Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 1, 2020

کشور ‏حدیث ‏کا ‏فرمانروا ‏مولانا ‏ضیإ ‏الرحمٰن ‏اعظمی ‏مدنی



از/ شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی/صداٸے وقت ۔
==============================
اسلامی نظام اور اس کے عالمگیر دستور کی حفاظت کے لئے آغاز اسلام سے ہی خالق حقیقی نے جلیل القدر اساطین علم وفضل  کو اس روئے زمین پرپیدا کیا، جنھوں نے بے پناہ صلاحیتوں اور حیرت انگیز قربانیوں کے ذریعے کارناموں کی ایک دنیا آباد کی، ان عباقرہ زماں نے جس طرح جہد مسلسل اور  بے نظیر جاں فشانیوں کے باعث اسلامی علوم خصوصا اسلامی عمارت کے دوسرے بنیادی ستون،اقوال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،یعنی  علم حدیث کی حفاظت وصیانت کی ہے' اس کی نظیر دنیا کے کسی دوسرے ادیان میں نہیں ملتی۔ علم حدیث کے ان فرزانوں نے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ایک اک لفظ کے حصول کے لیے ہزاروں میل کا سفر طے کیا ہے'، اپنے گھر،دیار اور علاقوں کو خیر باد کہا ہے'، دن کا سکون اور راتوں کی نیندوں کو قربان کیا ہے، علم وتحقیق کے اس کارواں نے کبھی صحرا کی خاک چھانی ہے'تو کبھی دشت و بیاباں میں بے سروسامانی کے عالم میں اپنے قدموں کو آبلہ پا کیا ہے'،  اسی قافلہ فکر وفن کی ایک کڑی عہد حاضر کی نابغہ روزگار شخصیت ،عظیم محقق، اور رفیع المرتبت محدث حضرت مولانا ضیاء الرحمن صاحب اعظمی بھی تھے، جن کے علمی،تحقیقی کارناموں پر علم کی دنیا ناز کرتی ہے'، جن کی گراں قدر حدیث کی خدمات نے انہیں متقدمین محدثین ‌کی صف میں کھڑا کردیا ہے ۔ جنھوں نے  فن حدیث میں وقیع اور ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی تصانیف کے ذریعہ آسمان علم وتحقیق پر کارناموں کی تاریخ رقم کی ہے'، اور اسلام کی عالمگیریت اور آفاقیت کا ماضی کی تاریخ ساز ہستیوں کی طرح اس عہد میں ایک بار پھر روشن ثبوت پیش کیا ہے۔ 
 اسلام کی یہ جامعیت اور اس کے نظام کی آفاقیت کا اثر ہے'کہ ہر دور میں معاندین اسلام نے جب جب بھی خالی الذہن ہو کر اور انصاف کے ساتھ اس کی تعلیمات پر غور کیا ہے'، انہیں اس کے اندر دنیا کے علاوہ آخرت کی کامیابی اور کامرانی کا راستہ نظر آیا ہے'، یورپ کے آغاز ارتقاء کے ساتھ ساتھ جہاں اسلام کے نظام کو مسخ کرنے کی سرگرمیاں شروع ہوئیں وہیں مادی لحاظ سے اس ترقی یافتہ قوم میں اسلام کی اشاعت بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے'جس کی بنیادی وجہ اسلامی نظام کا توصیفی نہیں بلکہ سخت تنقیدی مطالعہ،
 اس کی تحقیقات، اس کے بارے میں ریسرچ، اور  تجزیے کا عمل تھا، لیکن تحقیقات کے اسی علمی وفکری دشت میں انہیں غیر شعوری طور یکایک برق کی طرح صداقت کی  روشنی نظر آجاتی ، اور وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوتے رہے،

علامہ ضیاء الرحمن صاحب أعظمی کی زندگی مذکورہ ریسرچ اسکالرز سے مختلف نہیں تھی، قدرت جب اپنے دین کا کام لینا چاہتی ہے تو  خود اسلام  مخالف نظریات کے حاملین کے سینوں کو روشن کرکے اس کی حفاظت کا کام انجام دے دیتی ہے'۔ محدث زماں ضیاء الرحمن اعظمی صاحب کی ذات اس کی انتہائی روشن اور اعلیٰ مثال ہے، وہ ہماری طرح موروثی مسلمان نہیں تھے جس میں اسلام کا جسم تو ہوتا ہے مگر بے روح،
ایمان کا سرمایہ تو ہوتا ہے مگرچٹان جیسے انقلاب آفریں اذعان ویقین کی دولت سے محروم۔

انھوں نے اسلام کو خود سے دریافت کیا تھا، انھوں نے عقلی اور شعوری طور پر اس کے تجربات کئے، ہزاروں اوراق میں دماغ سوزی کی تھی، اسلامی تعلیمات کو گہرائی سے دیکھا تھا،ان کا پوری قوت سے تحقیقی تجزیہ کیا تھا، غور وفکر کی ان راہوں سے گذرنے کے بعد اسلام کو انھوں نے منتخب کیا تھا ،اس لئے ان کی زندگی میں وہی تڑپ وہی سوز اور قلب میں اسلام کی عظمت کے باعث اس کی دعوت وحفاظت کے لئے وہی جذبات اور وہی احساسات کے دریا رواں تھے جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کی صورت میں کبھی آسمان کی نگاہوں نے دیکھا تھا،تاریخ کے اوراق نے جنہیں اپنے دامن میں محفوظ کر رکھا ہے۔

پروفیسر ضیاء الرحمن صاحب 1943ءمیں ہندوستان کے مردم خیز خطہ ضلع اعظم گڈھ کے علمی و ادبی قصبہ بلریاگنج
میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے،فہم وفراست اور بصیرت ودانائی خداداد تھی،دیومالائی داستانوں سے بوجھل ہندو مت  کے غیر معقول وغیر فطری مذہب سے متعلق ان کے دل میں بچپن ہی سے سوالات پیدا ہوتے رہے،چونکہ ماحول کے مطابق ان کی پرورش و پرداخت مشرکانہ فضا میں ہوئی تھی اس لیے غیر شعوری طور پر  اس کے نظریات ذہن وقلب میں پیوست تھے، تعلیم کے معاملے میں  قسمت نے یاوری کی اور انہیں شبلی کالج پہونچا دیا ،جس نے روشنی اور سچائی کے راستے ہموار کردیئے، کہ اعظم گڈھ کی اس تاریخی دانشگاہ میں عصری علوم کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب وتمدن کا رنگ بھی تھا،

چنانچہ اسی کالج کے ایک دوست ماسٹر جنید کی کوششوں سے علاقے کی اہم علمی اور صاحب ورع و  تقوی اور علم وعمل کے حوالے سے مثالی شخصیت حکیم محمد ایوب کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کے کردار واخلاق نے دل پر عظمت کا نقش چھوڑا ،مطالعہ کی وسعت پہلے ہی سے تھی حکیم صاحب نے ہندی میں اسلام کے موضوع پر ایک کتاب برائے مطالعہ عطاکی اس کے مطالعہ کے بعد دل کی دنیا بدلی،اسلام ان کی نگاہوں میں آفتاب نصف النہار کی طرح روشن ہوا اور پھر زندگی اسلام کی اس شاہراہ پر گامزن ہوگئی جہاں قدم قدم پر عظمتوں کے نقوش ملتے بھی ہیں اور قائم بھی ہوتے ہیں، ہمارے ایک رفیق ڈاکٹر ذاکر ندوی نے علامہ سے ایک ملاقات کے دوران ان کے بیان کو اپنے مضمون میں من وعن نقل کیا ہے'مناسب ہے کہ وہ بعینہٖ نقل کردیا جائے پروفیسر ضیاء الرحمن صاحب فرماتے ہیں،، 1959/میں میری عمر کوئی پندرہ سولہ سال رہی ہوگی ایک عزیز دوست ماسٹر جنید صاحب نے کہا کہ تم اس وقت گرمی کی چھٹیوں میں بلریا گنج آئے ہوئے ہو(اس وقت میں شبلی کالج اعظم گڈھ میں زیر تعلیم تھا) چلو حکیم ایوب صاحب سے ملاقات کراتے ہیں
یہ سوچ کر ہمت نہیں ہوئی کہ حکیم صاحب مریضوں میں مشغول ہوں گے ہم کیوں ان کو تکلیف دیں،اور وہ ہمیں کیوں ملاقات کا وقت دیں گے لیکن جنید صاحب کے اصرار نے ہمیں مطب تک پہونچا دیا،یوں تو انہیں پہلے بھی دیکھا تھا لیکن آج دیکھنے میں کچھ اور ہی لگ رہا تھا صورت وسیرت دونوں میں یکتائے روزگار چہرے پر نورانی بارش،اور دل میں شفقت وکرم کا جوش،نظر پڑتے ہی ساری گھبراہٹ دور ہوگئی، جنید صاحب نے میرا تعارف کرایا، اور عرض کیا کہ ان کو ہندی میں اسلام کے متعلق کوئی کتاب پڑھنے کو دے دیں،  ۔۔۔
محترم حکیم صاحب نے ایک چھوٹی سی کتاب،،ستیہ دھرم،،کیادی کہ آسمان وزمین کے خزانے بھی ہیچ لگنے لگے۔
کتابوں کے مطالعے سے مجھے فطری رغبت تھی چنانچہ بڑے شوق سے کتاب پڑھی، اس مطالعہ نے میرے دل کی دنیا ہی بدل دی، مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں اب تک مہیب تاریکیوں میں کھویا ہوا تھا وہ تہ در تہ تاریکیاں چھٹ رہی ہیں،اور پہلی بار روشنی کی کرن دکھائی دے رہی ہیں،اس احساس نے میرے دل میں اس روشنی سے ہمکنار ہونے کی تڑپ پیدا کردی،میں نے اس کتاب کو کئی بار پڑھا،اور ہر بار گرمی شوق دو آتشہ ہوتی گئی،( برقی مضمون ڈاکٹر ذاکر ندوی)

  اس کتاب کے مطالعہ سے پہلے وہ اپنے ہندو مذہب پر بڑی شدت سے اس کی صحت پر یقین بھی رکھتے تھے اور اس پر عمل پیرا بھی، ابتدائی عمر کی منزل میں ہی لوح قلب پر مشرکانہ رسوم اؤر ہندو مذہب کی جو چھاپ ہوتی ہے،ماحول ،اورگھر میں موجود نظریات وافکار کے نقوش جو دل پرمرتسم ہوتے ہیں ان کا مٹنا بہت آسان نہیں ہوا کرتا ہے' اس مرحلے میں تو فرسودہ نظام اور دیومالائی کہانیوں کی غیر معقولیت واضح ہونے کے باوجود بھی انسان کا قدم فطری نظام کی طرف نہیں اٹھ پاتا ہے'،اس کے ارادے کو کبھی معاشرے کی خودساختہ عزت بدل دیتی ہے'تو اعزا کا لحاظ چٹان بن کر کھڑا ہوجاتا ہے، کبھی بھائی بہن اور خاندان کا وقار سد راہ ہوتا ہے تو کبھی والدین کی منت وسماجت اس کے نصب العین اور عزم وہمت کے کوہ گراں کو ریزہ ریزہ کر ڈالتی ہے۔ 

پروفیسر ضیاء الرحمن صاحب کے ساتھ بھی مکمل اسی طرح کی واردات پیش آئیں، انھوں نے دل کی کشمکش اور اضطراب کو دور کرنے کے لئے اپنے سنسکرت کے استاد جو شبلی کالج میں لیکچرار تھے اور وید وگیتآ کے بڑے عالم بھی تھے ان کا سہارا لیا، ان کے سامنے سوالات رکھے، مگروہ انہیں مطمئن نہ کرسکے، اسی دوران خواجہ حسن نظامی کا ہندی ترجمہ ہاتھ آیا اسے پڑھا اور اسلام کے متعلق بہت سارے شکوک وشبہات اس ترجمہ سے رفع ہوئے،  اور اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لینے کا عزم مصمم ہو گیا اور اعظم گڈھ کی ایک مسجد میں ایک استاذ جو درس قرآن کرتے تھے ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوگئے،  چار ماہ تک کسی نہ کسی  طرح پوشیدہ طریقے سے اسلامی عبادات کرتے رھےمگر کب تک؟
آخر ایک روز گھر والوں پر راز فاش ہوا، گھر میں کہرام مچا، بھائی بہنوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، والد جو تجارت کی غرض سے کلکتہ میں رہائش پذیر تھے، وہاں سے آکر انہیں واپس کلکتہ لے گئے، لیکن وہاں بھی اسلام کی روشنی دل سے نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکے، پنڈتوں کے یہاں بھیجا، چھاڑ پھونک کا مسلسل عمل کرایا، مکان کے ایک کمرے میں عرصے تک قید کیا گیا،مگر  ایمان کی روشنی کے ساتھ ظلم کے سمندر میں پوری استقامت کے ساتھ وہ کھڑے رہے، گھر میں ماں اور بہنوں نے کھانا پینا ترک کردیا ،اس عمل سے ایک بار قدم لڑکھڑایا مگر غیب کی مدد نے آپ کو ثابت قدم رکھا،
مجبور ہو کر اہل خانہ نے ظلم وتشدد کے حربے استعمال کئے مگر ظلم کا ہر قدم اور ہر شدت ایمان میں اسی طرح اضافہ کرتی جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں جابران وقت کے جور جفا کے نتیجے میں ایمان ویقین کی شمعیں تیز تر ہوتی رہتیں، اور دشمنان اسلام کے منصوبے ان جیالوں کی ایمانی لہروں کے آگے خاشاک کی طرح بہ جاتے۔

آزمائش کا یہ جانکاہ اور طویل عہد ان کے علمی شوق اور تحقیقی شعلوں کو سرد نہ کرسکا چنانچہ اس دور سے گذر کر انھوں نے جماعت اسلامی کے چند رفقاء کی مدد سے دارلسلام عمر آباد کا رخ کیا،وہاں سے عالمیت کی تعلیم لی، بعد ازاں وہیں سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ لیا چار سال یہاں رہ کر گریجویشن کیا،اس کے بعد ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ میں ایم اے میں داخلہ لیا اور اسی سال ایم اے کا مقالہ انھوں نے عربی زبان اور فن حدیث میں،،ابو ہریرہ فی ضوء مرویاتہ،،
کے عنوان سے لکھ کر اپنی انفرادیت کا ثبوت پیش کیا،  اور امتیازی نمبرات سے ایم اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی، بعد ازاں رابطہ عالم اسلامی سے وابستہ ہوگئے اس دوران جامعہ ازہر قاہرہ سے بھی پی ایچ ڈی کی تعلیم جاری رکھی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عدالتی پہلو پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا استحقاق حاصل کیا۔

ڈاکٹر ضیاء الرحمن صاحب نے آزمائشوں کا طویل دور دیکھا تھا
 ظلم وتشدد کے خوفناک دریا کو عبور کیا تھا، اسلام کے نام پر انہوں نے وطن سے ہمیشہ کیلیے ہجرت کو اختیار کیا تھا، والدین اور اہل خانہ کے ساتھ ساتھ دوست واحباب سے فرقت وجدائی کا غم سہا تھا، ان ساری آزمائشوں نے آپ کے اندر اسلام کی عظمت کے ساتھ ساتھ وقت کی قدر اور اسلامی علوم کی خدمات کا جذبہ بیکراں بھر دیا تھا، قدرت کی طرف سے نظر کی گہرائی، تفہیم کی قوت اور ذہانت وذکاوت کی دولت بھی  قابل رشک حد تک عطا ہوئی تھی،  انھوں نے ان خوبیوں کا اچھی طرح استعمال کیا، 1979ء میں
 جب مدینہ منورہ میں بحیثیت پرفیسر مدینہ یونیورسٹی میں تقرر ہوا تو تاریخ ساز کارناموں کے مواقع بھی میسر ہوئے  ،چنانچہ
 انھوں نے ان مواقع کا استعمال کیا اور فن حدیث میں وہ گراں قدر علمی وتحقیقی خدمات انجام دیں، اس قدر اعلی پیمانے پر مضامین لکھے، ایسی تعلیقات پیش کیں کہ جدید وسائل اور سرمایہ کی فراوانی کے باوجود بھی اکیڈمی اور تنظیموں سے اس سے قبل اس قدر عظیم کام وجود میں نہ آسکا۔

تدریس کے دوران ان کی تالیفات اور مضامین بھی عربی کے ساتھ ہندی زبانوں میں منصہ شہود پر آتی رہیں، ڈاکٹریٹ کے مقالوں کی نگرانی بھی انہیں کے سپرد تھی،اس کے علاوہ دعوتی اسفار کی سرگرمیاں بھی جاری تھیں۔ریٹائر ہونے کے بعد مولانا  اپنی تمام سرگرمیوں سے یکسو ہوکر فن حدیث کی تحریری اور تحقیقی خدمات میں منہمک ہوگئے، اور عربی زبان میں انتہائی اہم کتابیں جو متعدد جلدوں پر پھیلی ہوئی ہیں اہل علم کے سامنے پیش کرکے اپنی عظمت کا سکہ بٹھایا،  
مولانا نے کم وبیش پندرہ کتابیں لکھی ہیں چند کے علاوہ سب عربی زبان میں اور فن حدیث میں ہیں، اور کئی کئی جلدوں پر مشتمل ہیں جوعلمی دنیا میں شہرت و مقبولیت کے آسمان پر پہونچیں ،اہل علم نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا، رشک کی نگاہوں سے دیکھا،شوق کی نظروں سے پڑھا اور استفادہ کیا، متعدد مطابع نے کئی بار انہیں شائع کیا، جن میں ابوھریرہ فی ضوء مرویاتہ،، دراسات فی الجرح والتعدیل،المدخل الی السنن الکبری للبیہقی،دراسات 
فی الیہودیہ والنصرانیہ، المنۃ الکبریٰ شرح وتخریج السنن الصغریٰ للبیہقی سات جلدیں، خاص طور پر قابل ذکر ہیں ،مگر اس حوالے سے ان کی شاہکار تصنیف وتحقیق جس نے آپ کو حدیث میں علمی دنیا میں عبقریت کے مقام پر کھڑا کیا ہے، اور انہیں متقدمین کی صف میں پہونچایا ہے'،
وہ ان کی معرکۃ الآرا کتاب جو بارہ جلدوں میں پھیلی ہوئی ہے،،الجامع الکامل فی حدیث الصحیح الشامل،،ہے اسلامی تاریخ میں یہ پہلی کتاب ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام حدیثوں کو امہات الکتب جیسے مؤطات،مصنفات مسانید وجوامع،صحاح ،سنن اور معاجم،
سے جمع کیا ہے' ،دیار پورپ کی ایک جلیل القدر شخصیت، اور عظیم مصنف ومربی حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے آج سے تقریباً دس سال قبل مدینہ منورہ کے ایک سفر میں
ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی تھی اس وقت ڈاکٹر صاحب اپنے اس منصوبے میں مکمل اہتمام سے سرگرم تھے
اور اس کتاب کے بارے میں انھوں نے تفصیل سے بتایا تھا مولانا اس تحقیق کے بارے میں لکھتے ہیں،،مولانا ضیاء الرحمن صاحب نے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ایک عظیم الشان منصوبہ بنایا اور اس میں یکسوئی کے ساتھ منہمک ہوگئے وہ منصوبہ یہ ہے کہ جہاں جہاں جس کتاب میں صحیح اور حسن مرفوع حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں سب کو یکجا کردیا جائے،یہ کام بہت ہمت طلب،اور پرمشقت ہے'اس کے لئے تمام ذخائر حدیث کا مطالعہ کرنا،ان میں سے صحیح یاحسن مرفوع روایتوں کو تلاش کرنا، پھر ان کی صحت کے متعلق دلائل مہیا کرنا،انہیں مرتب کرنا، ایک طویل اور مسلسل جہد ومشقت
کا عمل ہے'ایک عرصہ ہوا کہ مولانا اسی محنت وکاوش میں لگے ہوئے ہیں،ںہ فرمارہے تھے کہ میری نیت ہے'کہ سب حدیثیں جن کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے اور وہ صحت کے ساتھ ثابت ہیں،اور جو دین کی بنیاد ہیں،میں یکجا کرکے حضور اکرم کی خدمت میں پیش کردوں اس واسطے سے حضور اکرم کی صحبت میں میری حاضری ہوجائے اور اللہ کی رضا حاصل ہوجائے (علوم و نکات صفحہ 334) 

مذکورہ اقتباس سے مولانا ضیاء الرحمن صاحب کے اس کارنامے اور گراں قدر تحقیقی اور تاریخ ساز خدمت حدیث کی اہمیت،حیثیت اور عظمت کو سمجھا جا سکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اگر مولانا ضیاء الرحمن صاحب کی اور کوئی تدریسی،تالیفی اور تصنیفی فتوحات نہ بھی ہوتی تو بھی صرف یہی ایک عظیم الشان کارنامہ تنہا آپ کے بلند مقام، شخصی عظمت اور علمی رفعت کے لئے کافی ہوتا۔

ان کے دل میں اسلامی علوم کی عظمت کے ساتھ ساتھ علماء وصالحین کی الفت ومحبت شمع کی طرح روشن رہتی تھی، اپنے فکری محسنوں کی محبت سے ان کا وجود سرشار رہتا تھا،حکیم ایوب جنھوں نے سب سے پہلے انہیں اسلام کی شاہراہ دکھائی تھی ان کے ذکر سے وہ عالم کیف میں پہونچ جاتےتھے ، علمی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے پاس ایک لمحہ کے لئے بھی کسی سے ملنے کی گنجائش نہیں تھی مگر یہ علماء امت کی محبت ہی تھی کہ خندہ پیشانی سے وہ اہل علم اور اہل شوق سے ملتے تھے اور انہیں فیضیاب ہونے کا موقع فراہم کرتے تھے،  

حکیم ایوب مرحوم کی وفات پر حضرت مولانا اعجاز صاحب نے تاثراتی مضمون لکھا تھا اس پر آپ نے نہایت خوشی کا اظہار کیا اس مضمون کو رسالہ ضیاء الاسلام جو شیخوپور سے نکلتا تھا اسے منگوا کر پڑھا،  مولانا اعجاز صاحب کی ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات تھی اور اس پہلی ہی ملاقات میں انھوں نے محبت والفت، اخلاق وضیافت اور علم وعلماء نوازی کا ایک خوشگوار اثر ذہن ودل کی تختی پر قائم کردیا۔جس کا ذکر حضرت مولانا اعجاز صاحب اعظمی نے بڑے والہانہ انداز میں اپنی تحریر میں کیا ہے، 

بےشمار انسان دنیا میں گمنامی کی تاریکیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور محدود وقت گذار کر اسی گمنام اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں مولانا ضیاء الرحمن صاحب بھی ایک عام گھرانے میں اسی طرح گمنام پیدا ہوئے تھے مگر جب وہ رخصت ہوئے تو علمی دنیا سوگوار ہو کر رہ گئی، تحقیق کے ایوانوں میں سناٹوں کی فضا قائم ہوگئی، دانشگاہ وقت کی فضائیں ماتمی کیفیات میں بدل گئیں ، علم وفضل کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا

حضرت مولانا ضیاء الرحمن صاحب کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی،انھوں نے اسلاف کی طرح ایک اک لمحے کو استعمال کیا، تحفظ حدیث کے لئے انہوں نے پوری زندگی وقف کردی، اور اس پر مشقت راہوں کو طے کرتے ہوئے جب منزل آشنا ہوئے تو ان کے ہاتھوں میں علمی فتوحات کے وہ خزانے تھے جس نے ان کی زندگی کو تاریخ کے اوراق پر رقم کرکے انہیں دوام آشنا کردیا۔ یہ مولانا کی قسمت کی خوبی تھی کہ انہیں ابتدا ئے اسلام ہی سے جوار رسول میسر ہوا اور جب عمر کا آخری وقت آیا تو بھی انہیں طیبہ کی سرزمین مقدر ہوئی، 30/جولائی کا دن علمی حلقوں کے لئے اس لحاظ سے یادگار رہے گا کہ اسی تاریخ میں افق حدیث کے اس ماہتاب نے عالم بقا کی طرف رخت سفر باندھا۔
اللہ تعالیٰ ان کی تربت پر رحمتوں کی بارش برسائے۔

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار گوونڈی ممبئی