Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 11, 2020

ذراٸع کی تزٸین ، اصل سے گریز ۔۔۔


/از/ کامران غنی صبا، شعبہ اردو نتیشور کالج، مظفرپور ./صداٸے وقت ۔

=============================

نہ جانے کیوں خوب صورت تحریریں مجھے منھ چڑاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں. سجے سجائے الفاظ آنکھوں سے ہوتے ہوئے دل تک نہیں پہنچ پاتے. بہت کم ہی لوگوں کی تحریریں متاثر کر پاتی ہیں. ادبی تحریریں تو جزوقتی ہی سہی تسکین ذوق کا سامان فراہم کر دیتی ہیں لیکن مذہبی تحریریں، ناصحانہ فیس بک پوسٹ اور واٹس ایپ اسٹیٹس دیکھنے کے بعد کئی دفعہ میرے اندر کا کمزور سا فرشتہ بغاوت پر آمادہ ہونے لگتا ہے. بات دراصل اتنی ہے کہ پہلے میں لفظوں پر ایمان رکھتا تھا لیکن ایک مدت بعد مجھے یہ انکشاف ہوا کہ لفظوں کی اپنی کوئی اہمیت ہی نہیں. ایک ہی لفظ یا ایک ہی جملہ الگ الگ وقتوں اور حالتوں میں الگ الگ افراد کے ذہن پر الگ الگ اثرات مرتب کرتا ہے. 

اب مثال کے طور پر آپ اپنے گھر میں بیوی بال بچوں سے کہیے کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے. آپ جانتے ہیں ان کا رد عمل کیسا ہوگا؟ یقینی سی بات ہے وہ آپ سے بے انتہا خوش ہوں گے کہ میرا شوہر، میرا باپ مجھے کتنا مانتا ہے. اب اسی ایک جملے کو راہ چلتی کسی اجنبی عورت سے کہہ کر آزما لیجیے. ریزلٹ جو بھی آئے بتاییے گا ضرور.

مجھے یاد ہے ایک بار میرے بھائی کا فون ملسل رنگ کر رہا تھا. غالباً وہ نہا رہا تھا. جب پے در پے لگاتار گھنٹی بجتی رہی تو آخر کار والد صاحب نے فون اٹھا لیا. دوسری طرف سے آواز آئی "ابے کہاں تھا اتنی دیر سے، کب سے فون کر رہا ہوں". والد صاحب نے صرف اتنا ہی کہا کہ "تمہارا دوست ابھی نہا رہا ہے"......... پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی.

جی. تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ تنہا لفظوں کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہوتی. اہمیت تعلق اور رویہ کی ہوتی ہے. الفاظ صرف ذریعہ ہیں اور "ذرائع" کی تزئین اس وقت تک اہمیت نہیں رکھتی جب تک "فوق الذرائع" اپنی اصل میں خالص نہ ہوں. اسے ایک مثال سے سمجھیے. برتن ایک ذریعہ ہے. جس کے استعمال کے بغیر آپ نہ تو کھانا بنا سکتے ہیں اور نہ کھا سکتے ہیں. یعنی کھانا بنانے سے لے کر کھانے تک آپ کو برتن کا مرہون منت ہونا ہے. اب ذرا تصور کریں کہ آپ کسی کے گھر مہمان ہیں. وہاں آپ کو ناشتے کے لیے بلایا جائے اور دسترخوان پر طرح طرح کے قیمتی برتن سجا دییے جائیں لیکن سارے برتن خالی ہوں. یا برتن جتنے عمدہ اور دیدہ زیب ہوں اس میں رکھی کھانے کی چیزیں اتنی ہی بے مزہ اور خراب ہوں. کیا صرف برتنوں کی تزئین کاری سے آپ کی بھوک مٹ جائے گی؟ یعنی معلوم یہ ہوا کہ ذرائع کی تزکین کاری سے زیادہ اہمیت اصل کی تزئین کاری کی ہے.

بات الفاظ کی ہو رہی تھی کہ الفاظ کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہوتی. الفاظ تو صرف ذریعہ ہیں. برتن کی طرح. اہمیت تعلق اور رویے کی ہوتی ہے. اک شخص بہت ہی اچھے انداز میں آپ سے قرض کا مطالبہ کرے. اس کے الفاظ میں ظاہری طور پر ہی سہی درد ہو، اضطراب ہو. بہت ممکن ہے آپ اسے قرض دینے سے انکار کر دیں اور ایک دوسرا شخص کچھ نہ بولے اور آپ اس کی مدد کے لیے پریشان ہو اٹھیں. پہلے والے شخص کے الفاظ ضائع ہو گئے. دوسرے نے کچھ نہیں کہہ کر بھی آپ کی توجہ حاصل کر لی. آپ نے غور کیا کہ ایسا کیسے ہو گیا؟ دراصل پہلے والے شخص کے صرف "ذریعہ" میں تزئین تھی. آپ سے اس کے سابقہ تعلقات اور رویے میں کہیں کوئی ایسی کمی تھی کہ اس کے الفاظ ضائع ہو گئے. دوسرے شخص نے کچھ نہ کہہ کر بھی آپ کی توجہ اور محبت حاصل کر لی. یہ بھی کوئی اچانک سے نہیں ہو گیا بلکہ آپ سے اس کے سابقہ تعلقات اور رویے نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ اس کی مدد کریں.

اب آییے میں اپنے اصل مدعا کی طرف آتا ہوں. ہم سوچتے ہیں کہ واٹس ایپ پر ناصحانہ اسٹیٹس لگا کر، لفظوں کی کہکشاں سجا کر، منبر خطابت سے زورِ خطابت دیکھا کر زمانے میں انقلاب برپا کر دیں. یعنی ہم "ذرائع" کی آرائش پر توجہ تو دیتے ہیں لیکن "اصل" کی آرائش کو بھول جاتے ہیں. سیرت رسول کا مطالعہ کیجیے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مدت صرف تعلق اور رویہ کی آرائش میں لگا دی. یہاں تک کہ بچے بوڑھے جوان سب آپ کی عظمت کے معترف ہو گئے. تب کہیں جا کر دھیرے دھیرے آپ نے وعظ و نصیحت اور باضابطہ تبلیغ دین کا کام شروع کیا.

ذرائع کی تزئین اسی وقت اہمیت رکھتی ہے جب "اصل" خالص ہو. ہم خوبصورت ریپر میں گھٹیا چیزیں بہت دنوں تک نہیں بیچ سکتے. حقیقت عیاں ہونے کے بعد ہمیں اس کمپنی، اس کے ریپر، اس کے نام سے نفرت ہونے لگتی ہے. ہمارے الفاظ آج اپنی معنویت اسی لیے کھو رہے ہیں کہ ہم نے "اصل" کو پس پشت ڈال دیا ہے صرف ریپیر کی تزئین کر رہے ہیں.