Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 13, 2020

جنگ ‏آزادی ‏و ‏ضلع ‏اعظم ‏گڑھ۔۔قسط ‏(1).


 از/ _*عبید اللہ شمیم قاسمی*_ /صداٸے وقت 
==============================
   اٹھارہویں صدی کے وسط میں سلطنت مغلیہ کا آفتاب مائل بہ غروب تھا اور انگریزی اقتدار کی گھٹائیں دن بدن گاڑھی ہورہی تھیں ، انگریز جب ہندوستان پہنچے تھے تو تاجروں کی حیثیت سے پہنچے تھے اور عام لوگوں نے انهیں ایک معمولی تاجر کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا؛ لیکن ان کی نیت صاف نہیں تھی، انھوں نے اپنوں کی کمزوری اور آپسی نااتفاقی سے فائدہ اٹھا کر اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالوں کے ذریعہ یہاں کے سیاہ وسفید کے مالک ہوگئے اور ہندوستانی قوم کو غلامی کی غیر مرئی زنجیروں میں قید کرنے میں کامیاب ہوگئے، یہاں کی دولت و ثروت کوبے دریغ لوٹنے لگے، یہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے اور یہاں کی تہذیب سے کھلواڑ کرنے لگے اور اس کا سلسلہ مزید بڑھتا ہی گیا، پانی جب سر سے اوپر ہوگیا، تو ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادیٴ وطن کا جذبہ پیدا ہوا اور سب سے پہلے مسلمانوں نے اس خطرے کی سنگینی کو محسوس کیا، سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو شہید اور دیگر مسلم فرماں روا اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں کود پڑے اور یوں تحریک آزادی کی ابتداء ہوئی، جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تختہٴ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اور کمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخر غیرملکی (انگریز) ملک سے نکل جانے پر مجبور ہوئے۔
 ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاحصہ قدرتی طور پر بہت ممتاز ونمایاں رہا ہے، انھوں نے جنگ آزادی میں قائد اور رہنما کا کردار ادا کیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدار مسلم حکمرانوں سے چھینا تھا، اقتدارسے محرومی کادکھ اوردردمسلمانوں کو ہوا، انھیں حاکم سے محکوم بننا پڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کو لڑنی پڑی۔
      انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان نے 1754ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کا ڈائمنڈ ہاربر Diamond Harbourاور فورٹ ولیم Fort Williamانگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔اسے پہلی منظم اورمسلح جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے۔ علی وردی خان کے بعدان کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے اور اس خطرہ کو محسوس کیا کہ انگریز ان کے ملک پرآہستہ آہستہ حاوی ہورہے ہیں اوران کو ملک سے نکالناضروری ہے۔اس نے حوصلہ اور ہمت سے انگریزوں کوشکست دیناچاہا؛ مگر انکا دربار سازشوں کا اڈہ بن گیاتھا؛ اس لیے انہیں شکست ہوئی اور1757ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا۔
تاریخ کے صفحات میں پلاسی کی جنگ 1757ء اوربکسرکی جنگ1764ءکی تفصیل موجود ہے،یہ جنگ بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح حاوی ہوگئے۔
 *کمپنی کا رخ دہلی کی طرف* :
سارے ہندوستان کو بالواسطہ یا یا بلا واسطہ زیر نگیں کرنے کے بعد اب انگریز کا نشانہ دہلی کا پایہ تخت تھا، جہاں مغلیہ حکومت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا۔ 1803ء میں دہلی پر قبضہ کیا، اور یہاں بھی سوچی سمجھی اور طے شدہ پالیسی سے کام لیا گیا، یعنی بادشاہ ( شاہ عالم)کو تاج وتخت کے ساتھ باقی رکھتے ہوئے صرف اختیارات ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلیم کرالئے گئے اور اس کی تعبیر یہ کی گئی کہ’’ خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘۔ ( علمائے ہند کا شاندار ماضی:2/435 )
 *شاہ عبد العزیز ؒ کا فتوی :* 
جب ہر طرح کا اختیار انگریزوں کا شروع ہوچکا اور اسلامی تشخص کو مٹانے کی کوشش زوروں پر آگئی۔ ان حالات میں حضرت شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی ؒ کے فرزند و جانشین حضرت شاہ عبد العزیز ؒ نے 1803ء ميں ایک فتویٰ صادر کرکے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا اعلان کیا۔ یہی فتوی ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا نقطہ آغاز ہے۔
 *اعظم گڑھ كا محل وقوع:* 
عہد تیموریہ میں بسنے والا یہ وہ شہر ہے جس کے چھوٹے چھوٹے قصبات نے ایسے ایسے آفتاب و مہتاب کوجنم دیا ہے جنکی ضوفشانی پوری علمی کائنات میں ہے۔ مبدا فیاض کے الطاف و عنایات کی مظہر یہ وہ سر زمین ہے جس کی عظمتوں کے نقوش پوری علمی کائنات میں مر تسم ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہاں کے چھوٹے چھوٹے قصبا ت سے آفاقی اور عالمگیر شہرت کی حامل شخصیتوں نے جنم لیا اور نظام افکار و اقدار پر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے۔
 يه ضلع اترپردیش کے مشرقی حصے میں واقع ہے جو گنگا اور گھاگھرا کے وسط میں بسا ہوا ہے۔ زمانہ قدیم میں اس جگہ کا کوئی نام نہی تھا۔ جنگل ہی جنگل تھا۔ آبادی بہت کم اور فاصلے پر تھی اس سرزمین کا تعلق دو ریاستوں کے زیر اثر تھا مغرب میں کوشلیا راج اجودھیا سے اور مشرق میں کاشی راج بنارس سے تھا۔ درمیان میں ٹونس ندی سرحد تھی، یہاں راجا ہربنس سنگھ کی چھاؤنی تھی۔ شہراعظم گڑھ سے متصل بجانب مشرق ان کے نام سے ایک موضع ہربنس پور آباد ہے، ہربنس پور اب بھی موجود ہے۔ان کے لڑکے راجا بکرماجیت سنگھ نے اپنا قلعہ لب ساحل دریا ٹونس بنوایا تھا اورانہوں نے اپنے حقیقی بھائی رودرسنگھ کوقتل کر دیا تھا جس کی پاداش میں مغل شاہی فوج نے راجا بکرماجیت سنگھ کو گرفتار کرکے دارالسطنت دہلی لے گئی وہاں جاکر انھوں نے اسلام قبول کر لیا، دہلی سے بعد رہائی اعظم گڑھ واپس ہوئے اورانھوں نے ایک مسلم خاتون سے شادی کرلی۔ ان کے بطن سے دو لڑکے پیدا ہوئے ۔ بڑے لڑکے کانام اعظم خان اورچھوٹےلڑکے کا نام عظمت خان رکھا۔ چونکہ اس ضلع کو شہنشاہ اورنگ زیب علیہ الرحمة کے وقت میں راجا اعظم خان جوبعد میں اعظم شاہ کے نام سے مشہور ہوا،انہوں نے بسایا تھا، اسی وجہ سے اس کا نام اعظم گڑھ رکھاگیا،(گڑھ کے معنی قلعہ کے ہوتے ہیں)کہاجاتاہے کہ 1665ءمیں اعظم شاہ نے ٹونس ندی کے کنارے ایک قلعہ بنایا اور اس کےچاروں طرف 7/8میل کے مربع میں چہاردیواری بنوائی تھی،رفتہ رفتہ اس کے آس پاس آبادی بڑھتی گئی اور اعظم شاہ کے نام پر اس کا نام اعظم گڑھ پڑ گیا، ٹونس ندی کے کنارے پر واقع یہ ضلع اعظم گڑھ ان گنت خصوصیات کا حامل رہا ہے، اس ضلع میں زمانۂ قدیم سے صوفی سنتوں اور علماء کرام اور آزادی وطن کے متوالوں کی جائے پیدائش رہی ہے۔  تمام تفصيلات حاجی شاہ افضال اللہ قادری نے اپنی کتاب’ تاریخ اعظم گڑھ‘ میں لکھی ہے: 
(ديكھيےتاریخ اعظم گڑھ ص 35)
اور تذكره علماء اعظم گڑھ، (ص: 26 تا 40) مصنف حضرت مولانا حبيب الرحمن اعظمی قاسمی۔