Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 1, 2020

مسلم ‏سیاست ‏داں ‏بے ‏حیثیت ‏کیوں ‏ہیں ‏؟؟؟


تحریر/ الیاس نعمانی /صداٸے وقت۔
==============================
ہندوستانی سیاست کے نہایت تکلیف دہ پہلؤوں میں سے ایک یہ ہے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں میں مسلم سیاست دانوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ حقیقت پہلے سے زیادہ آشکارا ہوتی جارہی ہے، لیکن اس کا جو سبب ہے وہ بجائے خود نہایت تکلیف دہ ہے۔

در حقیقت ہندوستانی طرز کی جمہوری سیاست میں کسی بھی لیڈر کی طاقت اور کمزوری کی اصل بنیاد یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی کی نگاہ میں کتنا مفید ہے، یہاں جتنے مضبوط سیاست داں ہیں وہ وہی ہیں جو اپنی کمیونٹی کے لیے کام کرتے ہیں، ان کے ایشیوز اٹھاتے ہیں، اور ان کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں، اور جو سیاست داں ایسا نہیں کرتے وہ ناکام و بے حیثیت ہی ہوتے ہیں، خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس کی سب سے بڑی مثال بی جے پی، اس کے راہنما، بہوجن سماج پارٹی اور اس کی سربراہ مایاوتی ہیں، بی جے پی کی اصل طاقت کیا ہے ہم سب جانتے ہیں، اسی طرح جب تک بہوجن سماج پارٹی اپنی کمیونٹی یعنی دلتوں کی سیاست کرتی رہی، دلت کاز کے لیے سرگرم عمل رہی، اعلی ذاتوں کے خلاف محاذ آرا رہی، یعنی جب تک دلتوں کو یہ پارٹی اپنے کاز کے لیے سیاست کرتی نظر آئی تب تک پارٹی اور اس کی لیڈر شپ نہایت مضبوط رہی، پھر کیا ہوا؟ پارٹی نے اپنے اصل سرچشمۂ طاقت (دلت سیاست) سے منھ موڑ لیا، نتیجتا "پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں” کا مصداق بن گئی ہے۔

اب ذرا مسلم سیاست دانوں کو دیکھیے، وہ جن پارٹیوں میں رہتے ہیں کیا وہاں مسلمانوں کے کاز کی کوئی بات کرتے ہیں؟کسی مسلم ایشیو پر کچھ بولتے ہیں؟ جواب “نہیں” کے علاوہ اور کیا ہے؟ وہ صرف اپنی ذات کے اسیر رہتے ہیں، اور اس لیے اپنی کمیونٹی پر ان کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا، مسلمان ووٹرز ان کو اپنے لیے کچھ مفید نہیں پاتے، انھیں مشکل اوقات میں اپنے درمیان نہیں پاتے، جب آپ کی قوم ہی آپ کو اپنے لیے مفید نہ سمجھے، اپنے درد کا مداوا بنتے آپ کو نہ دیکھے تو آپ ایک طاقتور لیڈر کیسے بن سکتے ہیں؟ کم از کم ہمارے ملک کے طرز سیاست میں تو یہ ناممکن ہے۔

اگست، ستمبر 2013 میں یوپی کے ضلع مظفر نگر میں نہایت خونریز قسم کے فسادات ہوئے، سیکڑوں مسلمان شہید ہوئے، پچاسوں ہزار ڈرے سہمے مسلمان نقل مکانی کرنے اور کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئے، اس وقت یوپی میں سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی، جس نے ان فسادات کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، جاٹ کمیونٹی کی سیاست کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دی کہ وہ ان کی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہیں کریں، اس وقت بھی سماج وادی پارٹی اور حکومت میں کئی بڑے مسلم چہرے تھے، وہ مکمل خاموش رہے،اپنی حکومت کے خلاف تو چھوڑیے فسادیوں کے خلاف بھی ان کی زبان سے کوئی حرفِ لعنت قوم نے نہیں سنا، ہاں کئی مہینہ بعد فسادات میں حکومت کی نا کارکردگی کے خلاف پارٹی کے سب سے بڑے مسلم چہرہ نے ایک بیان دیا، لیکن یہ بیان اس وقت دیا جب پارٹی کا ایک چھوٹا سا عہدہ ان سے لے کر ایک دوسرے مسلم لیڈر کو دے دیا گیا، پھر فورا ہی پارٹی نے ان کو اس عہدہ پر بحال کردیا، تب سے آج تک ان کی زبان سے مظفر نگر فسادات میں اپنی پارٹی و حکومت کے کردار کے سلسلے میں ایک حرفِ مذمت سننے کو قوم ترس گئی۔۔۔۔ یہ تو ایک مثال ہے ورنہ ہمارے مسلم سیاست دانوں کا یہی کردار مسلسل رہا ہے، جس کی مثالیں بے شمار ہیں۔ 
ایسی صورت میں قوم ان مسلم لیڈرز کی طاقت کیوں کر بنے؟ اور قوم کی حمایت کے بغیر وہ طاقتور اور با حیثیت ہو جائیں یہ ناممکن ہے، اگر ہمارے ان سیاست دانوں کو اپنی طاقت و حیثیت عزیز ہے تو انھیں قوم میں پارٹی کا نمائندہ بننے کی اپنی موجودہ روش کو چھوڑ کر (یا اس کے ساتھ) پارٹی میں قوم کا نمائندہ بننا ہوگا، انھیں اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی طاقت کا سرچشمہ قوم ہے پارٹی یا اس کی لیڈر شپ نہیں ہے، اس حقیقت سے منھ موڑ کر وہ کچھ وقتی فائدہ تو اٹھا سکتے ہیں مضبوط اور طاقتور لیڈر نہیں بن سکتے، انھیں سمجھنا ہوگا کہ:

*فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں*
*موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں*