Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 22, 2020

شوق۔۔۔۔۔۔۔

تحریر /حمزہ فضل اصلاحی /صداٸے وقت۔
============================= 
 گاؤں میں ان دنوں ندی اور تالاب   چھلک رہے ہیں جس سے پانی کے ساتھ ساتھ مچھلیاں بھی ادھر ادھر  آجارہی ہیں ۔ اطراف کے کھیتوں میں بھی مچھلیاں آگئی ہیں ۔ میں گزشتہ دنو ں اپنے  آبائی گاؤں منجیر پٹی میں گھر سے نکلا ۔ دوپہر کا وقت تھا۔ گاؤں کی پوکھری کی قریب  بہت سے لڑکے مچھلی کا شکار کر رہے تھے جن میں میرے بچپن کا ایک ساتھی بھی تھا ، وہ بھی دوسرے بچوں کے ساتھ مچھلیاں پھنسا رہا تھا۔ سب درخت کے سایے  میں ایک پلیا پر بیٹھے تھے  جہاں ہوائیں بھی چل رہی تھیں ۔ گرمی کا نام ونشان نہیں تھا ۔  ایسا سہانا موسم دیکھ کر میں بھی وہاں گھڑی دو گھڑی کیلئے بیٹھا مگربیٹھنے کے بعد بہت دیر تک وہیں بیٹھا رہا ۔ موسم بھی اچھا تھا ، وہاں عجیب طرح  کی فرحت اور تازگی تھی ۔  اس محفل کی باتیں بھی دلچسپ تھیں  ۔ باتوں ہی باتوں میں   نے اپنے بچپن کے ساتھی سے پوچھا ’’: یا ر! اس دوپہر میں یہاں کیا کررہے ہو؟  ‘‘ اس نےبتایا :’’ اپنے لئے نہیں.. باز پالاہوں ،اسی باز کیلئے مچھلیاں پھنسا رہا ہوں ۔‘‘ میں نے پوچھا :’’  باز زندہ مچھلیاں کھاتے ہیں ۔ یہ گھرپہنچتے پہنچتے مر جائیں گی ، کیا باز مر دہ مچھلیا ں بھی کھاتا ہے ؟‘‘ اس نے جواب دیا :’’ ہاںکھا تا ہے ، بس تازہ ہوں ، کھا لے گا ۔ ‘‘
                   علامتی تصویر

  میرےعلم میں اضافہ ہوا ۔ ایک نئی معلومات  ملی۔ اس کے قریب ایک اور نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بھی پورے انہماک سے مچھلی کا شکار کررہا تھا ۔ اس سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ بھی اپنے  پالتوباز کیلئے مچھلیاں پھنسا رہا ہے ۔ خیر آپ کوئی بھی شوق پالیں ، اس میں یہ سب کرنا ہی ہو تا ہے  ، خیر یہ تو باز پالنے کا شوق ہے ۔ یہ بھی کہاجاتا ہےکہ شوق کا کوئی مو ل نہیں ۔  یعنی اس میں کوئی منطق   اور کوئی دلیل نہیں چلتی  ۔ 
   وہاں بہت ساری باتیں ہوئیں ، ہنسی مذاق  ہوا ۔ قریب میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے جو اپنی ننھی ہتھیلیوں سے مچھلیاں پکڑ رہے تھے ۔  اس میں انہیں کامیابی بھی ملتی تھی ۔ کچھ  بچے ’مچھلی کے بچے‘ پکڑ  رہے تھے  جنہیں  وہ  پانی سے بھری بالٹی میں ڈال رہے تھے۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ  پالنے کیلئے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں۔   
  وہاں بڑی مچھلی پکڑنے  پر شو ر ہوتا تھا ۔ سب بچے جمع ہو کر  دیکھنے لگتے تھے۔ پکڑنے والے کو داد بھی دیتے تھے۔ مچھلی دیکھ کر حیرت کا اظہار بھی کرتے تھے ۔ اسے ہاتھوں سے چھو کر دیکھتے بھی تھے اور مچھلی کےپھسلنے پر  اسے دوبارہ پکڑنے کی کوشش کرتے تھے  ۔ کچھ بچے اکا دکا مچھلیاں ہی پکڑ کرخوش تھے ۔ یہ مچھلیاں اتنی تھیں کہ انہیں پکا یا نہیں جا سکتا ہے۔  میں نے  ان بچوں سے پوچھا : ’’ بھائی  یہ ایک دو مچھلیاں کیا کرو گے ؟‘‘ وہ کہنے لگے :’’ ارے یہ’ بھٹی ‘( مچھلی  کی ایک قسم )ہے ، ایک مچھلی بیس روپے میں ملتی ہے۔  اس سے ندی کی بڑی مچھلی پھنسائی جاتی ہے۔ ہم بھی پڑیھنا( مچھلی کی ایک قسم ) پھنسائیں  گے ، ’لپکا ‘ لگائیں گے ۔  ۲۰؍ کی مچھلی سے۵۰۰؍ یا  ۶۰۰؍کا مال پھنسا ئیں گے ۔‘‘
   یہ کہنابہت آسان ہے مگر ۵۰۰؍ یا ۶۰۰؍ روپے کی مچھلی اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں آتی ہے ۔ رات میں ندی کے کنارے جا نا پڑ تا ہے ۔ پھر صبح صبح  ندی جاناپڑتا ہے۔ رات میں  مچھلی چوری ہونے کا بھی ڈر رہتا ہے۔کبھی مچھلی ملتی ہے کبھی نہیںملتی ہے ۔ 
 باتوں ہی باتوں میں میرےبچپن کے ساتھی  نے یہ بھی بتایا :’’ یا ر اسی بھٹی مچھلی کیلئے آج  ایک لڑکا  اعظم گڑھ سے سلطانپور گیا ہے ۔ اپنی کار  سے گیا ہے ،    اچھا خاصاپیٹرول جل جائے گا  ،  بس اسی کا نام شوق ہے ۔ ‘‘       واضح رہے کہ اعظم گڑھ ضلع سے سلطانپو ر ضلع تقریباًڈیڑھ سو کلو میٹر دور ہے۔ واقعی مچھلی مارنے کا شوق ایسا ہی ہوتا ہے ۔  بہت سارے لوگ دن بھر مچھلی کا شکا ر کرتے ہیں ، بھوک پیاس کی بھی پروا نہیں کرتےہیں  ۔  
 -حمزہ فضل اصلاحی