Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 3, 2020

راکھی کے دھاگوں میں بندھی اودھ کی تاریخ، ‏بقل ‏نواب ‏ہندوستانی ‏بہنوں ‏کے ‏علاوہ ‏گایوں ‏کو ‏بھی ‏باندھتے ‏ہیں ‏راکھیاں

نوابین اودھ نے رشتوں کے احساس اور پاس کے لئے نہ صرف اپنے قول و عمل کو تاریخ کا حصہ بنا دیا بلکہ اس دھاگے کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے اپنے ایوانوں اور درباروں کے دوار و دروازے بھی بہنوں کی حفاظت اور امداد کے لئے ہمیشہ کھولے رکھے۔

از/طارق قمر ( نیوز 18 اردو)./صداٸے وقت۔
==============================
لکھنئو۔ اودھ اپنی تہذیب، ثقافت اور مذہبی رسم و رواج کے حوالے سے بھی ایک  ایسی ریاست رہی ہے جس کی کوئی دوسری نظیر نہیں۔ بات اگر رکشا بندھن یا راکھی کے تہوار کے حوالے سے کریں تو اس دھاگے اور بندھن کی تاریخ بھی بہت روشن اور نہایت مضبوط نظر آتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ نوابین اودھ نے رشتوں کے احساس اور پاس کے لئے نہ صرف اپنے قول و عمل کو تاریخ کا حصہ بنا دیا بلکہ اس دھاگے کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے اپنے ایوانوں اور درباروں کے دوار و دروازے بھی بہنوں کی حفاظت اور امداد کے لئے ہمیشہ کھولے رکھے۔
نواب مسعود عبد اللہ کہتے ہیں کہ نوابین اودھ کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ہیں جب نوابوں ، شاہوں اور تعلق داروں نے اپنی ہندو بہنوں کی عزت ناموس، دولت اور زندگیوں کی حفاظت کے لئے بہترین اور قابل تقلید قربانیاں پیش کی ہیں۔ انہیں راکھی باندھ کر جاگیریں بھی عطا کیں ، مندروں  کی تعمیر کے لئے زمینیں بھی دیں اور دولت و ثروت کے نذرانے پیش کرکے ہندوستان کی قدیم تہذیب کو اپنے عوامل اور عظیم اخلاقی رویوں سے مالا مال کردیا۔

معروف گلوکارہ سنیتا جھِنگرن جب راکھی کی اہمیت اور اپنے مسلم بھائیوں کے عملی رویوں اور ناقابل فراموش سلوک کا ذکر کرتی ہیں تو پورے اودھ کی تہذیب ان کے محبت بھرے آنسووں میں شرابور ہو جاتی ہے۔ سنیتا کہتی ہیں کہ لکھنئو کے مسلم بھائیوں نے سگے بھائیوں سے زیادہ پیار دیا ، سوت کے کمزور دھاگے کو اپنی محبت، سرپرستی اور طاقت سے زنجیروں کی طرح اتنا مضبوط بنا دیا جس پر رشک کیا جاسکتا ہے فخر ہوتا ہے۔ زندہ رہنے اور جینے  کا حوصلہ ملتا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے تو ان آنسووں کے ساتھ مسکراہٹوں کی آمیزش اس مشترکہ تہذیب کی تصویر کو مزید خوبصورت بناتی ہے۔
معروف لیڈر بقّل نواب تو ہندو بہنوں کے ہی نہیں بلکہ گایوں کے بھی راکھی باندھتے اور بندھواتے ہیں اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ جب ہم اپنی ہندو بہنوں کے تحفظ کے لئے راکھی باندھتے ہیں تو ان کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے گئو ماتا کے بھی راکھی باندھی جانی چاہئے۔
گزشتہ کئی سال سے بقل نواب اپنی ایجاد کردہ یہ انوکھی رسم ادا کرتے آرہے ہیں اور اس میں انُکے ساتھ دیگر مسلم بھائی بہن بھی شریک ہورہے ہیں۔ لکھنئو میں آج بھی رشتوں کی قدر اور احترام کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ یہاں ہندو بہنوں کی کلائی پر تحفظ کے دھاگے باندھنے والے سیکڑوں لوگ اس خوبصورت اور قدیم روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس تہوار کی مقصدیت اور معنویت نے اسے صرف ہندو مذہب کا ہی نہیں بلکہ ان تمام مذاہب کے لوگوں کا تہوار بنا دیا ہے جو رشتوں کے تقدس اور تحفظ میں یقین رکھتے ہیں۔