Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 20, 2020

ہجرت ‏کا ‏پیغام۔۔۔۔۔



از / ختر سلطان اصلاحی/ صداٸے وقت ۔
=============================
ہجری سال نو کا آغاز ہوا چاہتا ہے. 1442 ہجری کی آمد ہو چکی ہے. نئے اسلامی سال کی آمد پر ہر مسلمان کو ہجرت کے عظیم تاریخی واقعے، اس کی تفصیلات اور اس کے پیغام سے واقف ہونا اور اسے دوسروں تک پہنچانا انتہائی اہم ہے.
ہجرت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا نقطہ انقلاب ہے. یہی وہ اقدام تھا جس کے بعد تحریک اسلامی کا پودا ایک تنا ور درخت کی شکل اختیار کرسکا.مکہ میں پیارے رسول اور مسلمان تیرہ سال تک  طرح  طرح کے مسائل سے نبرد آزما تھے، دین پر عمل آوری ہاتھ میں انگارے لینے جیسا تھا، کفار و مشرکین پیارے نبی اور مسلمانوں پر ہر ظلم و ستم آزما چکے تھے.مگر ان کے ہر ظلم و ستم کے باوجود تحریک اسلامی کا پودا پھل پھول رہا تھا، اس کے سایہ روح پرور تلے پناہ لینے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی تھی.
کفار دعوت اسلام کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کر چکے تھے. اب وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ داعی اسلام کا قصہ ہی تمام کردیا جاے. انھوں نے اس کے لیے آخری منصوبہ بھی تیار کر لیا تھا.
ایسے وقت میں پیارے رسول اور صحابہ نے جس صبر و برداشت اور جرات کا مظاہرہ کیا، دین پر جمے رہے، کہیں پر رتی برابر مداہنت نہ کی. جب حالات انتہائی سخت ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اپنے دین کے تحفظ کے لیے سرزمین مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی.
 ہجرت مدینہ کے اس واقعے میں راہ حق کے ہر راہی  کے لیے بڑا سبق ہے. ہم میں سے  ہر فرد کو ان واقعات کا بالاستعیاب مطالعہ کرنا چاہیے. 
ہجرت کے اس واقعے سے ہمیں درج ذیل نمایاں اسباق ملتے ہیں.
1.دین اور شریعت کا تحفظ سب سے اہم چیز ہے، اگر حالات بہت سخت ہوں تب بھی صبر اور برداشت سے کام لیتے ہوے دین پر عمل کرنا ضروری ہے. بے جا اندیشوں اور تحفظات کی وجہ سے اپنے نقطہ نظر اور موقف سے پیچھے ہٹنا ایک مومن کی شان کے خلاف ہے.
مکہ میں کفار نے پیارے نبی کے سامنے بہت سے مطالبات رکھے مگر آپ نے کبھی توحید اور پیغام ربانی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا.ہر طرح کی لالچ دی گئی مگر آپ نے کبھی نرم رویہ نہیں اختیار کیا. کسی طرح کی سودا بازی نہ کی. اپنے اصولوں سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا. 
2.اگر کسی مقام پر شریعت پر عمل آوری ممکن نہ ہوتو ہجرت کر جانا ضروری ہے. چاہے اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑی. اپنے مال و متاع، کاروبار، گھر بار کی محبت کی وجہ سے کسی ایسی جگہ زندگی گزارنا جہاں شریعت پر عمل آوری مشکل ہو درست نہیں ہے. 
3.ہجرت کوئی آسان عمل نہیں ہے. اس کے نتیجے میں مہاجر کو اپنا گھر، خاندان، علاقہ، اعزاو اقرباء. دوست احباب. زمین جائیداد، تجارت اور کاروبار ہر چیز ترک کرنی ہوتی ہے. پیارے رسول اور صحابہ نے ہر چیز چھوڑ دی. جمے رہے تو بس اپنے دین اور شریعت پر. مگر جو لوگ اپنے دین کے تحفظ کے لیے یہ سب برداشت کرتے ہیں اللہ ان کی دستگیری کرتا ہے اور آسانیاں پیدا کرتا ہےجیسا کہ مدینے میں ہوا.

4.مہاجر کے ساتھ اللہ کی نصرت اور تائید ہوتی ہے. رسول کریم صلی اللہ علیہ وصلم  نے مدینے کی طرف ہجرت کی تو ہر مقام پر اللہ کی مدد اور تائید سامنے آئی.
5.ہجرت کے نتیجے میں  نئے علاقے اور نئے رفقاء میسر آتے ہیں. ہو سکتا ہے کہ وہ پرانے علاقے کے لوگوں کے بالمقابل اہل حق کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوں اور وہاں دین وشریعت کے لیے حالات سازگار ہوں جیسا کہ مدینہ میں ہوا.
6.مدینے کے انصار نے مکہ سے آنے والے اپنے مہاجر بھائیوں کا جس طرح والہانہ استقبال کیا، ان کی ہر ممکن مدد کی، انھیں اپنے حقیقی بھائیوں کی طرح عزیز رکھا یہ بھی تاریخ کا ایک روشن باب ہے. مہاجرین کے ساتھ نئے وطن میں کیسا برتاو ہونا چاہیے دنیا میں اس سے بہتر دوسری کوئی مثال نہیں مل سکتی. انصار کا مثالی کردار ہمیشہ ہمارے سامنے ہونا چاہیے. باہر سے آنے والے اہل ایمان بھائیوں کے ساتھ ہمارا رویہ محبت اور ہمدردی کا ہونا چاہیے اور جس حد تک بھی ممکن ہو ان کی مدد اور دستگیری کرنی چاہیے. 
7.پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا یہ واقعہ ہمیں اس امر کی بھی یاد دلاتا ہے کہ دین کے لیے ملک ووطن چھوڑنا نبیوں کی سنت ہے. ہمیں وقت آنے پر اس سنت کی
بجا آوری کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے.
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہر طرح کے شروروفتن سے ملک و ملت کی حفاظت فرمائے. آمین
...................................
اختر سلطان اصلاحی۔صدر انجمن تعمیر اخلاق مہاراشٹرا۔۔کھیڈ ۔رتناگیری۔
رانطہ۔/موباٸل۔۔۔9223240929.