Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, July 7, 2020

اسلامی ‏مکاتب۔۔موجودہ ‏صورت ‏حال،چیلینجز ‏اور ‏مستقبل ‏کے ‏خاکے ‏۔۔( ‏قسط ‏پنجم ‏).



از/ ڈاکٹر فخرالدین وحید قاسمی
ڈائریکٹر الفاروق اکیڈمی, عمران گنج, صبرحد, جونپور
+91 9838368441
                   صداٸے وقت 
             ==============
پرائمری سطح کے کسی بھی تعلیمی نظام سے مقصود صرف کچھ مضامین کی تدریس نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان مضامین کے وسیلے سے بچوں کی ذہانت, صلاحیت, مثبت مزاج کی تشکیل اور شخصیت سازی ہونی چاہیے. گذشتہ قسطوں میں اسی کو دھیان میں رکھتے ہوئے کچھ نکات پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی چنانچہ قرآن کریم کی تعلیم سے جہاں بچہ کی بہتر قرآن خوانی مقصود ہے, وہیں اس کے صوتی نظام کو متحرک کرنا, دھیان کو مرکوز رکھنا اور یاد داشت میں نکھار پیدا کرنا بھی مطلوب ہے. اسی طرح اردو زبان کی تعلیم سے زبان میں معیار وادب کے علاوہ بچہ کی فہم وفراست کے ساتھ تہذیب وسلیقہ نیز کسی بھی قومی اور بین الاقوامی زبان کے تلفظ کی ادائیگی میں مہارت پیدا کرنا ہے. اگر ہم نے ان چیزوں پر توجہ نہ دی تو بچہ کلاس اور مضامین کے اعتبار سے ترقی کرے گا مگر ذہانتوں, صلاحیتوں اور شخصیت کے اعتبار سے آگے نہ بڑھ سکے گا. اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بچہ اپنے ہم عمروں سے صلاحیتوں میں کافی پیچھے رہ جائے گا اور اس مسابقاتی دور میں کسی منزل کے حصول کی آرزو وخواب تعبیر نہ پاسکیں گے. ذیل کی سطور میں بچوں کے تعمیر وتشکیل میں اسلامیات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے.
عموما بچہ کا دوسرا اور تیسرا ذہنی ارتقائی مرحلہ مکتب کے دورانِ تعلیم ہی گزرتا ہے. دوسرا ذہنی ارتقاء کا دور دو سال سے سات سال کی عمر تک محیط ہوتا ہے. یہ دور بچہ کے عقیدے, بنیادی آداب زندگی, قوت حافظہ اور بول چال کے طور طریقے سکھانے میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے. اس دوران عموما بچے اطفال سے دوسری کلاس تک میں ہوتے ہیں. بچہ جب اطفال میں داخل ہوتا ہے تو اس کے دماغ کی تختی بالکل سادہ ہوتی ہے. لہذا سب سے پہلے خدا کی عظمت اور وحدت کو آسان زبان میں کائنات میں بکھرے ہوئے قدرت کے نمونوں سے سمجھایا جائے پھر دوسرے بنیادی عقیدوں کو ان معصوم ذہنوں میں راسخ کرنے کی کوشش ہو. اس عمر میں بچے جو سیکھ لیتے ہیں, وہ عموما ان کی زندگی بھر ساتھ رہتا ہے. عقیدہ کے بلا دلیل پختگی کے لیے یہی عمر ہے. اس کے بعد والے مرحلے میں بچہ وجہ اور دلیل جاننا چاہتا ہے. بخاری شریف کی روایت ہے کہ "ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے, پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی, نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں." یہ حدیث در اصل اسی مرحلے میں عقیدہ کی پختگی کے تعلق سے رہنمائی کرتی ہے. پہلے عمر کا یہ زمانہ والدین کے آغوشِ تربیت میں ہی گذرتا تھا مگر اب یہ ذمہ داری والدین کے ساتھ مکاتب کے ذمہ داران, اساتذہ اور اسلامیات کی کلاس کی بھی بنتی ہے.
اسی طرح کلمے, قرآن کریم کی کچھ سورتیں, منتخب ومختصر احادیث اور روز مرہ کی دعائیں اسی زمانے میں یاد کرالینا زیادہ مناسب ہے. اس دور میں بچہ زیادہ تر سن کر یاد کرتا ہے. اس عمر میں قوت حافظہ اپنے شباب پر ہوتی ہے. لہذا بنیادی اسلامیات کو خوش کن آوازوں میں سماعت کا اہتمام کیا جانا چاہیے.
اسی مرحلے میں بچہ کو روز مرہ کے اسلامی آداب مثلا کھانے, پینے, سونے, جاگنے, صاف صفائی رکھنے, بالوں میں کنگھا کرنے, مسکرا کر ملنے, جزاکم اللہ اور ماشاء اللہ کہنے کے ساتھ شکر, محنت اور سچائی وغیرہ کا عادی بنایا جائے تاکہ یہ آداب اس کی زندگی کا جزء لاینفک بن جائیں. انس بن مالک رض سے مروی ہے کہ آپ ص نے ارشاد فرمایا "اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں ادب سکھاؤ." اس حدیث سے واضح ہے کہ بچہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جائے, اسلامی آداب اس کی زندگی کے جزء بنتے جائیں چنانچہ جمائی لینے کے وقت جمائی کے آداب اور ناخن تراشنے کے وقت انگلیوں کی ترتیب کو اگر اس عمر میں عملا کرایا جائے, تو پھر ہمیشہ بچہ ان سنتوں پر عمل پیرا رہے گا. ایک حدیث اور ہے جس میں ایک شخص کے بچہ کے حقوق کے تعلق سے استفسار کرنے پر آپ ص نے ارشاد فرمایا "تو اس کا اچھا نام رکھ, اسے ادب سکھا اور اس کی اچھی تربیت کر." حدیث واضح ہے کہ نام رکھنے کے بعد والے مرحلے کا خاص موضوع ادب وتربیت ہی ہے.
اس مرحلہ میں بچوں کو محبت, عزت اور احترام ملنا چاہیے. اسی طرح ان کے ساتھ کھیل میں خاص طور پر والدین کو اور پھر اساتذہ کو بھی شریک ہونا چاہیے. یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں Play School اور TLM کا نظام تعلیم بڑی تیزی سے رائج ہوتا جارہا ہے. ہمیں حضور ص کی زندگی میں نہ صرف بچوں سے اٹوٹ پیار اور محبت کے نمونے ملتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ کھیلنے میں شرکت بھی ملتی ہے. انتہا تو یہ ہے آپ بارگاہ خداوندی میں سجدہ ریز ہوتے ہیں مگر بچہ کے کھیل کی خاطر سجدہ طویل کردیتے ہیں اور جب اٹھنا چاہتے ہیں تو اسے آرام سے نیچے اتارتے ہیں اور پھر سجدہ سے اٹھتے ہیں. یہی نہیں بلکہ ایک بار ایک یہودی بچہ کی عیادت کے لیے آپ ص تشریف لے جاتے ہیں. بچوں سے آپ ص سلام میں پہل کرتے تھے. اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بچپن میں اس درجہ محبت, عزت, اپنائیت اور لگاؤ ملنے لگے تو بچے اپنے ماں باپ اور اساتذہ سے اس درجہ گھل مل جائیں گے کہ انہیں ہر چیز سیکھنے میں مزہ آئے گا.  
اسی طرح یہی وہ دور ہے جب بچہ میٹھی اور مؤدب زبان بولنا سیکھتا ہے. اگر اس مرحلے میں بچے نے اردو زبان بولنا سیکھ لیا تو پھر وہ پوری عمر اردو بولے گا. 
جب ہم اسلامیات کی کلاس کو مذکورہ بالا بنیادوں پر پرکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم ابھی بہت دور کھڑے ہیں اور اس پر مطمئن بھی ہیں. بچے ہمارے مکاتب کے آنگن کے پھول ہیں. ہمیں ان کی آبیاری کرنی پڑے گی.

بہت کمزور ہیں گملوں کے پودے
یہ شاید کھاد پانی چاہتے ہیں

جاری.......