Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, July 30, 2020

قاضی ‏حبیب ‏اللہ ‏قاسمی ‏۔۔۔اسلاف ‏کی ‏سچی ‏نشانی ‏تھے۔


از / مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی/صداٸے وقت۔
==============================
 وبائی مرض کے اس دور میں جانے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے، اہل علم تیزی سے اٹھتے جارہے ہیں اور اچھے لوگوں سے دنیا خالی ہوتی جارہی ہے، علماء، صلحاء،صوفیاء اور ماہر علم و فن کا روز جنازہ اٹھ رہا ہے، لاک ڈاؤن اور وبائی مرض کے اس دور میں جنازہ کو کاندھا دینے کی سعادت بھی لوگوں کو مل نہیں رہی ہے، یہ کیسی حرماں نصیبی ہے، اسی دور میں مولانا مفتی قاضی حبیب اللہ صاحب نے بھی الوداع کہہ دیا، ۳۰/جولائی ۲۰۲۰ء مطابق ۸ /ذی الحجہ ۱۴۴۱ ھ بروز جمعرات  صبح کے سوا دس بجے اپنے گھرگوا پوکھر مدھوبنی میں ہی  انہوں نے آخری سانس لی، وہ کئی دن سے بیمار چل رہے تھے، ان کا انتقال ملی، مذہبی،سماجی،تعلیمی اور امارت شرعیہ کا بڑا نقصان ہے، ان کی ذات اس پورے علاقے میں عزت واکرام کا مرکز و محور تھی، ذکر الٰہی کے اثرات ان کے چہرے سے ہویدا اور خشیت الہی کے اثرات ان کے حرکات و سکنات اور اعضاء و جوارح سے ظاہر ہوتے تھے، وہ اسلاف کی سچی نشانی تھے، ان کا دل امارت شرعیہ اور ان کے اکابر کی محبت و عقیدت سے سرشار تھا، انہوں نے مدھوبنی دارالقضاء کو ہر اعتبار سے خوب سے خوب تر بنانے میں اپنی بہترین کوششیں صرف کیں، امارت شرعیہ کی جانب سے منعقد تربیتی اجلاس کو کامیاب اور بامقصد بنانے کے لئے بھی ان کی جدو جہد مثالی تھی،اس پروگرام میں حضرت امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم کا پورے انشراح کے ساتھ کئی مجلسوں میں خطاب ہوا تھا، دورۂ وفد امارت شرعیہ کے موقع سے ان کی شرکت سے پروگرام کو بڑی تقویت ملتی تھی، وہ علماء کے بڑے قدر داں تھے، انہوں نے بورڈ کے مدرسہ میں رہ کر بھی مدرسہ فلاح المسلمین کو درس نظامی کے معیاری ادارہ کی طرح چلایا، آج جب کہ بہت سارے بورڈ کے مدادس ویران ہوتے جارہے ہیں، انہوں نے مدرسہ کی رونق و شادابی کو طلبہ کی کثرت اور معیاری تعلیم کے ذریعہ برقرار رکھا تھا،انہوں نے اپنے ہاتھ کو ان آلودگیوں سے بچاۓ رکھا، جو دین و شریعت کے خلاف ہیں، حضرت قاضی حبیب اللہ صاحب بڑے صاحب علم تھے، علوم و فنون پر ان کی بڑی گہری نظر تھی، امارت شرعیہ کے اکابرین ہی نہیں، ہم جیسے خدام بھی حاضر ہوتے تو گھر پر دعوت کا اہتمام کرتے، تھان بھر کپڑا ہدیہ میں پیش کرتے، بعض پروگرام میں میری حاضری نہیں ہوسکی تو بعد میں عنایت فرمایا، امارت شرعیہ کا پروگرام چھوٹا ہو یا بڑا سب کے لئے فلاح المسلمین گوا پوکھرہی پیش پیش رہا کرتا ہے، اور ظاہر ہے ذمہ داران کمیٹی کے علاوہ اساتذہ کرام بھی ان کی قیادت میں کام کو آگے بڑھاتے تھے، آج جب ان کے انتقال کی خبر آئی تو مت پوچھئے کیا حال ہوا، ایسا معلوم ہوا کہ ہماری نبض بھی تھم گئی ہو، فوراً مولانا روح اللہ صاحب اور ان کے صاحبزادہ مولانا امداد اللہ قاسمی سے فون پر بات کیا، آواز نہ ان کا ساتھ دے رہی تھی اور نہ میرا، بجھے دل سے تسلی کے کلمات کہے اور تعزیت کے جملے ادا کرسکا،اللہ تعالیٰ قاضی صاحب کی مغفرت،پس ماندگان کو صبر جمیل ،مدرسہ فلاح المسلمین گوا پوکھراور دارالقضاء امارت شرعیہ مدھوبنی کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔
   واقعہ یہ ہے کہ قاضی حبیب اللہ صاحب کے انتقال سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا،شاعر نے کہا ہے کہ۔
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقاء  دوام لاساقی