Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, August 9, 2020

اردو ‏کی ‏بقا ‏کے ‏لٸیے ‏فکرمند ‏ہونے ‏کی ‏ضرورت۔



محمد نظر الہدیٰ قاسمی
نوراردو لائبریری حسن پور گنگھٹی،بکسامامہوا ویشالی
رابطہ: 8229870156
                   صداٸے وقت 
               =========--==
ہم سب کو اردو کے تعلق سے فکر مند ہوناچاہیے لیکن صورت حال یہ ہے کہ ہر آدمی ایک دوسرے پر بھروسہ کیے بیٹھا ہے،جس سے بھی تزکرہ کیجئے وہ برجستہ کہتا ہے کہ فلاں تنظیم کو اس معاملہ میں حساس ہونا چاہیے. اس طرح اردو کی لڑائی کمزور ہورہی ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ سرکاری سطح پر بھی اردوکو ختم کرنے کی مہم تیز تر ہوگئی ہے جیسا کہ کبھی ماضی میں فارسی زبان کو ختم کرنے کے لئے کیا گیا تھا،زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ماضی میں فارسی زبان کا کیسا جلوہ 
تھا،کورٹ،کچہری،زمین و جائیداد کے تمام دستاویزات فارسی میں ہی ہوا کرتے تھے،ہر عام و خاص فارسی زبان کی شیرینی سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا،لیکن اس زبان کو اس طرح ہندوستان سے ملک بدر کردیا گیا کہ اس کا تذکرہ اورتصور  بھی محال ہورہا ہے،اب فارسی زبان کی طرح اردو کو مٹانے کی مہم ان دنوں تیز تر ہے پہلے طلبہ مادری زبان کے طور پر اردو کا انتخاب کیا کرتے تھے لیکن نئے سرکولر کے مطابق دوسری زبان کے لئے صرف ایک استاذ بحال کئے جائیں گے ایسے میں اردو کی حیثیت طلبہ کے لیے اختیاری زبان کی رہ جائے گی، ظاہر ہے ایک استاذ اردو،بنگلہ اور سنسکرت نہیں پڑھا سکتا اس لئے طلبہ کو لازماً کسی ایک زبان کو انتخاب کرنا ہوگا موجودہ صورت حال بھی بہت اچھی نہیں ہے،ہمارے بیشتر اساتذہ یا تو اردو جانتے نہیں یا اگر جانتے ہیں تو پڑھاتے نہیں اور پڑھانے میں عار محسوس کرتے ہیں،اردو درس و تدریس کو خدمت کے جذبہ سے نہیں پڑھاتے بلکہ صرف وقت گزاری کرتے ہیں،ان حالات کی وجہ سے  اردو زبان پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں،اور اردو داں طبقہ کی طرف سے کوئی تحریک نہیں چلائی جارہی ہے ،جو لوگ اردو کی روٹی کھاتے ہیں ان لوگوں کو صرف اپنی زندگی اور نوکری ہی پیاری ہے،وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہماری بحالی جس سبجیکٹ پر  ہے اسے فوری طور پر سرکار ختم نہیں کررہی ہے،مستقبل میں پھر کیا ہوگا اس سے ہمیں کیا لینا دینا،اردو کی جو تنظیمیں سرکاری ہیں وہ سرکار کے ماتحت میں کام کرنے کی وجہ سے اپنے اختیارات کو وسعت دینے سے معذور ہیں،جو غیر سرکاری تنظیمیں ہیں ان کا معاملہ بھی اخباری بیانات سے آگے نہیں بڑھ رہا ہے،جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں بھی اردو کی بقاء کے لئے مضبوط جدو جہد کا کوئی سامان نظر نہیں آرہا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اردو زبان کی تنزلی میں ہم سرکارسے زیادہ مجرم ہیں،سرکار کیا کررہی ہے اس کو صرف نظر کرتے ہوئے،تھوڑی دیر کے لئے ہم اپنے گریبان میں جھانکیں اور غور و خوض کریں، ہم کو کس نے منع کیا کہ ہم اپنے بچوں کو اردو زبان نہ سکھائیں ،کس نے منع کیا ہے کہ ہم دیگر اخباروں کے ساتھ اردو اخبار نہ خریدیں،ہمیں کس نے منع کیا ہے کہ وھاٹسپ،فیس بک،ٹیوٹئروغیرہ ہم اردو زبان میں استعمال نہ کریں ،ایک وقت تھا کہ اردو کا جلوہ ہر خاص و عام پر تھا، کیا ہندوکیا مسلم بلا تفریق مذہب و ملت اردو کی چاشنی سے لوگ لطف اندوز ہوا کرتے تھے،اور خطوں پر پتہ بھی اردو زبان میں لکھا جاتا تھا،اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ڈاکیہ وغیرہ بھی اس زمانہ میں اردو داں ہوا کرتے تھے،جس کا ایک نمونہ اوپرپیش کیا گیا ہے،یہ وہ خط ہے جو حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ نے حضرت مولانا عبدالعزیز بسنتی رحمۃ اللہ علیہ سابق مہتمم مدرسہ اشرف العلوم کنھواں کو ۱۳۴۶ھ مطابق ۱۹۲۸ءمیں ارسال کیا تھا،اس طرح کے اور نمونے حسن پور گنگھٹی بکساما کی نور اردو لائبریری میں موجود ہیں،آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اردو کا کیا جلوہ رہا ہوگااب تو حالت یہ ہے کہ مشاعرہ میں شاعر اور لکچرر کی ایک بڑی ٹیم اپنی شاعری اور لکچر کو ہندی میں لکھ کر لے جاتی ہے اور سامعین کے سامنے سنا دیتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اسلاف کی طرح ہی اردو کی بقاء کے لئے فکر مند ہوں،اور اس کی حفاظت کے لئے کوشاں رہیں،ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم اس محاورہ کے مصداق ہوجائیں گے "اب بچھتاوت ہوت کیا جب چڑیا چگ گئی کھیت"اس کے بعد کف افسوس ملنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔