Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 18, 2020

شبلی نعمانی نے بیت الحکمت کی طرز پر دارالمصنفین کو قائم کیا : پروفیسر اخترالواسع

شبلی اکیڈمی کی ایک صدی کی خدمات قابل فخر ہیں،اکیڈمی کے مالی استحکام کے لیے ہمیں آگے آنا ہوگا : خالد محمود.

نئی د ہلی : /صداٸے وقت /حکیم نازش احتشام اعظمی۔
==============================
علامہ شبلی عارف بھی تھے ،اور دائرۃ المعارف بھی ۔المامون کے لکھنے والے نے بیت الحکمت کی طرز پر دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کو قائم کیا ۔جس نے علمی ہمہ جہتی کو اردو میں درجہ کمال کو پہنچا دیا ۔پروفیسر اخترالواسع نے ان خیالات کا اظہار اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ’دارالمصنفین شبلی اکیڈمی :ایک صدی کا قصہ‘ کے عنوان سے منعقدہ بین الاقوامی ویب نارمیں مجلس صدارت کے ایک رکن کی حیثیت سے کیا ۔مجلس صدارت کے اراکین میں پروفیسرخالد محمود اورمولانا محمد طاہر مدنی کے نام نامی شامل ہیں ۔بین الاقوامی ویب نار میں ڈاکٹر انوار غنی(نیوزی لینڈ) بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے جبکہ جناب شکیل احمد صبرحدی نے مہمان اعزازی کے طور پر شرکت کی ۔ پروگرام کے آغاز میںقرآن پاک کی تلاوت ڈاکٹر شاہ نواز فیاص نے کی ۔نظامت کا فریضہ ڈاکٹر عمیر منظر نے انجام دیا ۔تکنیکی امور کی دیکھ بھال راحیل مرزانے کی ۔حکیم نازش احتشام اعظمی نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا ۔
سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ آج کے ویب نار میں مصراور ایران کے دانشوروں کی شمولیت ان پر چلے آرہے شبلی کے علمی قرض کی ادائیگی کی صورت میں بھی دیکھنا چاہیے ۔ کیونکہ انھو ںنے اسکندریہ کے کتب خانے کے جلائے جانے پر جو مسکت ،مبسوط اور مدلل جواب دیا آج تک مستشرقین اس کا جواب نہیں دے سکے ۔پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ اسی طرح شعرالعجم اور موازنہ انیس و دبیر نے ایران اور فارسی زبان کو مقبول عام بنایا ۔اس موقع پر انھوں نے اکیڈمی کے مالی استحکام کے سلسلے میں جاری کوششوں کی ستائش کی اور اس کے لیے اپنے بھر پور تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ۔مجلس صدارت کے رکن اور شبلی اکیڈمی کے مجلس انتظامیہ کے رکن پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ اکیڈمی سے وابستگی میرے لیے سعادت کی بات ہے ۔انھوں نے اس موقع پر کہاکہ شبلی اکیڈمی کی ایک صدی کی خدمات قابل فخر ہے اور آج ضرورت ہے کہ اکیڈمی کو مضبوط و مستحکم کیا جائے تاکہ اس کی خدمات کا سلسلہ جاری رہے ۔پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب کے فروغ و استحکام کا کوئی ذکر شبلی اکیڈمی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ۔یہ ہمارے لیے فخر اور سعادت کی بات ہوگی کہ ایک ایسے تاریخ ساز ادارے کو ہم قائم و دائم رکھیں ۔مجلس صدارت کے فاضل رکن مولانا محمد طاہر مدنی نے کہا کہ نئی نسل کو اکیڈمی کے لٹریچر سے متعارف کرانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا دیگر زبانوں خصوصاً ہندی میں ترجمہ کیا جائے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ آج کل کے حالات کے لحاظ سے ہماری کیا ضروریات اور ترجیحات ہیں اس پر بھی کام ہونا چاہیے ۔اس موقع پر انھوں نے اکیڈمی کی مالی حالت کو مستحکم کرنے کے لیے بعض عملی منصوبہ بھی پیش کیا ۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر انوار غنی نے کہاکہ اکیڈمی کی مہتم بالشان تاریخ کو قائم و دائم رکھنے کے لیے اسے معاشی طور پر مستحکم کرنا ہماری اولین ترجیح میں شامل ہونا چاہیے۔مہمان اعزازی جناب شکیل احمد صبرحدی نے کہا کہ ایک وسیع انسانی اخوت و ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہوکر اس نوع کے کام کرنے کی ضرورت ہے ،جس میں کسی طرح کی تفریق کا گذر نہ ہو ۔
بین الاقوامی ویب نار سے خطاب کرتے ہوئے حکیم وسیم احمد اعظمی نے کہا کہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی سے اہم شخصیات کا والہانہ تعلق رہا ۔انھوں نے بتایا کہ طب یونانی کے حوالے سے بھی اکیڈمی کی اہم خدمات رہی ہیں،جس کا سلسلہ جاری ہے ۔ایک طرف جہاں شبلی کا تعلق طب کے دونوں خاندانوں سے رہا ہے ماہنامہ معارف نے طب یونانی کی تاریخ و تنقید اور اس کے فروغ و استحکام میں نمایاںکردار ادا کیا ۔
پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ روز اول سے معارف نے ادبیات کو اپنے یہاں خاص جگہ دی ہے ۔ ابتدا سے آج تک کے شماروں کواگر ملاحظہ کریں تو شعرو ادب کی ایک کہکشاں معلوم ہوتی ہے ۔انھوں نے اس موقع پر شبلی کی شعری عظمتوں اور لفظی و معنی رعایتوں کا خاص طور پر ذکر کیا ۔او رکہا کہ اس میں شبلی کی جسارت اور کمال دونوں پنہاں ہے ۔
پروفیسر احمد القاضی (صدر شعبہ اردو ۔جامع ازہر مصر )نے عرب دنیا میں علامہ شبلی کی اہمیت اور ان کی مقبولیت کے ساتھ وہاں کی علمی دنیا سے شبلی کے روابط کا بطور خاص ذکر کیا ۔اس موقع سے انھوں نے کہا کہ جرجی زیدان کے خیالات کاعلامہ نے جس طرح جواب دیا تھا وہ علمی دنیا کا ناقابل فراموش واقعہ ہے ۔اس موقع پر پروفیسر احمد القاضی نے کتب خانہ اسکندریہ سے متعلق شبلی کی تحقیق کابھی ذکر کیا اور کہا کہ شبلی نے سچ کو جس طرح اجاگر کیا ہے اس سے ان کی علم دوستی اور تحقیق سے غیر معمولی شغف کا اندازہ ہوتا ہے ۔
پروفیسر احمد محفوظ نے کہاکہ ارد تنقید کی ترویج و ترقی میں شبلی کا کارنامہ تو ہے لیکن اسی کے زیر اثر شبلی اکیڈمی اور ماہنامہ معارف میں جو بہت سے مضامین اردو تنقیدسے متعلق شائع ہوئے اردو ادب میں میںوہ غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔اس ضمن میں پروفیسر احمد محفوظ نے خاص طور پر کلاسیکی شعرا کے سلسلے میں جو مضامین شائع ہوئے ان کا ذکر کیا ۔انھوں نے مولانا سید سلیمان ندوی ،عبدالسلام ندوی اور مولوی عبدالحئی کی ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کی تنقیدی تحریرو ں کو اردو دنیا کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ 
ڈ اکٹر وفا یزداں منش(شعبۂ اردو ۔یونی ورسٹی آف تہران )نے ایران میں شبلی شناسی کا ذکر تے ہوئے فارسی ادبیات میں ان کی خدمات کا احاطہ کیا ۔اس موقع پر انھوں نے شبلی کی فارسی شاعری کا بطور خاص تعارف کرایا اور کہاکہ علامہ کی فارسی شاعری نہ صرف زبان وبیان کا اعلی نمونہ ہے بلکہ مضامین اور خیال کے اعتبار سے بھی جدید فارسی شاعری کے وہ بنیاد گذار کہے جاسکتے ہیں ۔
ڈاکٹر اشہد جمال ندوی نے کہا کہ شبلی کی ایک بڑی آرزو خطہ اعظم گڑھ میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کی تھی وہ اسے علم و ادب کا گہوار ہ بنانا چاہتے تھے ۔انھوں نے کہا کہ شبلی کی زندگی کاایک تابناک باب اشاعت اسلام اور حفاظت اسلام کے لیے ان کی تڑپ ہے ۔انھوں نے کہا کہ افرادی قوت،بے لوث قربانی اور ایک نئی تحریک کے ذریعے ہم شبلی کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں ۔
ڈ اکٹر سلمان فیصل نے دارالمصنفین اور متحدہ ہندوستانی قومیت کے موضوع پراظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک کثیراللسان اور کثیر المذاہب ملک ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوے دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کی حصولیابیوں کا جائزہ لیا جائے تو متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کو اپنانے اور اس کو باقی رکھنے میں یہ ادارہ سرفہرست ہے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی نے صرف اسلامی لٹریچرہی نہیں تیار کیا بلکہ ہندوستان اور ہندوستانیت کے موضوع پر بھی ایک وقیع لٹریچر علمی دنیا کے سامنے پیش کیا۔ 
موقع پر ڈاکٹر محمد اکرم السلام اور ڈ اکٹر جمشید احمد ندوی نے عربی زبان وادب میں علامہ شبلی اور شبلی اکیڈمی کے اختصاص کو واضح کیا اور بتایا کہ علوم اسلامیہ کا ایک بے حد وقیع خزانہ اردو زبان میں شبلی اکیڈمی کی رہین منت ہے ۔
ابتدا میں ڈاکٹر عمیر منظر نے اکیڈمی کی ابتدائی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارے بزرگوں کی بے لوث خدمت نے برصغیر کو ایک ایسا ادارہ فراہم کیا جس کی نظیر نہیں ملتی ۔ انھوں نے کہا بزرگوں کے اسی خلوص اور جدوجہد کو ہمیں رہنما بنا نا ہوگا ۔
ڈاکٹر فخر الاسلام اعظمی ،ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی ،پرو فیسر فہیم اختر ندوی ،(صدر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز مانو )پروفیسر خالد ندیم ،ڈ اکٹر امتیاز وحید(کولکتہ)،جناب ابو اسامہ(حیدر آباد ،ڈاکٹر فیصل اقبال (حیدرآباد)،جناب حسان احمد،جناب زبیر احمد فاروقی (کان پور)اویس سنبھلی ،(لکھنؤ)ڈاکٹر ابو ذر متین (علی گڑھ)،ڈ اکٹر انصار احمد (کشمیر)ساجد ذکی ،ڈ اکٹر مقیم احمد (دلی )،ڈاکٹر محمد صفوان صفوی (بہار)،ڈاکٹر شاداب عالم(اڑیسہ) ،ڈکٹر انتظار احمد (بھوپال )ڈ اکٹر بلال اصلاحی ،نوشاد انصاری (نجیب آباد )ڈاکٹر شاہ نواز عالم خاں،مولانا عبید اللہ طاہر مدنی ،جناب طاہر جمال ،ڈاکٹر عبید الرحمن وغیرہ نے شرکت کی ۔