Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 20, 2020

اور ‏پرشانت ‏بھوشن ‏نے ‏جھکنے ‏سے ‏انکار ‏کردیا۔

*اور پرشانت بھوشن نے جھکنے سے انکار کردیا*

ایم ودود ساجد

سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور حقوق انسانی کے علمبردار پرشانت بھوشن کو گزشتہ 14 اگست کو توہین عدالت کا قصوروار قرار دے دیا گیا تھا۔۔آج کا دن انہیں دی جانے والی سزا پر بحث کیلئے مقرر تھا۔۔ پرشانت بھوشن نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ وہ 14 اگست کے سہ رکنی بنچ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنا چاہتے ہیں اس لئے ان کی سزا کے اعلان کو اپیل دائر کرنے کیلئے دی گئی 30 دن کی مدت تک کیلئے موقوف رکھا جائے۔۔۔ لیکن جسٹس ارون مشرا کی قیادت والی بنچ نے اس درخواست کو مسترد کردیا۔۔۔ اس سے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ بنچ آج ہر حال میں سزا کا اعلان کرنا چاہتی ہے۔۔۔لیکن اس کے بعد صورتحال نے کروٹ لی اور بنچ سزا کا اعلان نہ کرسکی۔۔۔۔ 

پرشانت بھوشن کے وکیل راجیو دھون نے عدالت سے پوچھا کہ انہیں پہلے یہ بتایا جائے کہ پرشانت کے دو متعلقہ ٹویٹ سے کس طرح عدالت کی توہین ہوتی ہے؟ ۔۔۔ اس پر بنچ نے کہا کہ پچھلی سماعت میں خود آپ نے ہی پرشانت بھوشن کے ذریعہ دائر حلف نامے کے شروع کے 40 صفحات پر بات نہ کرکے اگلے صفحات سے بات کرنے کی استدعا کی تھی۔۔۔ راجیو دھون نے کہا کہ میں نے ایسا اس لئے کیا تھا کہ ابتدا کے صفحات میں جو کچھ لکھا ہے اسے سن کر عدالت کی سبکی ہوتی۔۔۔ بہر حال ایک دو مکالموں کے تبادلہ کے بعد جب راجیو دھون نے پرشانت بھوشن کے حلف نامہ کے اس حصہ پر بات کرنی شروع کی جس میں سپریم کورٹ کے بعض سابق جج حضرات کا نام لے کر ان کے کرپشن شمار کرائے گئے تھے تو جسٹس مشرا نے راجیو دھون کو یہ کہہ کر روک دیا کہ یہ تو بہت خطرناک ہے۔۔۔ 

یہاں سے پھر اِس داستان نے موڑ لیا۔۔۔ بنچ نے پرشانت بھوشن کوسوچنے کے لئے کچھ وقت دینے کی خواہش ظاہر کی۔۔۔ اس پر راجیو دھون نے کہا کہ پرشانت بھوشن نے جو کچھ بھی لکھا اور کہا ہے وہ سوچ سمجھ کر کہا ہے۔بنچ نے پھر کہا کہ نہیں سوچنے سمجھنے کے لئے دو تین دن کا وقت لے لیجئے تاکہ کل کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں وقت نہیں دیا گیا۔۔۔ اس پر پرشانت بھوشن نے کہا کہ سوچنے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں۔۔۔۔ میں اپنا موقف تبدیل نہیں کرسکتا۔۔۔۔ میں بخوشی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں لیکن میں نے جو کچھ کہا ہے وہ عام ہندوستانیوں کی آواز ہے اور اس آواز کو میں بدل نہیں سکتا۔۔۔۔ 

عدالت نے پرشانت بھوشن کو پھر بھی تین دن کا وقت دے دیا۔اس پر پرشانت بھوشن نے کہا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اس سے عدالت کا وقت ہی ضائع ہوگا۔۔ میں غور کرنے کو تیار ہوں لیکن کوئی اہم تبدیلی ناممکن ہے۔۔۔ اس موقع پر یہ بتانا ضروری ہے کہ عدالت میں آج ہندوستان کے اٹارنی جنرل کو بھی بولنے کا موقع دیا گیا۔لیکن جیسے ہی انہوں نے بولنا شروع کیا اور عدالت سے استدعا کی کہ پرشانت بھوشن کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ نہیں بنتا اورانہیں سزا دئے جانے سے عدالت کا وقار کم ہوگا تو جسٹس مشرا نے انہیں مزید بولنے سے روک دیا۔۔۔ قانونی پوزیشن یہ ہے کہ پرشانت بھوشن کے خلاف مقدمہ شروع کرنے سے پہلے اٹارنی جنرل کی منظوری ضروری تھی لیکن عدالت نے کہا کہ انہیں از خود نوٹس لینے کے لئے اٹارنی جنرل کی منظوری کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔ 14اگست کو بھی اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال سماعت کے دوران موجود تھے اور پرشانت کے وکیل راجیو دھون نے کئی بار عدالت سے کہا کہ اٹارنی جنرل سے بھی ان کی رائے لی جائے لیکن عدالت نے انہیں موقع نہیں دیا۔۔۔۔ 

دراصل عدالت چاہتی تھی کہ پرشانت بھوشن اپنے ٹویٹ کے لئے معافی مانگ لیں۔۔۔۔لیکن اس کے لئے تو پرشانت بھوشن 14 اگست کو ہی انکار کرچکے تھے۔۔۔۔ آج بھی انہوں نے انکار کردیا۔۔۔۔پروفیسر یوگیندریادو نے کہا کہ جب پرشانت بھوشن عدالت سے وقت مانگتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ابھی سنوائی کو کچھ وقت کے لئے ٹال دیا جائے تو عدالت بضد تھی کہ سنوائی کو نہیں ٹالا جاسکتا۔۔۔۔ لیکن آج جب پرشانت بھوشن کہہ رہے ہیں کہ وہ سزا بھگتنے کے لئے تیار ہیں تو عدالت انہیں وقت دے رہی ہے۔۔۔۔ 

واقعہ یہ ہے کہ پرشانت بھوشن نے اپنے دفاع میں سپریم کورٹ میں جو 140صفحات کا جواب داخل کیا تھا اس میں خیال کیا جاتاہے کہ کچھ بہت ہی سخت قسم کے الزامات عاید کئے گئے ہیں۔ اس کا کچھ اشارہ پرشانت بھوشن نے 13 اگست کو ایک پریس کانفرنس کرکے دے بھی دیا تھا۔انہوں نے اپنے حلف نامے کے حوالہ سے کہا تھا کہ جب دہلی میں فسادات ہو رہے تھے تو سپریم کورٹ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔۔۔اس کے علاوہ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ ہندوستان میں جمہوریت کی بربادی کی تاریخ لکھنے والا جب  پیچھے مڑ کر دیکھے گا تو اسے سپریم کورٹ کا کردار بھی نظر آئے گا۔انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ (ان چھ سالوں میں برسرکار رہنے والے) آخری چار چیف جسٹس کا کردار بھی وہ لکھے بغیر نہیں رہ سکے گا۔یہی وہ ٹویٹ تھا جس پر عدالت نے ان کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ از خود نوٹس لیتے ہوئے شروع کیا تھا۔

مجھے حیرت ہے کہ آج صبح ساڑھے دس بجے سے ایک بجے تک چلنے والی عدالتی کارروائی کی کوئی لمحہ بہ لمحہ خبر کسی چینل پر نہیں چلی۔۔۔ لمحہ بہ لمحہ نہ سہی کارروائی کے اختتام پر بھی کوئی تفصیلی خبر نہیں چلی۔۔۔ لیکن پرشانت بھوشن کا معاملہ شاید آزاد ہندوستان کی عدلیہ کی تاریخ کاایسا پہلا معاملہ ہوگا کہ جس میں پورا ملک ان کی پشت پر ہے۔۔۔۔ 

یہ بھی تاریخ میں حیرت کے ساتھ لکھا جائے گا کہ پرشانت بھوشن نے دو برس پہلے چیف جسٹس آف انڈیا کو لکھ کر دیا تھا کہ میرے مقدمات جسٹس ارون مشرا کی بنچ میں نہ لگائے جائیں چونکہ مجھے ان سے انصاف کی توقع نہیں ہے مگر اس کے باوجود نہ صرف بہ حیثیت وکیل ان کے مقدمات جسٹس مشرا کی بنچ کو سونپے جاتے رہے بلکہ بہ حیثیت ملزم بھی انہیں جسٹس مشرا کی عدالت کے ہی کٹگھرے میں کھڑا کر دیا گیا۔۔ 2019 میں بار ایسو سی ایشن کے صدر اور سینئر وکیل دشینت دوے نے انڈیا ٹوڈے میں شائع ایک مضمون میں الزام عاید کیا تھا کہ جسٹس ارون مشرا کے بی جے پی اور اس کے لیڈروں سے قریبی تعلقات ہیں۔۔۔۔ 
بہر حال انصاف کی ایسی "دُرگت" کبھی ہم نے نہ دیکھی تھی۔۔۔ آج کی کارروائی پر پوری دنیا میں نظر رکھی جارہی تھی۔۔۔ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں رضاکار سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر سپریم کورٹ میں ہونے والے مکالمات پر "رننگ کمنٹری" کر رہے تھے اور دنیا کے متعدد ممالک میں مقیم ہندوستانی اس پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔۔۔ میں نے دو روز قبل ہی پرشانت بھوشن کو لکھا تھا کہ سزا ہو یا نہ ہو لیکن توہین عدالت کا مرتکب پائے جانے کے باوجود یہ مقدمہ آپ جیت گئے ہیں ۔۔۔۔