Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, July 7, 2020

تحریکی ‏لٹریچر ‏کا ‏مطالعہ ‏، ‏کیا ‏؟ ‏کیوں ‏؟ ‏کیسے ‏؟



ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی/صداٸے وقت ۔
==============================
سوال: (۱)
         تحریکی لٹریچر کیا ہے؟ اور یہ عام لٹریچر سے کس طرح مختلف ہے؟
جواب:
         لٹریچر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : علمی ، ادبی ، تاریخی ، معلوماتی ، تفریحی اور دینی وغیرہ ۔ ہر ایک کی اپنی خصوصیات ہیں اور ہر لٹریچر اپنے دائرہ میں افادیت رکھتا ہے اور مطلوبہ مقاصد کے لیے اس کا مطالعہ کیا جا تا ہے ۔ تحریکی لٹریچر سے مراد وہ لٹریچر ہے جو اسلام کا روایتی اور جامد تصور پیش کرنے کے بجائے اس کا انقلابی اور متحرک تصور پیش کرے ، جس سے معلوم ہو کہ اسلام انسانی زندگی کے جملہ پہلوؤں میں رہ نمائی کرتا ہے اور ہر دور کے انسانوں کے جملہ مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، جو دیگر مذاہب ، نظریات ، نظاموں اور ازموں کے مقابلے میں اسلام کی حقانیت اور بالا دستی ثابت کرے اور جو قاری کے اندر خود اعتمادی ، عزم و حوصلہ اور جذبۂ عمل پیدا کر دے ، جس کی بنا پر وہ اللہ کے بندوں کے سامنے اسلام کی تعلیمات پیش کر سکے اور اسلام کی صحیح ترجمانی کر سکے ۔


سوال: (۲)
         انسانی اور تحریکی زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے؟
جواب:
        عام دینی لٹریچر سے مذکورہ بالا ضرورت کما حقہ پوری نہیں ہو سکتی ۔ اُس کے ذریعے دین کی تعلیمات سادہ انداز میں حاصل کی جا سکتی ہیں ، لیکن وہ قاری کو عملی زندگی میں سرگرم اور متحرک کر دیں ، اس کی امید کم ہی کی جا سکتی ہے ۔ تحریکی لٹریچر قاری کے دل میں دعوتی جذبہ پیدا کرتا ہے ۔ وہ اسے ابھارتا ہے کہ پہلے وہ اپنی زندگی کا جائزہ لے ، وہ جن جاہلی روایات کا اسیر ہے ، ان سے آزادی حاصل کرے ، اسلام کے جملہ احکام پر خود عمل کرے ، پھر دوسروں کو بھی ان کی طرف دعوت دے ۔ وہ قاری کو آمادہ کرتا ہے کہ اس کے اندروں میں اسلام کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کا جو جذبہ پیدا ہوا ہے ، اسے دوسروں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرے ۔ تحریکی لٹریچر قاری کو سیمابی کیفیت کا حامل بنا دیتا ہے ، جسے کسی پَل چین نہیں آتا ۔ وہ ہر دم رواں دواں رہتا ہے ۔

سوال: (۳)
         ایک عام قاری کو اہم تحریکی کتب کا کس ترتیب کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہیے؟
جواب:
        تحریکی لٹریچر کا مطالعہ ایک خاص تربیت سے کرنا چاہیے ۔ غیر مرتب انداز سے مطالعہ کرنے سے ذہنی یک سوئی حاصل نہیں ہوگی ، بلکہ قاری انتشار اور پراگندگی کا شکار ہوگا ۔ مطالعہ میں اس کا جی نہیں لگے گا اور جو کچھ وہ مطالعہ کرے گا اس کا اس کے ذہن میں ارتکاز نہیں رہے گا ۔
        مناسب ہے کہ اہم تحریکی کتب کی تین فہرستیں تیار کر لی جائیں : پہلے ان کتب کا مطالعہ کیا جائے جن میں اسلام کو ایک جامع نظام حیات کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ، رسول اللہ ﷺ کے مشن اور منصب کی توضیح و تشریح کی گئی ہے اور مسلمانوں کو دین کی تبلیغ و اشاعت پر ابھارا گیا ہے ۔ پھر ان کتب کا مطالعہ کیا جائے جن میں دیگر مذاہب و نظریات سے اسلام کا تقابل کیا گیا ہے ، تجدید و احیائے دین کی تاریخ بیان کی گئی ہے اور اسلامی تعلیمات پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے اور اسلام کے احکام و قوانین کی توضیح و تشریح کی گئی ہے ۔ آخر میں ان کتابوں کا مطالعہ کیا جائے جو اسلام کے سیاسی نظام سے متعلق ہیں ، جن میں اظہارِ دین سے بحث کی گئی ہے اور اس کی صورتوں ، تدبیروں ، رکاوٹوں اور دیگر تفصیلات کا تذکرہ ہے ۔ اسی طرح ان کتابوں کو بھی اپنے مطالعہ میں لانا چاہیے جن میں احیائے اسلام کی کوششوں کا جائزہ لیا گیا ہے ۔

سوال: (۴)
        تحریکی لٹریچر کے مطالعے کے وقت کیا چیزیں خاص طور پر پیش نظر رہنی چاہیں؟
جواب:
        تحریکی لٹریچر کے مطالعے کے وقت مقصدیت کو ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ ظاہر ہے ، یہ مطالعہ نہ تفریحِ طبع کے لیے ہے اور نہ محض معلومات میں اضافے کے لیے ۔ اس کا مقصد زندگی کا شعور ، حرارت و توانائی اور جذبۂ عمل حاصل کرنا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ تحریکی کتابوں کا مطالعہ بہت انہماک اور ٹھہراؤ کے ساتھ ہو ، اس کا منصوبہ بنایا جائے اور اس کے مطابق تسلسل کے ساتھ اسے جاری رکھا جائے ۔

سوال: (۵)
       تحریکی لٹریچر کا مطالعہ کس طرح کیا جائے؟
جواب:
         تحریکی لٹریچر کا مطالعہ اس طرح کرنا چاہیے کہ اس کے مشتملات اچھی طرح ذہن نشین ہوائیں ۔ کسی کتاب کا مطالعہ کرنا ہو تو پہلے بالاستیعاب اسے پڑھیں ، پھر دوبارہ ٹھہر ٹھہر کر اس کا مطالعہ کریں ، اس کے نوٹس بنائیں ، اس کے نکات الگ سے تحریر کر لیں ۔ اس طرح معانی کو ذہن نشین کرنے میں آسانی ہوگی ۔ تحریکی لٹریچر کا محض ایک بار پڑھ لینا کافی نہیں ، بلکہ وہ بار بار پڑھنے کی چیز ہے ۔ خود مولانا مودودیؒ نے ذکر کیا ہے کہ وہ اپنی لکھی ہوئی چیزیں بار بار پڑھتے تھے ۔

سوال:(۶)
        یہ کہا جاتا ہے کہ تحریکی لٹریچر زیادہ تر آج سے پچاس (٥٠) سال قبل کے حالات میں لکھا گیا تھا اور اس کے بہت سارے مباحث نئے حالات سے (Relevence) نہیں رکھتے ۔ اس رائے سے آپ کتنا اتفاق کریں گے؟ اگر ہاں تو اس کمی کو ایک عام طالب علم کیسے پوری کرے؟
جواب:
        تحریکی لٹریچر کے دو حصے کیے جا سکتے ہیں : کچھ وہ کتابیں ہیں جن میں اسلام کے بنیادی عقائد و اقدار کی توضیح و تشریح کی گئی ہے ، اسلام کو ایک جامع نظام حیات کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور اس کی تعلیمات پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے ۔ یہ کتابیں نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اب بھی مطابقِ حال (Relevant)ہیں ۔ ان کی تازگی میں ذرہ بھی کمی نہیں آئی ہے ۔ کچھ وہ کتابیں ہیں جن میں نصف صدی قبل کے حالات کا تجزیہ کیا گیا ہے ، یا بعض ایسے نظاموں اور افکار سے بحث کی گئی ہے جو اُس وقت بہت طاقت ور تھے ، لیکن اب پژ مردہ ہو گئے ہیں ۔ ایسی کتابیں تاریخی سرمایہ کی حیثیت سے اب بھی اہمیت رکھتی ہیں ۔ ضرورت ہے کہ موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے نئی کتابیں تصنیف کی جائیں ۔ اس میدان میں کام ہو رہا ہے ، لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں مزید سرگرم ہونے کی ضرورت ہے ۔ بہ ہر حال تمام تحریکی لٹریچر کو فرسودہ (Outdated) نہیں قرار دیا جا سکتا ۔

سوال:(۷)
        تحریکی لٹریچر اور دیگر لٹریچر میں توازن کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟
جواب:
         تحریکِ اسلامی کے وابستگان اور خاص طور پر نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنا چاہیے ۔ انھیں صرف تحریکی لٹریچر پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ دیگر دینی لٹریچر کو بھی اپنے مطالعہ میں شامل کرنا چاہیے ۔ گزشتہ ہزار سال میں اسلامیات کے مختلف موضوعات پر قابلِ قدر کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ۔ ان میں سے بہت سی کتابوں کے اردو ، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں ۔ موجودہ دور میں بھی مختلف ممالک اور مختلف حلقوں میں عمدہ کتابیں لکھی جا رہی ہیں ۔ ان کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے ۔ البتہ اس سلسلے میں توازن ضروری ہے ۔ تحریکی لٹریچر کا مطالعہ لازماً کیا جائے ۔ ساتھ ہی دیگر لٹریچر سے بھی حتی المقدور استفادہ کیا جائے ۔

سوال:(۸)
       کوئی اور بات؟
جواب:
        وابستگانِ تحریک کے لیے قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش لازم ہے ۔ وہ دست یاب تراجم اور تفاسیر سے بھی مدد لیں اور اس منزل تک پہنچنے کی کوشش کریں جب وہ براہِ راست قرآن مجید میں غور و تدبّرکر سکیں ۔ تحریکی لٹریچر کا مطالعہ قرآن مجید کے مطالعے کا بدل نہیں بن سکتا ۔ قرآن مجید ایک رہ نما کتاب ہے ۔ اس کے ذریعے ایمان کی حرارت ، جوش اور جذبہ بھی ملتا ہے اور ہر طرح کے حالات میں کام کرنے کے لیے رہ نمائی بھی حاصل ہوتی ہے _

                        ***