Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 8, 2020

علم ‏کی ‏تعریف ‏، ‏اس ‏کی ‏اہمیت ‏و ‏ضرورت ‏اور ‏منصوبہ ‏بندی۔

از/ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی/صداٸے وقت۔
==============================
دیگر تمام  مذاہب اور نظریات یا مختلف قوموں کے تصورات کے مطابق علم کی تعریف , اس کے اغراض و مقاصد   مختلف ہیں اور مختلف ہونے بھی چاہیے ۔ قوموں کے بنیادی عقاٸد اور تصورات کے مطابق ان کی ضرورتیں ہوا کرتی ہیں ۔ انہیں ضرورتوں کی تکمیل کے لیے علم اور حصول علم کا پورا نظام مرتب کیا جاتا ہے ۔ ضرورت کی متعدد اور مختلف قسمیں ہوتی ہیں ۔کچھ ضرورت ایسی ہوتی ہے جو یکساں طور پر ہر فرد کے لیے لازم ہوتی ہے اور کچھ ضرورت ایسی ہوتی ہیں جو ہر ایک کے لیے لازم نہیں ہوتی ہیں , بلکہ چند افراد یا آبادی کے لحاظ سے کم یا زیادہ سے اس کی تکمیل ہوجاتی ہے ۔
مثال کے طور پر ایک فیکٹری قاٸم کرنا ہے ۔ اب وہ فیکٹری کسی بھی مقصد اور ضرورت سے ہو مگر چند ابتداٸی اور بنیادی انفراسٹکچر تمام فیکٹریوں کے لیے لازم ہوگا  ۔ جیسے زمین کی فراہمی , عمارت کی تعمیر الکٹرک اور بعض ناگزیر چیزیں ۔اس کے بعد ضرورت کی مشینیں وغیرہ 
اسی طرح دیگر نظریات کے ماننے والے اور قومیں اپنی ضرورت کے مطابق حصول علم , تعلیم و تدریس کا اہتمام کرتی ہیں ۔
امت مسلمہ کی بنیاد قرآن و سنت اور شریعت اسلامی پر ہے ۔ ان کے عقاٸد و ایمانیات کی بنیادیں ہیں ۔ عبادات و معاملات کے اصول ہیں ۔ معیشت , معاشرت , اخلاق و اطوار  اور سیاست کے ضوابط ہیں ۔ خاندانی و اجتماعی زندگی کے کچھ آداب ہیں , جن سے واقفیت ہر فرد کے لیے لازم اور بہر صورت ضروری ہے ۔ ان سے واقف ہوۓ بغیر مسلمان , مسلمان باقی نہیں رہ سکتا ۔ لہذا امت مسلمہ کی پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ حصول علم اور نصاب تعلیم کے سلسلے میں سب سے پہلے ان بنیادوں کا انتظام کرے کہ ملت کا ایک ایک فرد اپنے مسلمان باقی رہنے اور بحیثیت مسلم اپنے فراٸض کو ادا کرنے کا اہل ہو سکے ۔ یقینی طور پر اس کا نظم خود کرنا ہوگا ۔ یہ کام غیر مسلم حکومت یا دوسری قومیں نہیں کریں گی ۔ اب اگر آپ اپنی بنیادی ضرورت کا علم حاصل کرنے کا نظم کیے بغیر یا اس سے مزین کیے بغیر  اپنی نسل کو دوسرے نظریات , مذاہب اور قوموں کے اداروں کے حوالے کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنی نسل کو بنیادی ضرورت یعنی ایمانیات و عقاید اور دیگر چیزوں سے نہ صرف محروم کر رہے ہیں بلکہ غلط تعلیم دے کر انہیں مرتد بنارہے ہیں ۔ لہذا ہمارا نظام و نصاب تعلیم ایسا ہو جس سے کہ مسلم و مومن کی حیثیت  سے ہم اپنے آپ کو باقی رکھ سکیں ۔ 
اس کے بعد ہماری دیگر بے شمار ضرورتیں ہیں ۔ لسانیات کے ماہرین , مختلف زبانوں کے مترجمین , علوم و فنون پر مکمل دسترس رکھنے والے متخصصین Experts  ، جغرافیہ, تاریخ ,ریاضی, فزکس,کیمسٹری,بایو لاجی , بوٹنی , ساٸیکالوجی , میڈیکل ساٸنسز اور دس ہزار علم و فن ہیں, ہر ایک میدان کے افراد ہونے چاہیے ۔ جس میدان میں جس قدر ضرورت ہے اسی قدر افراد تیار کیے جاٸیں ۔ ایسا نہ ہو کہ ہزاروں افراد اردو و پولیٹکل ساٸنس میں بی اے کی ڈگری لیے گھوم رہے ہوں اور ایم بی بی ایس ڈاکٹر تلاش کرنے پر بھی نہ ملیں ۔ یا بی یو ایم ایس کی اتنی کثرت ہو جاۓ کہ ایک محلہ میں چار پانچ ڈاکٹر مطب کھولے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوں اور مدارس میں مفسر ,محدث اور مفتی نایاب ہو جاٸیں اور شیر کی جگہ بلیوں سے کام لینا پڑے ۔ ایم بی اے گلی گلی پھر رہے ہوں اور ایک بھی چارٹرڈ اکاٶنٹنٹ نہ ملے ۔ تو ہر پہلو سے معیاری اور ضرورت کے مطابق افراد تیار کرنے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی ۔
لہذا مسلمانان ہند کو اپنا ایک ملی تعلیمی بورڈ بناکر منظم طور پر اس مسٸلے کو حل کرنا چاہیے ۔ کوٸی بھی فیکٹری ہو , مال تیار کرنے سے پہلے کوالٹی اور کوانٹٹی پر نظر رکھتی ہے اور کس پارٹ کی کتنی ضرورت ہے اتنا ہی تیار کرتی ہیں ۔ اگر ایسا نہ کریں تو یا تو مال دکان میں پڑا رہے گا یا شارٹج ہوگی ۔ اس لیے نقصان سے بچنے کے لیے مال کو پڑا نہیں رہنا چاہیے اور نفع حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ضرورت کے مطابق مال موجود رہے ۔
اسی طرح ایسا نہ ہو کہ گلی گلی محلہ محلہ اتنے مدرسے اور اسکول کھل جاٸیں کہ چندے کے لیے مارے مارے پھریں اور چندہ دینے والے عاجز ہوجاٸیں اور کوالٹی و کوانٹٹی کا یہ عالم ہو کہ ایک معیاری امام اور مدرس بھی میسر نہ آسکے ۔ یا ولادت کے لیے بھی اپنی خواتین کو مردوں کے حوالے کرنا پڑے ۔ کب تک ہم حالات اور مجبوری کا رونا روتے رہیں گے ۔ زندہ قومیں ہر طرح کے حالات میں اپنا مسٸلہ خود حل کرتی ہیں ۔ 
ڈاکٹر سکندرعلی اصلاحی  9839538225     
8 جولاٸی  2020