Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 20, 2020

تلنگانہ ‏کی ‏متعصب ‏حکومت ‏، ‏مسلمان ‏اور ‏مسلم ‏قیادت۔




*سرفراز احمدقاسمی،حیدرآباد*
  برائےرابطہ: 8099695186
                   صداٸے وقت 
              =============
     2014میں برسوں  احتجاج کےنتیجےمیں ملک کی 29ویں ریاست کےطورپر تلنگانہ ایک نئی ریاست بنی،اسوقت جونعرہ دیاگیا وہ یہ تھاکہ ریاست کو "بنگارو تلنگانہ"یعنی گولڈن تلنگانہ بنایاجائے گااوریہ کہ اس ریاست میں گنگاجمنی تہذیب کی بحالی اولین ترجیح ہوگی، مسلمانوں کی پسماندگی کےعلاوہ انکی
 عظمت رفتہ کوبحال کیاجائے گا،یہ اوراس جیسے بہت سے دلفریب نعرے لگائےگئے،ریاست کےمسلمانوں سے ہمدردی کاڈھونگ رچایاگیا،لفاظی کی گئی،زبانی جمع خرچ سےکام لیاگیا،مسلمانوں سےجھوٹ،فریب اورمکاری وعیاری کامظاہرہ  کیاگیا، پھرحکمراں پارٹی کی جانب سےمسلمانوں کو باربار یہ تاثردیاگیا کہ اب ملک میں سب سےبڑا"سیکولر"اگرکوئی ہے تووہ ہم ہیں،یہ الگ بات ہے کہ تلنگانہ کی یہ حکمراں پارٹی،ٹی آرایس،اوراسکے چیف منسٹر مسلمانوں کےخلاف لئےگئے مرکزی حکومت کےہرفیصلے کی حمایت کرتےرہے،اورہرموقع پرمسلمانوں کے پیٹھ میں خنجرگھونپنے کاکام  کےسی آرگذشتہ 6 سالوں سےکرتےرہے،چاہے تین طلاق کامعاملہ ہو،370کا معاملہ ہو،یا پھر سی اےاے اوراین آرسی کامعاملہ ہو ہرجگہ کےسی آر نے بی جےپی کی حمایت کی لیکن اسکے باوجود،کچھ ضمیرفروش،چمچہ گری کرنےوالے مسلم لیڈران انہیں آج بھی  "ملک کاسب سےبڑاسیکولر سی ایم"بولتے نہیں تھکتے،لیکن جیسے جیسے وقت گذر رہاہے کےسی آرکی خاکی چڈی،اوراسکاسنگھی پلان بےنقاب ہورہاہے،اب تک گولڈن تلنگانہ تونہیں بن سکا لیکن سی ایم نے اپنے خاندان والوں کو"گولڈن خاندان" ضرور بنالیا،500کروڑ کےخرچ سے اپنے خاندان کےرہنےکےلئے ایک عالیشان محل ضرور بنالیاجوشہرکےبیگم پیٹ میں "پرگتی بھون" کےنام سے مشہور ہے،اوراسوقت ریاست کی حکومت ایک خاندان کےہاتھ میں ہے،سوال یہ ہے کہ الگ ریاست کی جدوجہد کےلئے مسلمانوں نےجوقربانیاں اسکے بدلے میں مسلمانوں کوکیاملا ؟ مسلمانوں نے جسے مسیحا سمجھا  اور اس پراعتماد کیااس نے مسلمانوں کوکیادیا؟کیا اس پربحث  نہیں ہونی چاہئے؟
ابھی گذشتہ ماہ ہی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہواہے کہ ملک کے تمام سی ایم  سے زیادہ تنخواہ اورمعاوضہ لینے والے تلنگانہ کے سی ایم کے سی آر ہیں جو پہلے نمبرپر ہیں،یعنی جنکی تنخواہ سب سے زیادہ ہے،ایک مقامی اخبار کی یہ رپورٹ ملاحظہ کیجئے"تلنگانہ  کےوزیر اعلی چندر شیکھر راؤ ملک میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے وزیراعلی ہیں،یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں ہواہے جب کوروناکے باعث نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ریاست معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے،کےسی آر،ہندوستان کے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے وزیراعلی ہیں،جنکی ماہانہ تنخواہ 4لاکھ دس ہزارہے،جبکہ آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ جگن موہن ریڈی کی تنخواہ  3لاکھ پینتیس ہزار ہے،جو پانچویں نمبر پرہیں،دوسرے نمبر پر دہلی کے سی ایم کیجری وال ہیں جنکی تنخواہ  4لاکھ ہے،اسکے بعد تیسرے نمبر پر یوپی کے وزیراعلیٰ ہیں جنکی تنخواہ 3لاکھ 65ہزار ہے،اسی طرح مہاراشٹر کے سی ایم ٹھاکرے 3لاکھ 40 ہزار ہے،گجرات کے سی ایم وجےروپانی 3لاکھ 21ہزار ہے،شمال مشرقی ریاستوں  کے وزرائے اعلی سب سے کم تنخواہ کےحامل بتائے گئے ہیں،ناگالینڈ کے سی ایم کی معمولی تنخواہ ایک لاکھ دس ہزار روپے ماہانہ ہے،جوملک میں سب سےکم معاوضہ لینے والے سی ایم ہیں،اسکے بعد منی پور کے سی ایم بیرن سنگھ ہیں جنکو ایک لاکھ بیس ہزار ماہانہ ملتے ہیں،جبکہ میگھالیہ کے سی ایم سگما کی تنخواہ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے ہے،آسام اور اروناچل پردیش کے وزیراعلیٰ کی تنخواہ ایک لاکھ تیس ہزار  اور ایک لاکھ پچیس ہزار ہے"(سہارا حیدرآباد)
اس رپورٹ سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ریاست کو لوٹنے والے لوگ آخرکیسے ریاست کو "سنہرا تلنگانہ"بنائیں گے؟کیاان لوگوں سے اسطرح کی امیدیں رکھی جاسکتی ہیں؟ریاست  تلنگانہ  کے چیف منسٹر ان دنوں من مانی اور آمرانہ راستے پرچل رہے جسکا انجام بہر حال اوربہت جلد زوال کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا،گذشہ اسمبلی الیکشن میں جب ایک انتخابی جلسے سے کےسی آر بھاشن دے رہے تھے تھی درمیان میں سے کسی نےیہ سوال کرلیاکہ صاحب 12فیصد ریزرویشن کاکیاہوا؟یہ سوال سنتے ہی جیسے انکے سرپربجلی گری ہو،آگ بگولہ ہوکرسائل کو یہ جواب دیاکہ "بیٹھو بیٹھو بتائیں گے تمہارے باپ کو بھی بتائیں گے"اس منظر کو کمیرے نے بھی قیدکیا اورٹی وی واخبارات نے اسکی رپورٹنگ بھی کی،یہ لہجہ اورانداز انتہائی بدبختانہ اورفرعونی تھا،لیکن اس واقعے کے باوجود  مسلمانوں نے دوبارہ انھیں اقتدار کی کرسی پربٹھانے میں اہم رول اداکیا،اور یہ پھر 2019 میں اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئے،اب اسکا مسلمانوں کو یہ دیاجارہاہے کہ کروڑوں روپے خرچ کرکے نرسمھاراؤ کی برسی منائی جارہی ہے،اوراسکواپناگرو بتایا جارہاہے،اسکی بیٹی کو قانون سازکونسل کی رکنیت دیکر ایوان میں بھیجاجارہاہے،نرسمھاراؤ جو بابری مسجد معاملے کا کلیدی مجرم ہے، جس نے پانچ سوسالہ بابری مسجد کو شہید کرایا،اضلاع کا نام تبدیل کر کے اسکے نام پر رکھا جارہاہے اور دوسری جانب نظام سرکار کی بنائی ہوئی مساجد اوردیگر تاریخی عمارتوں کومنہدم کیاجارہاہے،کیایہ سب مسلمانوں سے دوستی کےلئے ہورہاہے؟ایسے وقت میں مسلم سیاسی پارٹی اور مسلم لیڈران کی کیا ذمہ داری ہے؟مسلم لیڈران اتنا ضمیرفروش کیوں ہوگئے؟کیاانھیں مرنا نہیں ہے خداکے یہاں جواب نہیں دیناہے؟اسقدر ضمیرفروشی کے شکارکیوں ہوگئے؟انکی غیرت کہاں چلی گئی؟اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے یہ لوگ اپنےسیاسی آقاؤں کی خوشنودی میں کیوں مصروف ہیں؟انکی ساری وفاداری اپنی پارٹی اور اپنی سیاست کےلئے کیوں مخصوص ہوگئی؟
قوم کے مفاد کےلئے یہ لوگ کب تیارہونگے؟
کشمیر کےوادی گلوان میں چینی فوج سے جھڑپ کے بعد ریاست کاایک سپاہی کرنل سنتوش بابو شہیدہوگیا،اسکے ارکان خاندان کو پانچ کروڑ کاچیک،711مربع گز زمین کا ایک پلاٹ بنجارہ ہلز میں اور ڈپٹی کلکٹر کاعہدہ بھی شہید کی بیوہ کو کےسی آر نے دیا،یہ اچھی بات ہے کہ دیش پرجان نچھاور کرنےوالوں کے خاندان کوحکومت نوازتی ہے،لیکن دوسری طرف مسلمانوں کےلئے ہماری حکومتوں کادل چھوٹا کیوں ہوجاتاہے؟2013 میں پاکستانی حملوں میں شہید ہونےوالے نایک فیروز خان کی بیوہ کو  30لاکھ روپے دینے کااعلان کیاگیاتھا،یہ رقم مرکزی حکومت کی جانب سے بعد ازمرگ بہادری کاایوارڈ حاصل کرنے والے سپاہیوں کودی جاتی ہے،اس رقم کے حصول کےلئے فیروزخان کے ارکانِ خاندان سات سال سے جدوجہد کررہے ہیں لیکن ابھی تک یہ رقم انھیں نہیں ملی،آخرکیاوجہ ہے؟کب تک مسلمان صرف جھوٹے وعدوں کے ذریعے بہلائے جاتے رہیں گے؟
کے سی آر نے ریاست کے جومسلمانوں سے جووعدے کئے تھے آخریہ کب پورے کیے جائیں گے؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ کے تلنگانہ کے چیف منسٹر نے مسلمانوں سے کیاکیاوعدے کئے اور کون کونسا سبز باغ دکھلایا، جواب بھی وعدہ ہی ہے۔
12 فیصد ریزرویشن،آلیر انکاؤنٹر کی رپورٹ عام کرنےکاوعدہ،تلنگانہ وقف بورڈ کو قانون درجہ،اسلامک سنٹر بنانےکاوعدہ،پرانے شہرکی ترقی کےلئے ایک کروڑ روپے خرچ کرنےکاوعدہ،
جہانگیر پیراں درگاہ کی ترقی کےلئے 50کروڑ،پرانے شہر میں میٹرو ٹرین،دولاکھ لوگوں کو ڈبل بیڈروم مکانات کی فراہمی،گھرگھر پانی کےلئے نل کنکشن،کسانوں کے قرضوں کی معافی،کے جی تاپی جی مفتی تعلیم،اجمیر میں تلنگانہ کے زائرین کےلئے رباط کاقیام،سرکاری ملازمین کےریٹائرمنٹ کی عمرمیں اضافہ،بیروزگار اقلیتی نوجوانوں کوخودروزگارکی فراہمی کےلئے 80فیصد سبسڈیز کی اجرائی،اردو ٹیچرس کےتقررات کےلئےخصوصی ڈی ایس سی،ایس سی طبقات کوفی کس تین ایکڑ اراضی کاوعدہ،عنبرپیٹ مسجد کی دوبارہ تعمیر،شہرکےقدیم عثمانیہ دواخانہ کوعالیشان بنانےکاوعدہ،
یہ ہیں وہ اہم وعدے جو کےسی آر اورریاست کی حکمراں پارٹی نےکیاتھا جوابھی تک خواب ہے،اوراب توسکریٹریٹ کی شہید مساجد کی تعمیر کاوعدہ بھی شامل ہے،تلنگانہ ریاست کی جدوجہد کرنےوالے نوجوانوں سے مقدمہ واپس لینے اورسرکاری ملازمت دینے کاوعدہ بھی کیاتھا،لیکن یہ سب وعدہ ابھی تک وعدہ ہی ہے،ہرضلع میں ایک عالشان ہاسپٹل کاوعدہ بھی کیاتھا لیکن کچھ بھی پورانہیں کیاگیااب ایسی صورت میں مسلم لیڈران کیاذمہ داریاں ہیں  اورہمیں آگے کیاکرناہوگا کب تک مسلمانوں کویہ سیاسی پارٹی ٹھگتی رہیں گی،ہمیں یہ سوچناہوگااور غوروفکر کرناہوگا کیاہم اسکے لئے تیارہیں؟ شاید کسی شاعر نے ایسے ہی موقع کےلئے کہاہےکہ 
خاموشی بزدل نہ کرڈالے تمہیں،جب ضرورت ہوزباں کھولاکرو
جی حضوری اورغلامی چھوڑکر،قوم کےحق میں بھی کچھ بولاکرو

(مضمون نگار،کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کےجنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com