا صاحب امبیڈکر جوحقیقی جمہوری اور پسماندہ لوگوں کے لئے مسیحا تھے‘  نے آزادی ‘ مساوات اور بھائی چارہ پر زوردیا۔’’سماجی اور معاشی جمہوریت ‘  سیاسی جمہوریت کے ٹشو اور ریشہ ہیں۔ ٹشو اور ریشہ جتنے سخت ہوں گے اتنی ہی سخت جسم کی طاقت ہوگی۔جمہوریت ‘  مساوات کا دوسرانام ہے۔‘‘  ہندوتوا قوتیں  ’دو خوبصورت آنکھوں والی نئی دلہن ‘  اور مساوات کے تخیل کے خلاف ہیں۔انھوں نے قومی تحریک کے ساتھ غداری کی ہے اور آزادی کے فائدہ چھین رہے ہیں۔آزادی سے قبل کے ہندوستان میں بھی اور بعدمیں بھی وہ مذہبی تنازعات کو وسعت دینے میں مصروف ہیں۔چونکہ ہندوتوا طاقتیں ریاستی اقتدار پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوگئیں ہیں اس لئے اب وہ اور زیادہ خطرناک ہوچکی ہیں۔یہ ان کے مسلم مخالف سیاست کا حصہ ہے کہ وہ ملک کے ہر مسئلہ کے لئے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔اسی کھیل کی منصوبہ بندی کے تحت ‘ مسلم نوجوان رہنمائوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ہمیں شرجیل عثمانی اور دیگر تمام سیاسی قیدیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کھڑا ہونا چاہیے۔ہمیں ان کی غیر مشروط رہائی کے لئے لڑنا چاہیے۔عثمانی کے ساتھ ہماری یکجہتی مشترکہ ثقافت‘  فرقہ وارانہ ہم آہنگی ‘  مساوات اورجمہوریت کے دشمن کے خلاف متحدہوکرلڑی جانی چاہیے۔

ابھئے کمار 
جے این یو
۱۰؍جولائی ۲۰۲۰ء
نوٹ۔۔
(ابھئے کمار نے جے این یو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی (جدید تاریخ Modern History )کی ہے۔ اقلیت اور سماجی عدل میں ان کو دلچسپی ہے۔ان کوخط debatingissues@gmailپر بھیج سکتے ہیں۔