Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 29, 2020

کورونا ‏میں ‏شدت۔۔ذمہ ‏دار ‏مودی ‏سرکار۔۔۔۔


تحریر / شکیل رشید /صداٸے وقت۔
==============================
کورونا کی وباء گزشتہ مارچ اور اپریل کے مقابلے آج کے دنوں میں کئی سو گنا زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ ایک دن میں 70 سے 76 ہزار معاملے سامنے آنے لگے ہیں ۔ مرض کی شدت اور متاثرین کی تعداد میں اضافے کا یہ عالم ہے کہ جمعہ 28 اگست کے روز ہمارے ملک کا اوسط گراف امریکہ اور برازیل سے بھی اوپر چلا گیا ۔جمعہ کو اوسط کے لحاظ سے 69558 معاملے ریکارڈ کیے گئے جو کسی بھی ملک میں اب تک ریکارڈ کیے گئے اوسط اعدادوشمار سے کہیں زیادہ تھے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ جب جولائی میں امریکہ میں کورونا کا گراف اوپر جا رہا تھا تب وہاں 25 جولائی کو سب سے زیادہ معاملے جو ریکارڈ ہوئے تھے وہ اوسط کے لحاظ سے 69330 تھے، ہندوستان اس ریکارڈ کو توڑ چکا ہے ۔
 اب امریکہ میں کورونا کی شدت کا اوسط گراف نیچے کی طرف آ رہا ہے، برازیل میں بھی اوسط گراف نیچے جا رہا ہے مگر ہمارے ملک میں اوسط گراف اوپر کی سمت بڑھ رہا ہے ۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ابھی یہاں کورونا اپنی انتہا کو نہیں پہنچا ہے؟ کیا اس کی شدت اتنی بڑھے گی کہ امریکہ اور برازیل بھی پیچھے رہ جائیں گے اور ہم عالمی ریکارڈ بنا لیں گے؟ یہ بہت ممکن ہے ۔ ویسے ہم تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ ہر معاملہ میں دوسروں سے اوپر رہیں، اور اوپر رہتے بھی ہیں لیکن یہ معاملے مثبت نہیں اب تک منفی ہی رہے ہیں ۔ منفی ہی سہی ہم اوپر تو ہیں ! اب ایک سنجیدہ سوال، مودی سرکار نے سوائے بتی بجھانے، دیئے جلانے، تالیاں اور تھالیاں پیٹنے کے کورونا کی روک تھام کے لئے کیا کیا ہے؟ حکومتی دعوؤں کو چھوڑیں زمینی حقیقت کو دیکھیں تو مودی سرکار مکمل طور سے کورونا پر لگام کسنے میں ناکام نظر آتی ہے ۔ شاید اسی لیے کورونا کا سارا الزام تبلیغی جماعت پر ڈالا گیا تھا ۔ لیکن وہ بھی تو مودی سرکار ہی کی ناکامی کہلائے گی ۔ جب کورونا پھیل رہا تھا تو نریندر مودی احمد آباد میں لاکھوں کی بھیڑ جمع کر کے صدر امریکہ ٹرمپ کا استقبال کر رہے تھے ۔ جب لاک ڈاؤن کرنا تھا تب وہ ایم پی میں کانگریس کی حکومت گروا رہے تھے ۔ جب ائرپورٹ پر غیرملکیوں کو روکنا تھا تب وہ انہیں چھوٹ دے رہے تھے، اسی لیے تو غیر ملکی جماعتی ملک میں داخل ہو سکے تھے ۔ جماعت پر کارروائی کے بعد بھی بڑے بڑے مندروں میں ہجوم تھا، پوجا ہو رہی تھی ۔ تو کورونا کے پھیلنے کی ساری ذمہ داری تو مرکز نظام الدین کے نہیں مرکزی حکومت کے سر جاتی ہے ۔ جو مقدمے جماعتیوں پر ہوئے وہ حکومت کے ذمہ داران پر ہونا تھے ۔آج بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے جا رہے ہیں ۔ اب یہی دیکھیے کہ گریجویشن کے لیے امتحان ضروری ہے، اس سے کورونا نہیں پھیلے گا ، مگر عاشورہ کے جلوس سے کورونا پھیل جائے گا! عبادت گاہوں میں عبادت کرنے سے کورونا ہوگا مگر ایودھیا میں بھومی پوجن سے کچھ نہیں ہوگا! نیٹ آور جے ای ای کے امتحانات ضروری ہیں، مگر ابھی لوکل ٹرینیں نہیں چلیں گی، لوگ کاروبار کرنے سے محروم رہیں گے! ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کورونا بھیڑ سے پھیلتا ہے تو امتحانات کی بھیڑ سے بھی پھیلے گا اور اگر بھیڑ سے نہیں پھیلتا تو عبادت گاہوں میں اجتماعی عبادتوں سے بھی نہیں پھیلے گا ۔ لیکن احتیاط لازمی ہے اور احتیاط سوشل ڈسٹنسنگ میں ہے لہٰذا مودی سرکار کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ بھیڑ کہیں نہ ہو، نہ امتحانات کی بھیڑ نہ عبادت گاہوں کی بھیڑ ۔ سب کے لیے یکساں پالیسی کی ضرورت ہے ۔ لیکن شاید مودی یہی، یکساں پالیسی بنانا  نہیں جانتے، شاید  ہم سب کو کورونا کی شدت کی اوسط کے آسمان چھونے کا نظارہ دیکھنا ہی پڑے گا ۔