Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, August 28, 2020

مسعود ‏بھاٸی ‏بھی ‏سفر ‏آخرت ‏پر ‏روانہ ‏ہوگٸے۔


از/ محمد خالد اعظمی /صداٸۓ وقت ۔٢٨ اگست ٢٠٢٠۔
==============================
انا  لللہ وانا لیہ راجعون
 ہمارا سب کچھ صرف اللہ تعالی ہی کا ہے  اور بالآخر لوٹ کر ہمیں اسی ارحم الراحمین کے پاس جاناہے۔ 
کل  نفس ذائقتہ الموت ۔
خدائےتعالی کی رضا کے تحت ،اسکے قدیم قانون اور سنت  الہی کے مطابق ہر انسان کو موت جیسی اٹل حقیقت سے رو برو ہونا ہی ہے جس میں شاہ و گدا کی کوئی تفریق نہیں۔ ہمارے کالج کے پرنسپل  ڈاکٹر مسعود اختر صاحب، جنہیں میں محبت اور بے تکلفی سے مسعود بھائی کہا کرتا تھا ،  بھی آخر کار اسی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے جس پر ہر ذی روح کو آگے پیچھے چلنا ہے ۔ جب تک سانس چلتی رہتی ہے انسان  دنیا کی اس سب سے بڑی حقیقت سے منھ چھپانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور آخر کار جب اس اٹل حقیقت سے روبرو ہوتا ہے تو اس کے پاس کچھ کرنے کی مہلت ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ مسعود بھائی بھی اسی اٹل حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے  آج علی الصبح تقریباً سات بجے اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ۔
مسعود بھائی سے علیک سلیک اور خیر خیریت کا تعلق پچھلے اٹھائیس برسوں سے تھا لیکن ان کے پرنسپل بن جانے کے بعد جب میں کالج کے چیف پراکٹر کی حیثیت سے انکی ٹیم کا حصہ بن گیا تو تعلق مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ مرحوم کی بہت ساری دینی صفات اور انتظامی خوبیوں کا معترف ہوا۔ معافی مانگ لینے اور معاف کردینے کی صفت، طلبہ اور طالبات کے ساتھ ہر انسان کی جائز ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہمہ وقت  تیاررہنا، اپنے ماتحتوں کی تلخ و شیریں باتوں کو سننے ، برداشت کرنے اور پھر سب کو دل سے معاف کر دینے کی صفت ، ہر پریشانی اور کڑے وقت پر فورا  اللہ کی طرف رجوع ہونے اور اسی سے مدد مانگنے کی صفت، مرحوم کی چند صفات تھیں جنکا مجھے انکے ساتھ کام کرتے ہوئے ادراک ہوا۔ اسی کے ساتھ مرحوم کے چند بہت قریبی لوگوں نے بتایا کہ انکے اندر جود و سخا کی پوشیدہ صفت تھی جسے کم لوگ جانتے تھے اور بندہ مومن کی یہی ایک خاص پہچان اور نمایاں صفت ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کرتے وقت اللہ کے سوا کوئی گواہ نہیں ہوتا۔
مسعود بھائی کی صحت قابل رشک تھی ، گداز جسم،ریش دراز سے بھرا ہوا چہرہ،ہمیشہ ٹوپی اور شیروانی میں ملبوس خوبصورت پرسنالٹی  ۔ کسی ظاہری بیماری کا  نام ونشان  نہیں ، لیکن اندر ہی اندر جگر کی کوئی بیماری تھی جو بالکل آخری وقت میں ظاہر ہوئی اور بالآخر مرحوم کی موت پر منتج ہوئی۔   
مرحوم کا وجود کالج میں اپنی نظیر آپ تھا ، ان کے ساتھ بہت ساری اچھی خراب، کھٹی میٹھی یادیں وابستہ ہیں۔ ٹیم میں کام کرتے وقت بہت سارے مسائل پر اصولی اختلاف اور اتفاق رہتا تھا لیکن مسعود بھائی کبھی کسی بات کو دل میں نہیں رکھتے تھے ۔ اللہ رب العزت ارحم الرحمین  انکی تمام بشری کوتاہیوں کو معاف کرے اور انکے تمام نیک اعمال کو شرف قبولیت عطا کرتے ہوئے انکو جنت کے اعلی و ارفع مقام پر متمکن کرے ، انہیں جنت الفردوس کا وارث بنائے ۔ موت کے بعد ہر انسان کی صرف خوبیوں اور اسکی نیکیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے یاد کرنا ایک مسلمان کا شیوہ ہے ، اللہ تعالی ہم سب لوگوں کو اسکی توفیق  عطا کرے۔ آمین 

( محمد خالد اعظمی )