Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 29, 2020

عید ‏الاضحیٰ۔۔احکام ‏اور ‏مساٸل۔۔۔

تحریر/ محمد اشرف اعظمی/ صداٸے وقت۔
==============================
تمہید: چونکہ انسانی فطرت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ کبھی خوش ہوتا ہے اور کبھی غمگین لھذا خالق کائنات نے اس تقاضے کےمطابق انسان کی زندگی میں دونوں طرح کے اوقات رکھے ہیں۔ انسان کی زندگی میں بعض ایسے دن آتے ہیں جس میں انسان مصائب وآلام میں گھر کر غمگین رہتا ہے تو بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جس میں دینی و دنیوی بے شمار  نعمتیں اللہ کی جانب حاصل ہوتی ہیں لھذا انسان شاداں رہتا ہے یہ خوشی و غمی کے پل مختلف طرح کے ہیں کچھ مخصوص و متعین ہیں تو کچھ غیرمتعین انھیں خوشی کےمتعین دنوں میں ایک عیدالاضحی بھی ہے جو اسلام کے متعین کردہ مخصوص خوشی کے دنوں میں دوسرا دن ہے۔
اس دن بھت سارے عمل کئے جاتے ہیں جو انسان کو خوشی و مسرت سے بھرہ مند کرتے ہیں مگر ان تمام اعمال میں سب سے اہم اور دین و دنیا ہر دو میں  مسرت و شادمانی کا باعث جو عمل ہے وہ ہے قربانی۔ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے" ماعمل ابن آدم من عمل احب الی اللہ من اھراق الدم" ترجمہ کہ یوم عیدالاضحی کو اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل خون بھانا(قربانی)کرناہے۔
قربانی کی ابتداء:
قربانی ایسی عظیم الشان عبادت ہےجوحضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہوئی اور اُمتِ محمدیہ علی صاحبہا السلام تک مشروع چلی آرہی ہے، ہرمذہب وملت میں کسی نہ کسی صورت میں عمل قربانی موجود ہے۔ارشاد ربانی ہے’’وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ‘‘الآیۃ
(حج:34)ترجمہ: ہم نےہر امت کےلئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپائیوں کےمخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نےعطاء فرمائے۔
قربانی کی تاریخی حیثیت:
       ارشاد خداوندی کے مطابق قربانی تو ہر مذھب و ملت میں کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی رہی ہے مگر حضرت ابراھیم کے اپنے بیٹے کے واقعہ ذبح  کے بعد اسے ایک خاص اہمیت و دوام ملا جس وجہ سے اسے سنت ابراھیمی کہا جاتاہے۔واقعہ یہ ہے کہ مختلف آزامائشوں کی طرح ابراھیم علیہ السلام کے اکلوتے لخت جگرحضرت اسماعیل  جوکہ ابھی عہد طفولیت سے نکلے ہی تھےکہ اللہ نےبذریعہ خواب حضرت ابراھیم سے لخت جگر کی قربانی مانگ کر ایک عظیم آزمائش میں ڈالا لھذا آپ نےیہ حکم اپنے لخت جگر اسماعیل کو سنایا تو وہ بلا کسی پس وپیش حکم خداوندی پر قربان ہونے کیلئے تیار ہوگئےاور پھر دونوں نے ملکر احکام خداوندی کو من وعن پورا کیا جس پر اللہ نے اپنی رضا و خوشنودی کا اعلان کیا اور اس عمل کو تاقیامت ایک یادگار بنادیا۔
قربانی کی اہمیت و فضیلت: قربانی کی اہمیت و فضلیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ہر امت میں موجود رہی اور پھرجب امت محمدیہ کو خصوصی طور ملی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےخود اس پر مداومت بھی فرمائی اور امت ادائیگی کا بھی حکم دیا۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’اَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم بِالْمَدِیْنَۃِ عَشَرَسِنِیْنَ یُضَحِّیْ‘‘۔    ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا(اس قیام کے دوران) آپ قربانی کرتے رہے۔
ایک دوسری حدیث میں اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا ھٰذِہِ الاَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ علیہ السلام قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ۔
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا:یارسول اللہ!یہ قربانی کیا ہے؟(یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا کہ ہمیں اس قربانی کے کرنے میں کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (پھر سوال کیا) یا رسول اللہ !اون (کے بدلے میں کیا ملے گا) فرمایا:اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔
(2) ’’عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللّٰہ عنہا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ: مَاعَمِلَ آدَمِیٌ مِنْ عَمَلٍ یَوْ مَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ اَنَّہْ لَیَتَأ تِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلاَفِھَا وَاِنَّ الدَّمَّ یَقَعُ مِنَ اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ مِنَ الْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْساً‘‘    ترجمہ :عید الاضحی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نز دیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں،سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کےہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
وجوب قربانی و نماز عید:    قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا "فصل لربک والنحر" (تو نماز اداکر اپنے رب کےواسطے اور قربانی ادادکر) اس آیت مبارکہ کی روشنی میں فقہاء کھتے ہیں کہ ہرصاحبِ نصاب پر قربانی و نماز عیدواجب ہے۔
مشہورمفسر علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: حضرت عکرمہ،حضرت عطاء اورحضرت قتادۃ رحمہم اللہ فرماتےہیں کہ’’فَصَلِّ لِرَ بِّکَ‘‘ میں’’فصل‘‘سے مراد’’عید کی نماز‘‘ اور ’’وانحر‘‘سے مراد ’’ قربانی ‘‘ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نماز عید اور قربانی واجب ہے۔
شرائط پر واجب قربانی:   قربانی کے وجوب کی چار شرائط جو جس مرد وعورت میں قربانی کے ایام میں پائی جائیں تو اس پر قربانی واجب ہوتی ہے۔
(1)مسلمان ہونا۔(2) آزاد ہونا(3)صاحب نصاب ہونا۔(4)مقیم ہونا،مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
ایک ضروری وضاحت
قربانی واجب علی العین ہے لھذاجو فرد بھی صاحب نصاب ہوگا اس پر قربانی واجب ہے گھر کے کسی ایک فرد کے کرنے سے سب کی طرف سے ادا نھیں ہوگی۔

نصاب قربانی:   قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو نصاب صدقۃ الفطر کے واجب ہونے کا ہے۔ لھذا جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں یا بعض کامجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو ایسے مردو عورت پر قربانی کرنا واجب ہے۔
وضاحت:وہ چیزین جونمود ونمائش کی ہوں یا گھروں میں رکھی ہوئی ہوں اور سارا سال استعمال میں نہ آتی ہوں تو وہ بھی نصاب میں شامل ہوں گی۔
قربانی کے جانور:   قرآن مجید کی آیت مبارکہ’’ثَمَانِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِّنَ الضَاْ نِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ … وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ‘‘
ترجمہ: آٹھ جانور ہیں دو بھیڑوں میں سے اور دو بکریوں میں سے ، دو اونٹوں میں سے اور دو گائیوں میں سے۔
کی روشنی میں فقہاء نے مذکورہ بالا جانوروں کی قربانی کو جائز قرار دیاہے
وضاحت: قربانی کے جانوروں میں بھینس بھی داخل ہے کیونکہ یہ بھی گائے کی ایک قسم ہے
اعضائے مکروہہ: جانوروں کو اللہ نے انسان کی غذا اور نقل و حمل  و ساری وغیرہ کے استعمال ہی کے لئے بنایا ہے مگر ان کے تمام اعضاء کا کھانادرست نھیں کچھ اعضاء مکروہ ہیں جن کہ تفصیل درج ذیل ہے
حلال جانور کے سات اعضاء کھانا مکروہ ہیں۔(۱)خون (۲)مادہ جانور کی شرمگاہ(۳)خصیتین (۴)غدود(۵)نرجانورکی پیشاب گاہ (۶)مثانہ (۷)پتہ
جانورکی عمر:     قربانی کے جانوروں میں بھیڑ،بکری ایک سال،گائے،بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے،البتہ وہ بھیڑ اور دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
شرکاء اوران کی تعداد:   جانوروں کی انواع کے اعتبار اللہ رب العزت نے ان کی قدر  بھی متعین کی ہےلھذا اسی کے مطابق ہی قربانی میں شرکت کی گنجائش ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے
قربانی کا جانور اگر اونٹ گائے یا بھینس ہو تو اس میں سات آ دمی شریک ہو سکتے ہیں:
اور بکری یا بھیڑ ہو تو اس میں صرف ایک شخص کی طرف سے قربانی جائز ہے۔

ایام قربانی:   جس طرح اللہ رب العزت نے شریعت کے تمام ارکان کو واضح طور پر بتایاہے اسی طرح ایام قربانی کی بھی وضاحت کی ہےایام قربانی کل تین دن ہیں۔12.11.10ذوالحجہ۔
قربانی کے دن تو تین ہیں مگریوم النحر(دس ذوالحجہ) کو قربانی کرنا افضل ہے۔

قربانی کا وقت:   قربانی کا وقت شہروالوں کے لیے نماز عید ادا کر نے کے بعد اور دیہات والوں کے لیے جن پر نماز جمعہ فرض نہیں ،صبح صادق سے شروع ہوجاتاہےلیکن سورج طلوع ہونے کے بعد ذبح کرنابہتر ہے۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم مسنونہ:   قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں منقسم کرنا مسنون ہے ایک حصہ اہل وعیال کیلئے، ایک حصہ اعزہ و اقارب کیلئے اور ایک حصہ حاجت مندوں کیلئے
ماہ ذی الحج کے مسنون و مستحب اعمال:
چونکہ اس مہینے میں کئی سارے اہم فرائض ادا کئے جاتے ہیں لھذا اس ماہ کی ایک خاص اہمیت جس کی وجہ سے اس ماہ میں بھت سارے نفلی و استحبابی اعمال کا بھی حدیث سے ثبوت ملتاہے جس کی تفصیل یہ ہے:
ایام تشریق:
ایام تشریق کھتے ہیں اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد پڑھنے کو۔یہ ہر فرض نماز کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ یہ 9 ذی الحج کی فجرسے شروع ہوتی اور ہے13 ذی الحج کی عصر تک پڑھی جاتی ہے۔
عبادات:   حضرت ابو ھریرہ رض فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ نے ارشد فرمایااللہ تعالی کے یہاں عام دنوں کے مقابلے عشرہ ذی الحج کی عبادت زیادہ محبوب ہے اس ماہ کے ایک دن کا روزہ عام دنوں کے ایک سال کے برابر ہےاور اس کی ایک رات کی عبادت لیلة القدر کی عبادت کے برابر ہے 
وضاحت 10 ذی الحج کو روزہ رکھنا حرام ہے
 جس شخص پر قربانی واجب ہے اسکیلئے ذی الحج کا چاند نکلنے کے بعد بال ناخن وغیرہ نہ کاٹنا مستحب ہے 
چونکہ اسے ماہ ایک خاص اہمیت حاصل ہے لھذا اس کی قدر کرتے ہوئے زیادیہ سے زیادہ اعمال حسنہ کی کوشش کی جائے۔آمین