Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 12, 2020

اتر ‏پردیش ‏حکومت ‏کے ‏نام ‏۔۔


ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں ۔
 تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں 

ممبٸی ۔روزنامہ ” ہم آپ “ ممبٸی میں شاٸع نہال صغیر کا اداریہ۔/١٢ جولاٸی ٢٠٢٠۔
==============================

حکومت کی ذمہ داریوں میں ایک یہ ہے کہ وہ اپنی عمل داری میں امن و سکون کے ماحول کو بنائے رکھے، عوام کا اعتماد جیتے اور کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہونے دے ۔ مگر جب حکومت ہی ظلم و زیادتی پر اتر آئے، عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو امن و امان کا جنازہ اٹھ جاتا ہے ۔ ٹھیک یہی صورت آجکل ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کا ہے اور وہاں وزیراعلیٰ مسٹر یوگی کو اپنی ناکامی پر استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا ۔ ان ریاست آج جرائم اور مجرموں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکی ہے ۔جرائم کی جتنی بھی اقسام ہو سکتی ہیں وہ سب سے اتر پردیش کے عوام فیض یاب ہو رہے ہیں ۔مگر مسٹر یوگی کو ریاست کی اس حالت پر کوئی شرمندگی نہیں ہے ۔ اس کے برعکس وہ عوامی ذہن کو ریاست کی اس بری حالت سے دور لے جانے کیلئے نت نئے جھمیلے کھڑے کررہے ہیں ۔ اسی جھمیلے میں ایک ہے سی اے اے مخالف تحریک میں شامل افراد کیخلاف بے بنیاد الزامات عائد کرکے ان کی گرفتاری کا سلسلہ ۔ یوگی کی کسی ریاست کو چلانے کی قابلیت کا اندازہ آپ وکاس دوبے کے انکاؤنٹر سے ہی لگا سکتے ہیں ۔ اگر وہ چاہتے تو وکاس کی خود سپردگی کے بعد اس سفر تحفظ فراہم کرتے تاکہ عدالت کے ذریعہ اس کے گناہوں کی سزا دلوا کر ریاست کے عوام کی قانون کے تئین اعتماد کو تقویت دے سکتے تھے مگر جو شخص دستوری عہدہ پر رہ کر ٹھوک دینے کی بات کرے اس سے کسی طرح کے شریفانہ عمل کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے۔ ریاست میں جس طرح کا ماحول یوگی کی وزارت میں بنادیا گیا ہے وہاں کسی طرح کے قانون اور دستور کی دُہائی بھی فضول ہے مگر لکھنا پڑتا ہے تاکہ سند رہے ۔ کسی کی بے حسی اور بے غیرتی کے سبب برائیوں پر انگشت نمائی اور اچھائی کی توصیف بند نہیں کی جاسکتی ۔
سی اے اے کیخلاف شدید عوامی تحریک سے کسی بھی ظالم اور انانیت پسند شخص کے ہاتھوں کے طوطے اڑنا منطقی ہے سو مرکزی اور ریاست اترپردیش کی حکومتوں کے ہوش اڑ گئے جب انہوں نے اتنی شدید عوامی مزاحمت دیکھی ۔ جیسا کہ ان کی پارٹی کے ہی کئی لیڈروں نے میڈیا کے سامنے اس کا اظہار کیا کہ انہیں اتنی شدید مزاحمت کی امید نہیں تھی ۔ عالمی وبا بی جے پی حکومتوں کیلئے فال نیک بن کر آئی کہ اس کی آڑ میں انہوں نے عوامی تحریک کو بند کروا دیا یا حالات کو دیکھتے ہوئے تحریک کے علمبرداروں نے اس میں ڈھیل دی،  کیونکہ ملک کو ایک نئے اور قدرتی بحران کا سامنا تھا۔ لیکن حکومت کا خوف تحریک کے معطل ہونے سے کم نہیں ہوا ۔ حکومت نے اپنی خجالت اور شرمندگی کا مداوا کرنے کی بجائے کورونا و لاک ڈاؤن کو ایک غنیمت موقع دیکھ کر عوامی تحریک کی قیادت کررہے افراد کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنا شروع کردیا ۔ حالیہ دنوں میں اعظم گڑھ سے شرجیل عثمانی کی غیر قانونی گرفتاری بھی حکومت کی اسی خوفزدگی کی علامت ہے جو گذشتہ دو ماہ سے زائد عرصہ سے سماجی کارکنوں کو گرفتار کرکے پیش کررہی ہے ۔ شرجیل عثمانی پر لگائے گئے الزامات بھی فرضی اور من گھڑت ہیں ۔ جیسا کہ دہلی پولس نے جامعہ میں گھس کر غنڈہ گردی کی اور الٹے طلبہ کیخلاف ہی مقدمہ بنادیا ۔ ٹھیک یہی کہانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی پولس کے ذریعہ دہرائی گئی ۔ پولس اور حکومت اس طرح کی حرکتوں کے ذریعہ تحریک کے علمبرداروں کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے جبکہ وہ خود ہی خوفزدہ ہے ۔ شاید جبر کی قوتوں کو تاریخ نہیں معلوم دنیا میں ان جیسے کئی پیدا ہوئے مگر وہ حرف غلط کی طرح مٹ گئے یا مٹا دیئے گئے ۔ آج کوئی فرعون نمرود شداد یا ابو جہل ابولہب کو اول تو جانتا ہے تو برائی اور ظلم کی علامت کے طور پر اور ان پر لعنت ملامت کرتا ہے ۔مگر جو لوگ ان بدکاروں، ظالموں کے مقابل تھے ان کا نام آج بھی اور رہتی دنیا تک احترام سے لیا جاتا ہے اور لیا جاتا رہے گا ۔ یہ باتیں جبر کے علمبرداروں کو جتنی جلد سمجھ میں آجائے اتنا ہی ان کے لئے مفید یوگا ۔ جو لوگ ان کے مقابل ہیں ان کا کہنا ہے ۔
ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں ۔
 تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
تحریر /نہال صغیر
بشکریہ۔۔۔۔روزنامہ ” ہم آپ“ ممبٸی۔