Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 22, 2020

آہ ‏مرتضیٰ ‏ساحل ‏تسلیمی ‏بھی ‏رخصت ‏ہو ‏گٸے۔

از / کامران غنی صبا /صداٸے وقت 
................ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتضی ساحل تسلیمی. بچپن میں یہ نام زندہ قلمکاروں میں سب سے پہلے رول ماڈل بن کر ابھرا. ہمارے یہاں ماہنامہ نور، بتول اور ماہنامہ ہلال یہ وہ رسالے تھے جو پابندی سے آتے تھے. ہمارے یہاں ان رسالوں کا کریز اتنا تھا کہ ہم بھائی بہنوں میں جس کے ہاتھ کوئی رسالہ پہلے لگ جاتا وہ اسے اس وقت تک چھپا چھپا کر رکھتا تھا جب تک وہ اسے پوری طرح چٹ نہ کر جائے. مجھے یاد ہے کہ جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو ماہنامہ نور کے قلمی دوستی کے کالم میں میرا مختصر سا تعارف اور پتہ شائع ہوا تھا. پہلی بار پکی روشنائی میں اپنا نام دیکھ کر مجھے کتنی خوشی ہوئی تھی یہ میں بیان ہی نہیں کر سکتا. اس کے بعد مجھے کچھ خطوط بھی موصول ہوئے اور میرے اندر قلمی دوستی کا ایسا شوق پروان چڑھا جو گریجویشن تک بدستور بڑھتا ہی رہا. 
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خطوط نویسی کے شوق نے میری ادبی و صحافتی نشو نما میں غیر معمولی کردار ادا کیا. ماہنامہ نور میں ہی خطوط کا الگ سے ایک کالم ہوتا تھا جس میں مرتضی ساحل تسلیمی صاحب خطوط کا بہت ہی دلچسپ انداز میں جواب دیا کرتے تھے. مجھے ماہنامہ نور کا یہ کالم اتنا پسند تھا کہ عموماً میں اس حصے کو سب سے پہلے پڑھتا تھا. مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے ساحل صاحب سے خط لکھ کر گزارش کی تھی کہ نور میں تو آپ جواب دیتے ہی ہیں اس بار مجھے آپ کا تحریری جواب ڈاک سے چاہیے. امید ہے کہ آپ محروم نہیں کریں گے. ساحل صاحب نے میرے اس خط کا جواب الگ سے پوسٹ کارڈ پر اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجا.
سچ پوچھیے تو ادارہ الحسنات کے رسائل نے مجھ جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کے بچپن کی آبیاری کی ہے. ادارہ الحسنات ایک تو نجی ادارہ اس پر اس کی مذہبی شناخت. یہی وجہ ہے کہ مرتضی ساحل تسلیمی جیسی شخصیت ساز اور کردار ساز شخصیتیں وہ مقام حاصل نہ کر سکیں جس کی وہ مستحق تھیں. مرتضی ساحل تسلیمی کچھ روز بیمار رہے اور پھر خاموشی کے ساتھ انہوں نے اپنی سانسیں بھی اسی طرح بند کر لیں جس طرح خاموشی سے ادارہ الحسنات کے رسائل بند ہوئے. اللہ انہیں غریق رحمت کرے. کاش پس مرگ ہی سہی ان کے کارناموں سے نئی نسل کو متعارف کروانے اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی سنجیدہ کوشش کی راہ نکالی جا سکتی.